History of Islam

جنت کے وجود پر دلائل حدیث سے حصہ چہارم و آخری

جنت کے وجود پر حدیث سے دلائل پارٹ(۴) تم میرے سے پہلے رکوع اور سجدے میں نہ جایا کرو اور نہ سروں کو اوپر اٹھایا کرو

جنت کے وجود پر حدیث سے دلائل

حصہ چہارم اور آخری

 

صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے

قَالَ بَینَمَا رَسُولُ اللہﷺ ذَاتَ یَومٍ اِذَا اُقِیمَتِ الصَّلٰوۃُ فَقَالَ یَایُّھَا النَّاسُ اِنِّی اِمَامُکُم فَلَا تَسْبِقُونِی بِالرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ وَلَا تَرْفَعُوا رُؤُوسَکُم فَاِنِّی اَرَاکُم مِنْ اَمَامِی وَمِن خَلْفِی وَاَیمُ الَّذِی نَفسِی بِیَدِہِ لَو رَأَیتُمْ مَا رَأَیتُ لَضَحِکتُم قَلِیلًا وَلَبَکَیتُم کَثِیرًا قَالُوا وَمَا رَأَیتَ یَا رَسُولَ اللہِ ﷺقَالَ رَأَیتُ الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ

ترجمہ: حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے ایک دفعہ جب نماز کھڑی ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میرے سے پہلے رکوع اور سجدے میں نہ جایا کرو اور نہ سروں کو اوپر اٹھایا کرو کیونکہ میں تمہیں پیچھے سے بھی دیکھ لیتا ہوں جیسا سامنے سے دیکھتا ہوں اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم وہ کچھ دیکھ لیتے جو میں نے دیکھا ہے تو ہنسنا کم کر دیتے اور رونا زیادہ کر دیتے۔ صحابہؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ نے کیا دیکھا ہے؟

آپ ﷺ نے فرمایا میں نے جنت اور دوزخ کو دیکھا ہے۔

مؤطَّا میں حضرت کعب بن مالکؓ سے روایت ہے

قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہﷺ اِنَّمَا نَسْمَۃُ المُؤمِنِ طَیرٌ یَعْلُقُ فِی شَجَرِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی یَرجِعَھَا اللہُ اِلٰی جَسَدِہِ یَومِ الْقِیَامَۃِ۔ ھٰذَا صَرِیحٌ فِی دُخُولِ الرُّوحِ الْجَنَّۃَ قَبْلَ یَومِ القِیَامَۃِ ،،وَمِثْلُہ فِی رِوَایَۃٍ أُخْرٰی عَنِ النَّبِیِّ ﷺ اِنَّ اَروَاحَ الشُّھَدَاءِ فِی حَوَاصِلِ طَیرٍ خُضْرٍ تَعْلُقُ فِی ثَمَرِ الْجَنَّۃِ اَو شَجَرِ الْجَنَّۃِ

  ترجمہ: کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مؤمن کی روح ایک پرندے کی شکل اختیار کر لیتی ہے جو جنت کے درختوں کے اوپر بیٹھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی اس کو اس کے جسم میں لوٹا دے گا ۔ یہ حدیث صراحتاً بیان کر رہی  ہے کہ روحیں قیا مت سے پہلے ہی جنت میں داخل ہو جائیں گی۔

جنت کے وجود پر دلائل

اسی طرح کی ایک اور روایت میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کا روپ دھار کر جنت کے باغات میں مزے کرتی رہتی ہیں ۔

صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ  کی روایت ہے

اِنَّ رَسُولَ اللہﷺ قَالَ لَمَّا خَلَقَ اللہُ الجَنَّۃَ وَالنَّارَ اَرْسَلَ جِبرَئِیلَ اِلٰی الْجَنَّۃِ فَقَالَ اِذْھَ۔بْ فَانْظُرْ اِلَیھَا وَاِلٰی مَا اَعْدَدتُّ لِاَھْلِھَا فَذَھَبَ فَنَظَرَ اِلٰی مَا اَعَدَّ اللہُ لِاَھْلِھَا فِیھَا فَرَجَعَ فَقَالَ لَا یَسمَعُ بِھَا اَحَدٌ اِلَّا دَخَلَھَا فَأَمَرَ الجَنَّۃَ فَحُفَّتْ بِالمَکَارِہِ فَقَالَ فَارْجِعْ فَانْظُرْ اِلَیھَا فَنَظَرَ اِلَیھَا ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ وَعِزَّتِکَ لَقَدْ خَشِیتُ اَنْ لَّا یَدخُلَھَا اَحَدٌ قَالَ ثُمَّ اَرْسَلَہُ اِلٰی النَّارِ قَالَ اِذْھَبْ فَانْظُرْ اِلَیھَا وَاِلٰی مَا اَعْدَدتُّ لِاَھْلِھَا فِیھَا  قَالَ فَنَظَرَ اِلَیھَا فَاِذَا ھِیَ یَرکَبُ بَعضُھَا بَعْضًا  ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ وَعِزَّتِکَ وَجَلَالِکَ لَا یَدخُلُھَا اَحَدٌ سَمِعَ بِھَا فَأَمَرَ بِھَا فَحُفَّتْ بِالشَّھْوَاتِ ثُمَّ قَالَ اِذْھَبْ فَانْظُرْ اِلٰی مَا اَعْدَدتُّ لِاَھْلِھَا فِیھَا فَذَھَبَ فَنَظَرَ اِلَیھَا فَرَجَعَ فَقَالَ وَعِزَّتِکَ لَقَدْ خَشِیتُ اَنْ لَا یَنْجُوَ مِنْھَا اَحَدٌ اِلَّا دَخَلَھَا

