جنت کی موجودگی (دلائل قرآن و حدیث)
حصہ سوم
دلائل قرآن و حدیث
قولہ تعالی
وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی عِندَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی عِنْدَھَا جَنَّۃُ الْمَأْوٰی
ترجمہ: اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس فرشتے کوایک اور مرتبہ دیکھا اس بیر کے درخت کے پاس جس کا نام سدرۃ المنتھی ہے اسی کے پاس جنۃ المأوی ہے۔
اس آیت میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اصلی شکل میں دوسری مرتبہ دیکھنے کا ذکر ہے اور یہ معراج کے موقع پر ہوا۔
سدرۃ المنتھی عالم بالا میں ایک بیری کا بہت بڑا درخت ہے اس درخت کے پاس جنۃ المأوی ہے یعنی مؤمنوں کا ٹھکانا اور رہنے کی جگہ۔
اللہ کے رسول ﷺ نے اس بیری کے درخت کو دیکھا اور اس کے پاس جنت کو بھی دیکھا جیسا کہ صحیحین کی روایت ہے حضرت انسؓ سے مروی ہے معراج کے متعلق اور اس کے آخر میں یہ جملہ ہے
ثُمَّ انْطَلَقَ بِی جِبرِئِیلُ حَتَّٰی اِنْتَھٰی اِلٰی سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی فَغَشِیَھَا اَلْوَانٌ لَا اَدْرِی مَا ھِیَ؟ثُمَّ دَخَلْتُ الجَنَّۃَ فَاِذَا فِیھَا جَنَابِذُ اللُؤلُؤِ وَاِذَا تُرَابُھَا الْمِسْکُ
ترجمہ: پھر جبرئیل علیہ السلام مجھے آگے لے کر چلے یہاں تک کہ سدرۃ المنتھی کے پاس پہنچ گئے اور اس کو مختلف اقسام کے رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا مجھے ان رنگوں کی کیفیت معلوم نہیں پھر میں جنت میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں موتیوں کے گول گول گنبد ہیں اور جنت کی مٹی خالص مشک کی ہے۔
دلائل قرآن و حدیث
صحیحین کی ایک اور روایت حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ہے
انَّ اَحَدَکُم اِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَیہِ مَقْعَدُہُ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ اِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَمِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَاِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ النَّارِ فَمِنْ اَھْلِ النَّارِ فَیُقَالُ ھٰذَا مَقْعَدُکَ حَتّٰی یَبْعَثَکَ اللہُ یَومَ القِیٰمَۃِ
ترجمہ: کہ جب کوئی مر جاتا ہے تو ہر روز صبح شام اس کو اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے جنتی کو جنت اور جہنمی کو جہنم کا اور یہ کہا جاتا ہے قیامت کے دن تجھے اس میں داخل کیا جئے گا۔
صحیح حاکم اور ابن حبان میں حضرت براء ابن عازب ؓ سے مروی ہے
قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِﷺ فِی جَنَازَۃِ رَجُلٍ مِنَ الاَنْصَارِ۔ وَفِیہِ فَیُنَادِی مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ اَنْ صَدَقَ عَبْدِی فَاَفْرِشُوہُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَاَلْبسُوہُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَافْتَحُوا لَہُ بَابًا اِلٰی الجَنَّۃِ قَالَ فَیَأتِیہِ مِنْ رَوحِھَا وَطِیبِھَا
ترجمہ:حضرت براء ابن عازبؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں نکلے۔ لمبی حدیث ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا تم اس کیلئے جنت کا بچھونا اور لباس لاؤ اور جنت کی کھڑکی کھول دو جس سے جنت کی خوشبوؤئیں اور ہوائیں آتی رہتی ہیں۔
صحیحین کی ایک اور حدیث میں حضرت انس بن مَالِکٍ ؓ سے مروی ہے
قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اِنَّ العَبدَ اِذَا وُضِعَ فِی قَبَرِہِ وَتَوَلّٰی عَنہُ اَصحَابُہُ اِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِم قَالَ فَیَأتِیہِ مَلَکَانِ فَیُقْعِدَانِہِ وَیَقُولَانِ لَہُ مَا کُنتَ تَقُولُ فِی ھٰذَا الرَّجُلِ قَالَ فَامَّا المَؤْمِنُ فَیَقُولُ اَشْھَدُ اَنَّہُ عَبْدُاللہِ وَرَسَولُہُ قَالَ فَیَقُولَانِ لَہُ اُنْظُرْ اِلٰی مَقْعَدَکَ مِنَ النَّارِ فَقَدْ اَبْدَلَکَ اللہُ بِہِ مَقْعَدًا فِی الجَنَّۃِ قَالَ النَّبِیُّ ﷺ فَیَرَاھُمَا جَمِیعًا
