قلب مستقیم کا
حضرت امام ابو الحسن اشعریؒ کے مقالے
قلب مستقیم کا
بقیہ حصہ
حصہ دوم
علماء اہل سنت کسی بھی مؤمن کو گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے کافر نہیں کہتے مثلاً شراب پینے اور زنا کرنے کی وجہ سے کوئی مؤمن کا فر نہیں ہوگا بلکہ وہ جو ایمان رکھتا ہے اس کی وجہ سے مؤمن شمار ہوگا کیونکہ ایمان ایسی چیزوں کا نام ہے جو دل سے تعلق رکھتی ہیں مثلا اللہ تعالی کی ذات پر، فرشتوں پر، آسمانی کتابوں پر، بھیجے ہوئے انبیاء اور رسولوں پر اور اچھی بری تقدیر پر اور جو نہ ملا وہ مل نہیں سکتا تھا اور جو مل گیا وہ رہ نہیں سکتا تھا۔
البتہ اسلام ظاہری چیزوں سےتعلق رکھتا ہے جیسا کہ لاالہ الا اللہ کی گواہی دینا اور محمد رسول اللہ کی گواہی دینا
اہل سنت تسلیم کرتے ہیں کہ دلوں کی باگ ڈور اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
اور رسول اللہﷺ کی شفاعت کا اقرار کرتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ یہ شفاعت اس امت کے گناہ گاروں کیلئے ہو گی۔
عذاب قبر کو تسلیم کرتے ہیں اور حوض کوثر حق ہے اور پل صراط حق ہے۔
مرنے کے بعد زندہ ہونا برحق ہے اور اللہ تعالی اپنے بندوں سے حساب لیں گے اور اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہونا ہوگا اور بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔
یہ گفتگو حضرت امام ابو الحسن اشعریؒ کے مقالے قلب مستقیم کا بقیہ حصہ ہے
اہل سنت عقیدہ رکھتے ہیں کہ کسی گناہ گار کو قطعی دوزخ میں ڈالنا اللہ تعالی پر واجب نہیں ہے اور نہ کسی مؤمن کو قطعی جنت میں داخل کرنا اللہ تعالی پر واجب ہے بلکہ اللہ تعالی کی مرضی ہے جس کو جہاں چاہے ٹھکانا دے۔
اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی مؤمنین کی ایک جماعت کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کرے گا جیسا کہ بہت ساری روایات میں اس کا ذکر ہے۔
اہل سنت دین کے معاملے میں جنگ وجدال اور جھگڑے سے منع کرتے ہیں اور اسی طرح نازک مسائل، تقدیر وغیرہ کے بارے میں بحث مباحثہ اور مناظرہ بازی سے منع کرتے ہیں حالانکہ اہل بدعت ان چیزوں کے بارے بحث مباحثہ میں پڑے رہتے ہیں جبکہ اہل سنت ان تمام روایات کو جو اس بارے میں صحیح طریقے سے مروی ہیں ان کو تسلیم کرتے ہیں اور کیوں؟ کیسے؟ نہیں کہتے کیونکہ ان روایات کو صالح لوگوں نے صالح لوگوں سے روایت کیا ہے حتی کہ سلسلہ سند رسول اللہ ﷺ تک جا پہنچا۔
اہل سنت کہتے ہیں کہ اللہ تعالی برے کاموں سے بالکل راضی نہیں اور نہ اس نے کوئی برا کام کرنے کاحکم دیا ہے اور نہ ہی شرک کا حکم دیا ہے بلکہ وہ خیر کا حکم کرتا ہے اور خیر کے کاموں کو ہی پسند کرتا ہے۔
جو لوگ ایمان میں ہم سے پہلے گزر گئے ہیں خاص طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حق اپنے اوپر تسلیم کرتے ہیں اور ان کے بارے میں اچھے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی برائیاں بالکل نہیں کرتے اور نہ ان کے آپس کے اختلاف کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ ان میں درجہ بندی یوں کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کو پہلے نمبر پر اورحضرت عمر فاروقؓ کو دوسرے نمبر پر اور حضرت عثمان غنی ؓ کو تیسرے پر اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو چوتھے نمبر پر سمجھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ چار خلفاراشدین ہیں ہدایت یافتہ ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل ہیں۔ یہ گفتگوقلب مستقیم کابقیہ حصہ ہے
