جنت کی موجودگی؟ ایک صحیح مسلمان کیلئے کیا کیا عقیدے رکھنا ضروری ہیں؟
حصہ اول
جنت کی موجودگی
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ تابعینؒ اور تبع تابعینؒ اہل السنۃ واہل الحدیث اور فقہاء کرام اور تصوف سے منسلک صوفیا مشائخ عظام یہ سب کے سب اس بات ہر متفق ہیں کہ جنت ابھی اس وقت موجود ہے ایسا نہیں ہے کہ مستقبل میں کسی موقع کے پیش آنے پر اس کو اس وقت پیدا کیا جائے گا اور یہ تمام حضرات کہتے ہیں کہ یہی بات کتاب اللہ و سنت رسول اللہ سے ثابت ہے اور تمام کے تمام انبیاء و رسولوں نے اپنی اپنی قوم کو اسی بات کی دعوت دی، اور یہ متفقہ عقیدہ چلا آرہا تھا صدیوں سے بغیر کسی اختلاف کے حتی کہ اچانک ایک گروہ پیدا ہوا قدریہ اورمعتزلہ کے نام سے اور انہوں نے لمحہ موجود میں جنت کے وجود کا انکار کر دیا اور کہا کہ اللہ تعالی قیامت کے دن جنت کو پیدا فرمائے گا کیونکہ اس کی ضرورت قیامت کے دن پڑے گی اور یہ بات انہوں نے اپنے اس بے ہودہ اصول کی وجہ سے کہی جو انہوں نے گھڑ لیا تھا کہ اللہ تعالی بھی کام کرنے میں کچھ چیزوں کا پابند ہے اور اللہ تعالی کو کچھ کام کرنے چاہیں اور کچھ کام نہیں کرنے چاہئیں اور اللہ تعالی کی ذات کو اپنے اوپر قیاس کرنے لگے۔ یہ اضافہ مُشَبِّھۃ نام کے فرقے نے کیا اور بیچ میں مُعَطِّلَہ نام کا فرقہ بھی آگیا اور کہا کہ جنت کو قبل از وقت پیدا کرنا بقول ان کے ایک بیکار کام ہے اور اللہ تعالی ایسے بے کار کام نہیں کرتا کہ ٹھکانہ تو بنا دیا اور اس میں رہنے والے صدیوں بعد میں آئیں گے اور صدیوں تک جنت خالی پڑی رہے گی اور ایک لچر سی دلیل دی کہ بالفرض اگر کوئی بادشاہ کوئی بلڈنگ سرائے یا کوئی بھی چیز تعمیر کرے اور اس میں ہر طرح کے راحت وآرام کا سامان مہیا کرے کھانے پینے کی ہمہ اقسام جمع کرے لیکن ایک لمبے عرصے تک لوگوں کو اس میں داخل نہ ہونے دے تو عقل مند لوگ اس کو اچھا نہیں سمجھیں گے اور اعتراض کریں گے کہ اگر لوگوں کو داخل نہیں ہو نے دینا تھا تو پھر تعمیر پر اتنا وقت اور پیسہ کیوں برباد کیا؟
ہم بات کر رہے ہیں جنت کی موجودگی کے بارے میں
اس کمزور دلیل کی بنیاد پر انہوں نے گویا اللہ تعالی پر پابندی لگا دی اور اللہ تعالی کے افعال کو اپنے یعنی بندوں کے افعال پر قیاس کرنے لگے (حالانکہ عقل کے اندھے یہ نہیں سوچتے کہ اللہ تعالی نے جنت بنا کر اپنے بندوں کو یہ ہدف دیا ہے کہ اس کو حاصل کرو ایسے ہی جیسے ہم کسی مسابقت و مقابلہ میں دیکھتے ہیں کہ ہدف پہلے مقرر کیا جاتا ہے اگر ہدف ہی مقرر نہ ہو تو مسابقت کا کیا فائدہ؟ یہ الگ بات ہے بعض ہدف ایسے ہوتے ہیں جن کو پانے کیلئے صدیاں لگ جاتی ہیں یہ تو ہدف کے عظیم ہونے کی دلیل ہے نہ یہ کہ کہہ دیا جائے کہ وہ ہدف موجود ہی نہیں ہے)اور اس مذہب باطل کے مقابلے میں آنے والی صریح نصوص قرآنیہ واحادیث نبویہﷺ کو سرے سے مسترد کر دیا یا پھر ان نصوص میں ایسی ایسی تاویلیں کی کہ تحریف کی حد کو پہنچ گئیں، اور جس نے ان کی ان تاویلات کا انکار کیا اس کو گمراہ قرار دیا اور بدعتی کہا اور ان تاویلات کو ثابت کرنے کیلئے ایسی ایسی باتیں اور قانون بنائے کہ سن کر ہی اہل علم ودانش کی ہنسی چھوٹ جائے، اس کے برعکس اہل سنت کے اکابر سلفًا وخلفًا متفقہ طور پر اپنے عقائد میں یہ بات لکھتے آئے ہیں کہ جنت اور جہنم ایسی مخلوق ہے جو اس وقت موجود ہیں۔
ہمارا موضوع ہے جنت کی موجودگی
اسی بات کو بیان کیا ہے علماء عقائد کے سرخیل مولانا ابوالحسن اشعری ؒ نے اپنے ایک مقالے میں اور فرمایا کہ اہل سنت واہل حدیث جن عقائد پر متفق اور جمع ہیں وہ یہ ہیں