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے جب جنت اور دوزخ کو بنایا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیجا کہ جنت دیکھ کر آؤ کیسی کیسی نعمتیں ہیں اس میں؟جب جبرئیل علیہ السلام دیکھ کر آئے تو قسم اٹھا کر کہا کہ بھی اس کے بارے میں سنے گا وہ جائے بغیر نہیں رہے گا  تو اللہ تعالی نے جنت پر ناگواریوں کا پردہ ڈال دیا پھر جبرئیل علیہ السلام کو بھیجا واپس آکر جبرئیل علیہ السلام نے پروردگا راب تو مجھے خطرہ ہے کہ شاید ہی کوئی اس میں جا پائے۔ پھر اللہ تعالی نے اس کو دوزخ کی طرف بھیجا کہ دیکھ کر آؤ اس میں کیا کیا عذاب اور مصیبتیں ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے دیکھا کہ آگ کے شعلے ایک دوسرے  کے اوپر بلند ہو رہے ہیں۔

 یہ دیکھنے کے بعد کہا تیری عزت و جلال کی قسم  جو بھی اس کے بارے میں سنے گا ہر گزاس میں نہیں جائے گا۔

تو اللہ تعالی نے دوزخ پر لذات و شہوات کا پردہ ڈال دیا پھر جبرئیل علیہ السلام کو بھیجا۔ واپس آ کر جبرئیل علیہ السلام نے  اللہ کی عزت کی قسم کھا کر کہا کہ اب تو شاید ہی کوئی اس سے بچے۔

 شریعت میں جنت کے وجود پر  مکمل دلائل موجود ہیں 

صحیحین کی ایک اور روایت حضرت ابوہریرہؓ سے کہ جنت کو ناگواریوں کے ساتھ اور دوزخ کو خواہشات کے ساتھ ڈھانپ دیا گیا ہے۔

صحیحین میں حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت ہے

عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ اِخْتَصَمَتِ الجَنَّۃُ وَالنَّارُ فَقَالَتِ الجَنَّۃُ یَارَبِّ مَا لَھَا اِنَّمَا یَدْخَلُھَا ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسِقطُھُم وَقَالَتِ النَّارُ یَا رَبِّ مَا لَھَا یَدْخُلُھَا الجَبَّارُونَ فَقَالَ اَنتِ رَحْمَتِی اُصِیببُ بِکِ مَنْ اَشَاءُ وَاَنتِ عَذَابِی اُصِیبُ بِکِ مَنْ اَشَاءُ وَلِکُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْکُمَا مِلْؤُھَا

ترجمہ: رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ کا جھگڑا ہوا جنت نے کہا یا رب یہ کیا بات ہوئی کہ میرے اندر کمزور اور بظاہر کم مرتبہ لوگ داخل ہوں گے اور دوزخ نے کہا یارب یہ کیا ماجرہ ہے کہ مجھ میں متکبر اور  ظالم لوگ داخل ہوں گے۔ جواب میں اللہ تعالی نے جنت سے کہا کہ تو میری رحمت کی جگہ ہے جس پر رحمت کروں گا تیرے اندر ٹھکانہ دوں گا اور دوزخ سے کہا کہ تو میرے عذاب کی جگہ ہے تیرے ذریعہ سے جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا اور یہ وعدہ ہے کہ تم دونوں کولازمی بھروں گا۔

صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے

اِشْتَکَتِ النَّارُ اِلٰی رَبِّھَا فَقَالَتْ یَا رَبِّ أَکَلَ بَعْضِی بَعْضًا فَأَذِنَ لَھَا بِنَفْسَینِ نَفْسٌ فِی الشِّتَاءِ وَنَفْسٌ فِی الصیفِ

 ترجمہ: حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ دوزخ نے اللہ تعالی سے بھڑکنے کی وجہ سے گرمی کے زیادہ ہونے کی شکایت کی تو اللہ تعالی نے دو بار سانس لے کر گرمی کو برابر کرنے کی اجازت دی ایک مرتبہ سردی میں اور ایک مرتبہ گرمی میں۔

صحیح بخاری میں حضرت انسؓ کی روایت ہے

بَینَمَا اَنَا اَسِیرُ فِی الجَنَّۃِ وَاِذَا بِنَہرٍ فِی الجَنَّۃِ حَافَتَاہُ قُبَابُ الدُّرِّالمُجَوَّفِ قُلتُ مَا ھٰذَا یَا جِبرَئِیلُ؟ قَالَ ھٰذَا الْکَوثَرُ الَّذِی اَعْطَاکَ رَبُّکَ فَضَرَبَ المَلَکُ بِیَدِہِ فَاِذَا طِینُہُ المِسْکُ الاَذْفَرُ

ترجمہ: رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ کہ میں جنت میں چل رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک نہر پر پڑی جس کے کنارے پرگول موتیوں کے بنے ہوئے خیمے لگے ہوئے تھے۔ میں نے جبرئیل علیہ السلام سے کہا یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا یہ حوض کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو دیا ہے پھر ایک فرشتے نے اس میں ہاتھ مارا تو اس کی مٹی انتہائی تیز مہک والے مشک کی تھی۔

Leave a Comment