قلب مستقیم کی علامت
قلب مستقیم کیا ہوتا ہے ؟
اس کی علامات کیا ہیں؟
حصہ اول
یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ انسان کے جسم میں دل ایک ایسا عضو ہے جو سب کا سردار ہے اور سارا جسم دل کے تابع ہوتا ہے جیسا دل ہو گا ویسا ہی عمل انسان کے اعضاءجوارح سے سرزد ہو گا اگر چہ دل کے حالات اور راز کو جاننا بہت مشکل ہے لیکن کچھ علامات ضرور ہین جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس قسم کا دل موجود ہے بندے کے پاس ۔
قلب مستقیم کی دو نشانیاں ہیں
ایک یہ ہے کہ جس دل میں اللہ تعالی کی محبت بقیہ تمام محبتوں پہ غالب ہوسمجھ لیں کہ اس دل کے صحت مند ہونے کیلئے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان میں ایک اس میں پائی جاتی ہے ۔
اللہ تعالی کی محبت کے غالب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی زندگی میں کوئی ایسا مرحلہ پیش آئےکہ غیراللہ اور اللہ تعالی کی محبت کا ٹکراؤ ہو جائے اور ان کے تقاضے مختلف ہو جایئں تو اللہ تعالی کی محبت جیت جائے غالب آجائے اور جو اس کا تقاضا ہے وہ پورا کیا جائے اور جو دنیا کی محبت کا تقاضا ہے وہ پیچھے رہ جائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی دل سیدھے راستے پر ہے ۔یہ قلب مستقیم کی علامت ہے
میں بھی کیا سادہ ہوں کہ اتنی مشکل بات پرعمل کرنے کا کہ رہا ہوں کیونکہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ یہ بات کہنے کی حد تک تو بہت آسان ہے مگر کرنے کی حد تک مشکل ہے بلکہ صرف مشکل نہیں بہت ہی مشکل ہے اور زندگیاں کھپ جاتی ہیں یہ مقام حاصل کرنے کو پھر کہیں جا کر کچھ ذرہ نصیب ہوتا ہے ۔
دراصل بات یہ ہے کہ دعوی کرنا تو آسان ہے مگر کر کے دکھانا مشکل ہے اسی لئے تو کہا جاتا ہے جب امتحان کا وقت آتا ہے تو بندے کی عزت اور ذلت کا پتہ چلتا ہے کہ اگر پاس ہو گیا تو عزت ہی عزت اور اگر خدانخواستہ فیل ہو گیا تو ذلت ہی ذلت ۔
اس میدان میں امتحان کا موقع اس وقت آتا ہے جب انسان اپنی خواہشات کو اللہ تعالی کے حکم پر مقدم کر دیتا ہے اب ذرا آپ سوچیں کہ کتنی مرتبہ ایسا کیا ہوتا ہے ہم نے اپنی زندگی میں ؟اپنی ذات تو چھوڑیں ہم تو بسااوقت بیوی بچوں اور دوستوں یاروں کے چھوٹے چھوٹے تقاضوں کو بھی حکم الہی پر ترجیح دے دیتے ہیں تو پھر ہم بھلا کیسے کہ سکتے ہیں کہ ہمارا دل صراط مستقیم پر ہے ۔اور یہ بھی قلب مستقیم کی علامت ہے
جب اس کے دل میں اللہ تعالی کی محبت تمام چیزوں پہ غالب نہیں ہے اور نہ ہی اس کی یہ عادت بن سکی
تو آپ جانتے ہیں کہ اس کو جواب کیا ملتا ہے؟ اور اللہ تعالی کی سنت کیا ہے ایسے لوگوں کے بارے میں ؟تو جناب سنئے کہ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ اللہ تعالی ان سے ان کی پسند کی چیزیں دور کر دیتا ہے بلکہ روک لیتا ہے پھر جو یہ اللہ تعالی سے مانگتے ہیں بلکل نہیں ملتا اگر ملتا ہے تو مانگی ہوئی مقدار سے بہت کم ملتا ہے اور وہ بھی رک رک کر اور یہ بدلہ ہوتا ہے اس بات کا کہ اس نے اپنی خواہش کو اللہ تعالی کے حکم پر مقدم کیا تھا ۔
بندہ یہ نہیں سوچتا کہ انسان تو مجبور ہے اگر اپنی مرضی سے نہیں کرے گا تو اللہ تعالی کی طرف سے ہو سکتا ہے ایسے حالات آجائیں کہ یہ کرنے پہ مجبور ہو جائے لیکن اللہ تعالی تو مجبور اورعاجز نہیں ہے لہذا جب وہ کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اس کو ٹالا نہیں جا سکتا اور نہ اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ الٹا نقصان یہ ہوتا کہ جن سے ڈر کر یہ نافرمانی کرتا ہے وہ اس پہ مسلط ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالی کو چھوڑ کر جس میں یہ مشغول ہوتا ہے وہ اس کیلئے بد بختی کا سبب اور ذریعہ بن جاتی ہے اور جس کو راضی کرنے کے چکر میں اللہ تعالی کو ناراض کرتا ہے وہ بھی اس سے ناراض ہو جاتا ہے اور یہ لازما ہو تا ہے اسے روکا نہیں جا سکتا ۔چاہے کچھ بھی ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
قلب مستقیم کا باقی حصہ اگلے بلاگ میں انشاءاللہ
Leave a Comment