اللہ تعالی کی ذات وصفات کا اقرار کرنا، فرشتوں کے وجود کا اقرار کرنا۔
اللہ تعالی کی طرف سے بھیجے ہوئے تمام انبیاء اور رسولوں کا اقرار کرنا اور ان کی تصدیق کرنا۔
جو کچھ اللہ تعالی نے نازل فرمایا اور جو کچھ رسولوں نے ہم تک پہنچایا وہ ان تمام باتوں میں سے کسی ایک کا بھی انکار نہیں کرتا۔
اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ تعالی ایک ہے وحدہ لا شریک ہے، بے نیاز ہے، نہ اس کی بیوی ہے اور نہ ہی بچے ہیں۔
یہ اقرار کرنا کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ جنت حق ہے، دوزخ حق ہے اور قیامت لا محالہ آئے گی۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں اور اللہ تعالی قبروں سے لوگوں کو زندہ کرکے اٹھائے گا اور اللہ تعالی عرش پر جلوہ افروز ہیں
اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی کے ہاتھ ہیں پر انسانوں کی طرح نہیں ہیں
خَلَقْتُ بِیَدَیَّ۔
اور
بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوطَتَانِ۔
اللہ تعالی کی آنکھیں ہیں لیکن مخلوق کی طرح نہیں ہیں
تَجْرِی بِاَعْیُنِنَا۔
اللہ تعالی کا چہرہ بھی ہے لیکن جس کو ہم چہرہ کہتے یں وہ ایسا نہیں ہے
وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔
یہ کہ اللہ تعالی کے نام ہی اس کی ذات ہیں یہ الگ سے کوئی اور چیز نہیں ہیں۔
اللہ تعالی کو صفت علم بھی حاصل ہے
اَنْزَلَہُ بِعِلْمِہِ۔
اللہ تعالی سنتا بھی ہے، دیکھتا بھی ہے اور اس کو قوت بھی حاصل ہے
اَوَلَمْ یَرَوااَنَّ اللہَ الَّذِی خَلَقَھُم ھُوَ اَشَدُّ مِنْھُم قُوَّۃً۔
اور کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی مرضی سے ہوتا ہے
وَمَا تَشَاءُونَ اِلَّا اَنْ یَشَاءَ اللہُ رَبُّ العَالَمِینَ
یہ نہیں ہو سکتا کہ انسان یا کوئی بھی مخلوق کوئی عمل ایسا کر سکے جس کا علم اللہ تعالی کو کرنے سے پہلے نہ ہو یا ایسا کام کر سکے جو علم الہی میں لکھا ہو کہ یہ نہیں کر ے گا۔
مخلوق کے افعال کو پیدا کرنے والا اللہ تعالی ہے کوئی انسان اپنا عمل پیدا نہیں کر سکتا بلکہ صرف کسب کر سکتا ہے۔ یعنی کام کر سکتا ہے لیکن اس کام کو پیدا نہیں کر سکتا۔
اللہ تعالی نے مؤمنین کو اطاعت کی توفیق دی، ان پر نظر کرم ڈالی اوران کے احوال کی اصلاح کی اور نافرمانوں کو نہیں دی، نہ ہی ان پر نظر کرم ڈالی اور نہ ان کے احوال کی اصلاح فرمائی بلکہ کافرین کےکرتوتوں کی وجہ سے ان پر ذلت ورسوائی کی مہر لگا دی۔
ایمان لاتے ہیں اس پرکہ اچھی بری تقدیر اللہ تعالی کی طرف سے ہے یعنی انسان کی زندگی میں اچھا برا اور کڑوا میٹھا سب کچھ اللہ تعالی کی تقدیر کے موافق ہوتا ہے۔
انسان اپنے لئے نفع یا نقصان کا مالک نہیں ہوتا بلکہ ہر حال میں اللہ تعالی کا محتاج ہوتا ہے۔
یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے۔
اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی قیامت کے دن ایسے نظر آئیں گے جیسے چودھویں رات کو چاند نظر آتا ہے لیکن مؤمن دیکھ سکیں گے کافر نہیں دیکھ سکیں گے
کَلَّا اِنَّھُم عَن رَّبِّھِم یَومَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ۔
جب حضرت موسی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام نے دنیا میں رؤیت (دیکھنے) کا سوال کیا تو تجلی کے نتیجے میں پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں اللہ تعالی کودیکھنا ممکن نہیں ہے۔
جاری ہے
Leave a Comment