اسلامی کیلنڈر کا آغاز کیسے ہوا؟ کیا آپ جانتے ہیں؟
اگر نہیں معلوم تو ہم آپ کو بتاتے ہیں
کہا جاتا ہے کہ جب رسول اکرم ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے تاریخ کو شروع کرنے کا حکم دیا۔ جبکہ مشہور یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے تاریخ کو مرتب کرنے کا اہتمام کیا اور اس کی وجہ یہ بنی کہ حضرت ابوموسی اشعری ؓ نےحضرت عمؓر کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے وقتًا فوقتًا حکم نامے آتے رہتے ہیں جن میں تاریخ درج نہ ہونے کی وجہ سے مشکل پیش آتی ہے اس پرحضرت عمرؓ نے مشورہ کیلئے لوگوں کو جمع فرمایا اور پوچھا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے اور یہ کہ تاریخ کیلئے کس چیز کو معیار بنایاجائے ؟ اس پربعض نے کہا آنحضرتﷺ کی بعثت کو معیار بنا کر تاریخ کو جاری کیا جائے اور بعض نے آنحضرتﷺ کی ہجرت کو بنیاد بنانے کی رائے دی۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے فیصلہ دیا کہ ہم ہجرت کو معیار بنائیں گے کیونکہ ہجرت حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا عمل ہے۔
ؒ از امام شعبی
اسلامی کیلنڈر کا آغاز بڑا دلچسپ ہے
جبکہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ حضرت عمرؓ کی خدمت میں ایک سرکاری دستاویز پیش کی گئی جس پہ شعبان کے مہینے کو تاریخ کے طور پر درج کیا گیا تھا اس پر آپؓ نے پوچھا کونسا شعبان ؟ جو گزر گیا وہ؟یا جو آئے گا وہ؟یا جو موجود ہے وہ؟ پھر آپؓ نے فرمایا کہ لوگوں کیلئے کوئی علامت یا چیز مقررکی جانی چاہیے جس کے ذریعے تاریخ کو پہچاننا آسان ہو جائے۔ اس پر لوگوں نے مختلف آراء پیش کی لیکن کثرت آراء کی بنا پر یہ طے ہوا کہ آنحضرت ﷺ کےمدینہ طیبہ کے قیام کو معیار بنا کر تاریخ کو جاری کیا جائے چنانچہ ہجرتِ رسولﷺ کو بنیاد بنا کر تاریخ کا آغازکردیا گیا۔
اسلامی کیلنڈر کا آغاز ایک بہترین اقدام ہے
جبکہ(محمد بن سیرینؒ) کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور کہا لوگوں نے تاریخ مقرر کرنی شروع کردی ہے آپ نے پوچھا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا عجمی لوگ اپنے معاملات کی تاریخ طے کرتے ہیں مثلا یہ کام فلاں سال کے فلاں مہینے میں ہوگا حضرت عمرؓ نے کہا یہ تو اچھی بات ہے تم لوگ بھی تاریخ مقرر کرو اس وقت لوگوں کا اتفاق ہوا ہجرت سے تاریخ کو شروع کرنے پر پھر یہ طے ہوا کہ محرم کے مہینے سے ابتدا کرتے ہیں کیونکہ یہ امن کا مہینہ ہے اور اس ماہ میں لوگ حج کرکے واپس آجاتےہیں۔
اسلامی کیلنڈر کا آغاز
مشہور تابعی( سعید بن مسیبؒ) کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے لوگوں کو جمع کیا اور پوچھا کہ ہم کس دن سے تاریخ کا آغازکریں تو حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ آنحضرتﷺ کی ہجرت اور مکہ کی سرزمین چھوڑنے سے ابتدا کی جائے یہ بات سن کر حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ کر دیا کہ تاریخ کی ابتدا ہجرت رسولﷺ سے کی جائے گی
زمانہ اسلام سے پہلے تاریخ کا مدارکیا تھا؟
اسلام سے پہلے اولاد ِابراہیم علیہ السلام اس آگ سے تاریخ بیان کرتی تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کیلئے جلائی گئی تھی اور یہ سلسلہ بیت اللہ کی تعمیر تک چلتا رہا ۔
پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد بیت اللہ کی تعمیر سے تاریخ بیان کرتی رہی ۔ حتی کہ جب ان لوگوں نے ارض حجاز سے ادھر اُدھر ہجرت کی تو اپنی ہجرت کو تاریخ کا معیار بنایا۔ اور باقی ماندہ لوگوں نے سابقہ سلسلہ برقراررکھا یہاں تک کہ کعب بن لؤی کی وفات ہو گئی اور عرب کے لوگ انکی وفات سے واقعہ فیل تک تاریخ بیان کرتے رہے ۔ اور یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک حضرت عمرؓ نے سنِ ہجری کو تاریخ کے مدار کیلئے مقرر کر دیا اور یہ واقعہ ہے ۱۷ یا ۱ ۸ہجری کا۔
