جنگ خیبر کا قصہ: آنحضرتﷺ کا صلاحیت دیکھ کر معاملہ کرنا
حصہ سوم
اسی طرح کا معاملہ آنحضرتﷺ نے جنگ خیبر کے محاصرہ کے موقع پر کیا کہ آنحضرتﷺ جب خیبر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے تو مختصر سی جنگ کے بعد امن کا معاہدہ کیا اور شرائط میں شامل تھا کہ یہود اپنی کسی جائیداد کو چھپائیں گے نہیں نہ سونا چاندی نہ ہی کچھ اور سب کچھ ظاہر کریں گے اور پھر جو فیصلہ ہوگا قبول کریں گے اور یہ دھمکی بھی دی گئی تھی کہ اگر ثابت ہو گیا کی کچھ چھپایا ہے تو پھر امن نہیں ملے گا اور صلح کی کوئی گارنٹی نہیں ہوگی۔
جنگ خیبر کا قصہ یہی بیان کرتا ہے
حُیَیّ بْنُ اَخْطَب یہود کا بہت بڑا سردار تھا اور یہ کچھ دن پہلے مدینہ منورہ سے دباغت کی کھالیں سونا اور کافی سارا کپڑا لایا تھا اور یہ اس جنگ سے پہلے ہی مر گیا تھا اور یہ سارا مال چھوڑ گیا تھا اور یہود نے یہ مال رسول اللہﷺ سے چھپا لیا۔
آنحضرتﷺ نے حُیَیّ بْنُ اَخْطَب کے چچا سے پوچھا کہ وہ مال، مشک کپڑے، سونا کہاں ہے جو حُیَیّ بْنُ اَخْطَب لایا تھا اس نے جواب دیا کہ اخراجات اور جنگ وغیرہ میں خرچ ہو گیا ہے۔
آنحضرتﷺ کو بڑا تعجب ہوا کہ حُیَیّ بْنُ اَخْطَب کی موت ابھی ابھی ہوئی ہے اور مال کافی زیادہ تھا اور ابھی قریب میں کوئی جنگ وغیرہ بھی نہیں ہوئی۔
جنگ خیبر کے قصہ میں یہ سبق ملتا ہے
بہرحال یہود نے کہا کہ مال سارا خرچ ہو گیا ہے آپﷺ سمجھ گئے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ آپﷺ نے اپنے اصحاب پر نظر ڈالی وہ کثیر تعداد میں موجود تھے اور ہر ایک آپ ﷺ کے اشارہ کا منتظر تھا اور ماننے کیلئے تیار بھی لیکن آنحضرتﷺ حضرت زبیربن عوامؓ کی متوجہ ہوئے اور فرمایا زبیر ذرا ان سے تحقیق کرکے صحیح بات نکلواؤ۔ چنانچہ حضرت زبیر بن عوامؓ نے انتہائی تیز نظر سے اس یہودی کو دیکھا تو وہ کپکپا گیا اور سمجھ گیا کہ معاملہ سنگین ہے اس کے بعد اس یہودی نے بتایا کہ میں نے حُیَیّ بْنُ اَخْطَب کو فلاں ویرانے میں جاتے ہوئے دیکھا ہے اور ایک پرانی حویلی کی طرف اشارہ کیا۔ پھر سب مل کر وہاں گئے اور زمین میں دبا ہوا مال نکال کر لے آئے یہ تھا آنحضرتﷺ کا معاملہ حضرت زبیر بن عوامؓ کے ساتھ کہ حضرت زبیرؓ اس کام کے اہل تھے تو آپﷺ نے ان کے ذمہ یہ کام لگایا۔
حضرات صحابہ کرام ؓ بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے معاملہ کرتے تھے۔
آنحضرتﷺ کی مرض الوفات میں آنحضرتﷺ پر مرض شدید ہو گیا اور تکلیف بڑھ گئی اور اٹھنے کی ہمت نہ رہی توآنحضرتﷺ نے بستر پر لیٹے ہوئے ارشاد فرمایا
مُرُوا أَبَابَکرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ
ابو بکر سے کہو لوگوں کو نماز پڑھائے۔
ادھر حضرت ابوبکرؓ انتہائی نرم دل اور آنحضرتﷺ کے سفروحضر کے ساتھی زمانہ جاہلیت اور اسلام کے دوست اور آنحضرتﷺ کی زوجہ محترمہ کے والد اور آنحضرتﷺ کی مرض کی وجہ دل زخمی ان حالات میں جب آنحضرتﷺ نے نماز پڑھانے کا حکم دیا تو حاضرین میں سے کسی نے عرض کیا کہ ابوبکرؓ نرم دل ہیں اس لئے وہ آنحضرتﷺ کی جگہ پر کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھا سکیں گے کیونکہ ان پر آپﷺ کی مرض کا بہت اثر ہے وہ تو روتے رہیں گے نماز نہیں پڑھا سکیں گے (لیکن آنحضرتﷺ نے تو لوگوں کو اپنے سے یہ بتانا تھا کہ میرے بعد ابوبکرؓ خلافت کا سب سے زیادہ حق دار ہے ) چنانچہ آنحضرتﷺ نے دوبارہ حکم دیا کہ ابو بکر سے کہو لوگوں کو نماز پڑھائے حتی کہ حضرت ابوبکرؓ نے نماز پڑھائی اور آنحضرتﷺ نے اپنی زندگی میں ہی اپنے عمل سے امت کو بتا دیا کہ میرے بعد ابوبکرؓ امور خلافت کے حق دار ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ حضرت ابوبکرؓ رقیق القلب یعنی نرم دل ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی درجہ کہ ہیبت کے مالک بھی تھے اور کبھی کبھی تو ایسا غصہ آ جاتا تھا جو آپؓ پر جلال طاری کر دیتا تھا۔