اہل سنت آنحضرت ﷺ سے منقول احادیث کی تصدیق کرتے ہیں بھلے وہ بظاہر سمجھ میں نہ آتی ہوں جیسا کہ
اِنَّ اللہَ یَنْزِلُ اِلٰی السَّمَاءِ الدُّنْیَا فَیَقُولُ ھَلْ مِن مُسْتَغْفِرٍ؟
علماء سلف وفقھاء سلف کی اتباع کو جائز سمجھتے ہیں دین کے بارے میں اور اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی قیامت کے دن کشف فرمائیں گے جیسا کہ اس آیت میں ہے
وَجَاءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا
اور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالی جس ظریقے سے چاہیں اپنی مخلوق کے قریب آتے ہیں
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیدِ۔
آپ کو معلوم ہونا چاہیے یہ تحریرحضرت امام ابو الحسن اشعریؒ کے مقالے قلب مستقیم کا بقیہ حصہ ہے
موزوں پر مسح کرنے کوسفروحضرمیں جائز سمجھتے ہیں اور جہاد کو آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد سے آخر زمان میں اس آخری جماعت کے دجال کے ساتھ جہاد کرنے تک جاری سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کے حکمرانوں کیلئے دعا وغیرہ کرنا درست ہے اور ان کے خلاف بغیر کسی شرعی دلیل کے تلوار نہ اٹھانا اور تصدیق کرتے ہیں دجال کے نکلنے کی اور حضرت عیسی علیہ السلام کے اس کو قتل کرنے کی اور منکر نکیر کو حق مانتے ہیں۔ معراج نبویﷺ کی تصدیق کرتے ہیں۔ مسلمان میت کے لئے صدقہ خیرات کا ثواب پہنچنے کی تصدیق کرتے ہیں اور دعاء خیر کے بھی قائل ہیں۔ جادو کا وجود مانتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ جادوگر کافر ہوتا ہے۔ ہر مرنے والے مسلمان پر نماز جنازہ پڑھنے کو درست سمجھتے ہیں اور مانتے ہیں کہ جنت اور دوزخ پیدا کی گئی ہیں اور جو بھی مرتا ہے اپنا وقت مقرر پورا کر کے مرتا ہے اور جو قتل ہوتا ہے وہ بھی اپنا وقت پورا کر کے مرتا ہے۔ رزق کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے وہی تقسیم کرتا ہے اور شیطان انسان کو بہکاتا ہے ، وسوسےڈالتا ہے اور شک میں مبتلا کرتا ہے۔ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو کرامات سے نوازتا ہے اور کرامات اولیاء برحق ہیں اور حکم الہی کے سامنے صبر کی تلقین کرتے ہیں جو حکم الہی ہو اسے پورا کرتے ہیں اور جس چیز سے منع کیا جائے اس سے رک جاتے ہیں اور ہر عمل خالص اللہ تعالی کو راضی کرنے کے جذبے سے کرنے کا کہتے ہیں۔ عام مسلمانوں کی خیر خواہی کرتے ہیں اور کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں اور جھوٹ بولنے سے منع کرتے ہیں اور فخروغرور تکبروریاکاری اور لوگوں کو حقیر سمجھنے سے بچتے ہیں اور اِدھر اُدھر کی بدعات میں نہ پڑتے ہیں نہ کسی کے بلانے سے اس میں لگتے ہیں بلکہ تلاوت قرآن اور تذکرہ احادیث اور تفقہ حاصل کرنے میں مشغول رہتے ہیں تواضع وعاجزی کے ساتھ اور انکساری کے ساتھ اور اچھے اخلاق کی مشق کرتے ہوئے ہر قسم کی نیکی کو کرنے اور گناہ سے بچنے کی تگ ودو کرتے ہیں اور غیبت چغل خوری سے پرہیز کرتے ہوئے اپنی روزی روٹی کمانے میں مصروف رہتے ہیں۔
یہ تمام لمبی بات صرف یہ بتانے کیلئے لکھی ہے کہ جنت اور جہنم مخلوق ہیں اور موجود ہیں۔یہ تھا قلب مستقیم کا بقیہ حصہ
جاری ہے
Leave a Comment