زمانہ کس چیز کا نام ہے؟
بعض حضرات کے نزدیک دن اوررات کی مختلف ساعات اورگھڑیوں کے مجموعے کا نام زمانہ ہےاوراہل عرب تو کسی پھل وغیرہ کے سیزن کو بھی وقت اور زمانے سے تعبیر کر دیتے ہیں چنانچہ عرب کا مشہور مقولہ ہے
اَتَیتُکَ زَمانَ الصَّرَامِ
میں تیرے پاس کھجور پکنے کے زمانے اور وقت میں آیا
پس معلوم ہوا کہ دن اور رات کے مختلف اوقات کو جوڑ کر زمانے کا نام دیا گیا ہے
دنیا یعنی زمانے کی کل عمر کتنی ہے؟
اس بارے میں حتمی اور صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں کہ دنیا کب ختم ہوگی اور اسکی کل عمر کتنی ہے؟
البتہ بعض غیر معتبر قسم کی روایات سے کچھ مدت معلوم ہوتی ہے جیسا کہ حضرت سعید ابن مسیب ؒ کےذریعہ سے حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ دنیا کی کل عمر سات ہزار سال ہے۔
اور وہب بن منبہ کہتے ہیں چھ ہزار سال ہے۔
امام ابوجعفرابن جریرالطبری کہتے ہیں کہ ان میں سے صحیح بات وہ ہے جس پر بعض روایات دلالت کرتی ہین مثلا ایک روایت حضرت ابن عمرؓ سےمروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تمہاری مدت یعنی عمر تم سے پہلےوالے لوگوں کی بنسبت ایسےہےجیسےعصرسے مغرب تک کا ٹائم ہے یعنی تمہاری عمر عصرسے مغرب تک کے قلیل وقت کی طرح ہے اور پہلی امتوں کی عمر فجر سےظہر اورعصر تک کے زیادہ ٹائم کی طرح ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا میں اور قیامت ان دوکی طرح ہیں اور آپﷺ نے اپنی شہادت والی اوردرمیان والی انگلی کی طرف اشارہ کیا کہ جس طرح یہ انگلیاں ایک دوسرے کے بالکل قریب قریب ہیں اسی طرح میں اور قیامت بھی قریب قریب ہیں۔
اس طرح کے مضمون پر مشتمل احادیث سے بس اتنا معلوم ہوا کہ جو وقت یا زمانہ گزر گیا ہے وہ زیادہ ہے اور جو باقی ہے وہ کم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
یہود کی رائے
یہود کی رائے تورات کے حوالے سے بقول انکے یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے آنحضرتﷺ کی ہجرت تک چارہزار تین سو بیالیس سال کا فاصلہ ہے ۔
نصاری کی رائے
یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے آنحضرتﷺ کی ہجرت تک پانچ ہزار نو سو بہتر سال کا زمانہ ہے
مجوس کی رائے
یہ ہے کہ بادشاہ جیومرث(بقول مجوس کے جیومرث حضرت آدم علیہ السلام ہی کا نام ہے)کے زمانے سے حضورﷺ کی ہجرت تک تین ہزار نو سو انتالیس سال کا زمانہ ہے۔
اب لگے ہاتھ یہ بھی سمجھ لیتے ہیں کہ
اللہ تعالی نے کائنات میں سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا؟
اس سلسلے میں حضرت عبادہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے سنا آپ نے فرمایا سب سے پہلے اللہ تعالی نے قلم کو پیدا کیااور اس سے فرمایا لکھو چنانچہ اس قلم نے اول تا آخر ساری کی ساری تاریخ و تقدیر لکھ ڈالی۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا پہلی چیز جس کو اللہ تعالی نے پیدا کیا وہ قلم ہےپھر اس سے فرمایا لکھ تو اس نے قیامت تک جو ہونا تھا وہ لکھ ڈالا پھر اللہ تعالی نے مزید چیزوں کو پیدا فرمایا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا سب سے پہلی چیز جس کو اللہ تعالی نے پیدا فرمایا وہ قلم ہے پھر نون کو پیدا کیا(نون سے مراد سیاہی والی دوات ہے)پھر اللہ تعالی نے قلم سے فرمایا لکھ اس نے سب کچھ لکھ دیا۔
اور محمد بن اسحاق ؒ کا کہنا ہےکہ سب سے پہلے اللہ تعالی نے روشنی اور اندھیرے کو پیدا کیاپھر اندھیرے سے کالی سیاہ رات بنا ڈالی اور روشنی سے چمکتا ہوا روشن دن بنا دیا۔ لیکن پہلا قول روایات کی بنا پر زیادہ صحیح ہے۔
واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اکمل
Leave a Comment