اور یہی درس دیتا ہے جنگ خیبر کا قصہ
سقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ
غور کریں آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد صحابہؓ بنو ساعدہ کے سقیفہ یعنی چھپر میں جمع ہوئے تاکہ اپنے لئے خلیفہ کا انتخاب کر لیں اور مھاجرین و انصار دونوں اس چھپر کے نیچے جمع ہوئے اتنے میں حضرت عمرؓ فورا حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے اور صورت حال بتائی پھر یہ دونوں حضرات مل کر سقیفہ بنی ساعدہ میں آئے حضرت عمرؓ واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ہم سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے تو انصار میں سے ایک خطیب کھڑا ہوا اور حمدوثناء بیان کرنے کے بعد کہا ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں اور اسلام کا لشکر ہیں اور اے مہاجرین کی جماعت تم ہمارا ایک حصہ ہو اور تمہاری قوم کا ایک لشکر ہماری طرف بڑھا اور ہمارا حق چھیننا چاہا وغیرہ وغیرہ۔
جب وہ خطیب خاموش ہوا تو میرے دل میں آئی کہ میں بات کروں کیونکہ میں ایک زوردار تقریر تیار کر کے گیا تھا اور میں چاہتا تھا کہ ابوبکرؓ کے سامنے یہ تقریر پیش کروں کیونکہ مجھے اس خطیب کی بات کچھ تیزی و تندی محسوس ہوئی تھی لیکن حضرت ابوبکرؓ نے مجھے کہا آرام سے بیٹھ جاؤ تو میں خاموش ہو گیا کیونکہ میں ابوبکرؓ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پھر اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے گفتگو کی جبکہ وہ مجھ سے زیادہ علم والے تھے اللہ کی قسم حضرت ابوبکرؓ نے کوئی ایسی بات نہیں چھوڑی جو میں تیار کر کے لے گیا تھا مگر بیان کر دی یا اس سے ملتی جلتی بات کر دی یا اس سے بھی اچھی بات کر دی اور خاموش ہو گئے۔
اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ جو تم نے اپنے بارے میں کہا ہے کہ تم خیر پر ہو تو یہ بات بالکل ٹھیک ہے اور تم اس کے اہل بھی ہو۔
لیکن رہا خلافت کا معاملہ تو وہ صرف قریش میں ہوگی کیونکہ قریش ہی عرب کا مرکزی قبیلہ ہے اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے میرا اور عبیدہ بن جراح ؓ کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ آپ لوگ ان دو میں سے جس کو چاہو اپنا خلیفہ چن لو (حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوبکرؓ کی یہ بات ناگوار لگی باقی جو کچھ بھی انہوں نے کہا ناگوار نہیں لگا) اور مجھے گردن اتروا دینے سے اتنا گناہ نہیں محسوس ہوتا جتنا کہ ابوبکرؓ کے ہوتے ہوئے خلیفہ بننا باعث گناہ لگتا ہے۔
اس کے بعد کچھ دیر کیلئے خاموشی چھا گئی پھر ایک انصاری نے کہا کہ میں صاحب الرائے اور سمجھ دار ہوں لہذا میری رائے ہی کہ ایک امیر ہم میں سے ہوجائے اور ایک تم میں سے حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد شور شرابا برپا ہوا اور قریب تھا کہ اختلاف پیدا ہو جائے چنانچہ میں نے موقع بھانپتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ سے کہا اپنا ہاتھ آگے بڑھائیے انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے جلدی سے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی پھر مہاجرین نے بیعت کی اور پھر انصار نے بھی بیعت کر لی۔
جاری ہے
Leave a Comment