ترجمہ: حضرت انس بن ؓمالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب بندہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور رشتہ دار واپس پلٹتے ہیں تو یہ ان کے قدموں کی آواز سنتا ہے اسی اثناء میں دو فرشتے آتے ہیں اور بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ اے آدمی (محمدﷺ) کےبارے میں تو کیا جانتا ہے؟ مؤمن جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں پس فرشتے اسے کہتے ہیں اوپر دوزخ میں اپنا ٹھکانا دیکھ لے اللہ تعالی نے تجھے اس کے بدلے میں جنت کا ٹھکانا عطا فرمایا ہے۔ وہ بندہ اپنے دو نوں ٹھکانے بیک وقت دیکھتا ہے۔
دلائل قرآن و حدیث
سنن ابوداؤد میں حضرت براء ابن عازب سے روایت میں ہے
ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ بَابٌ مِنَ الجَنَّۃِ وَبَابٌ مِنَ النَّارِفَیُقَالُ ھٰذَا کَانَ مَنزِلُکَ لَو عَصَیتَ اللہَ تَعَالٰی اَبْدَلَکَ اللہُ بِہِ ھٰذَا فَاِذَا رَأٰی مَا فِی الجَنَّۃِ قَالَ رَبِّ عَجِّلْ قِیَامَ السَّاعَۃِ کَیمَا اَرْجِعُ اِلٰی اَہلِی ومَالِی فَیُقَالُ اُسْکُنْ
ترجمہ: حضرت براء ابن عازبؓ کی روایت میں ہے پھر ایک دروازہ جنت کا اور ایک دوزخ کا کھول دیا جاتا ہے اور کہا جاتا یہ تیرا ٹھکانا ہوتا اگر تو اللہ کی نافرمانی کرتا لیکن اللہ تعالی تجھے اس کے بدلے میں جنت کا ٹھکانا دے دیا ہے۔ بندہ جب جنت کی نعمتیں دیکھتا ہے تو کہتا یا رب جلدی سے قیامت قائم کر تاکہ میں اپنے اہل وعیال کو دکھا سکوں۔ تو اس سے کہا جاتا ہے خاموشی اختیار کر۔
مسند بزارمیں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے
شَہِدْ نَا مَعَ النَّبِیِّ ﷺ جَنَازَۃً، جَاءَہُ مَلَکٌ فِی یَدِہِ مِطْرَاقٌ فَاَقْعَدَہُ فَقَالَ مَا تَقُولُ فِی ھٰذَا الرَّجُلِ(محمدﷺ) فَاِنْ کَانَ مُؤمِنًا قَالَ اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہُ وَرَسُولُہُ فَیَقُولُونَ لَہُ صَدَقْتَ ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ بَابٌ اِلٰی النَّارِ فَیَقُولُونَ لَہُ ھٰذَا کَانَ مَنْزِلُکَ لَو کَفَرتَ بِرَبِّکَ فَاَمَّا اِذَا آمَنْتَ فَھٰذَا مَنْزِلُکَ فَیُفْتَحُ لَہُ بَابٌ اِلٰی الْجَنَّۃِ فَیُرِیدُ اَنْ یَنْہَضَ اِلٰی الجَنَّۃِ فَیَقُولُونَ لَہُ اُسْکُنْ
ترجمہ:حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک جنازے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اس میت کے پاس ایک فرشتہ آتا لوہے کا گرز لے کر اور اس کوبٹھا کر پوچھتا ہے کہ اس آدمی(محمدﷺ) کے بارے تو کیا کہتا ہے پس مؤمن جواب دیتا ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں فرشتے کہتے ہیں تو سچ بولا پھر دوزخ کی کھڑکی کھول کر کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہوتا اگر تو اللہ کی نافرمانی کرتا تو۔
لیکن تو ایمان والا ہے تو دیکھ جنت میں اپنا ٹھکانا اور جنت کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے وہ بندہ جلدی سے اس میں داخل ہونا چاہتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے ابھی آرام کرو۔
اماں عائشہ ؓ سے صحیح مسلم میں مروی ہے
خُسفَتِ الشَّمسُ فِی حَیَاۃِ رَسُولِ اللہِ ﷺ خَطَبَ النَّاسَ فَاَثْنٰی عَلٰی اللہِ بِمَا ھو اَہلُہُ ثُمَّ قَالَ اِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللہِ لَا یَخْسِفَانِ لِمَوتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہِ فَاِذَا رَأَیتُمُوھَا فَافْزَعُوا اِلٰی الصَّلٰوۃِ وَقَالَ ﷺ رَأَیتُ فِی مَقَامِی ھٰذَا کُلَّ مَا وُعِدتُّم حَتّٰی لَقَدْ رَأَیتُنِی آخُذُ قِطْعًا مِنَ الجَنَّۃِ حِینَ رَأَیتُمُونِی اَقْدَمُ وَفِی رِوَایَۃٍ اُخْرٰی لَو اَصَبْتُہُ لَاَکَلْتُم مِنْہُ مَا بَقِیَتِ الدُّنْیَا
ترجمہ: حضرت اماں عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ کے زمانے میں سورج گرہن ہو گیا۔ آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا، اللہ تعالی کی حمدوثنا بیان کی اور پھر فرمایا سورج اور چاند اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ ان کے گرہن کا کسی کی موت اور زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے جب تم یہ دیکھو تو نماز کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور پھر فرمایا کہ میں نے اسی جگہ کھڑے ہوئے نماز کے دوران وہ سب دیکھ لیا ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے حتی کہ میں نے اپنے آپ کو جنت کے پھلوں کا خوشہ توڑتے ہوئے دیکھا۔ ایک روایت میں اگلا جملہ بھی ہے کہ اگر میں توڑ لیتا تو تم اس کوتب تک کھاتے رہتے جب تک دنیا باقی رہتی۔
جاری ہے
Leave a Comment