قانون فطرت
قانون فطرت ہے کہ جب کبھی کوئی مشقت یا تکلیف زندگی میں آتی ہے تو اس کے بعد آسانی بھی ضرور آتی ہے
انسان کی عموما نشیب و فراز سے لبریز ہوتی ہے فطرت کے نظارے بھی یکساں نہیں رہتے بلکہ بدلتے رہتے ہیں لہذا کبھی صبح کبھی شام کبھی دھوپ کبھی چھاؤں کبھی سردی کبھی گرمی کبھی صحت تو کبھی بیماری اس طرح کبھی تنگ دستی تو کبھی فراخی ۔۔
خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ ان حالات کی وجہ سے پریشان نہیں ہونا چاہئے بلکہ صبر و شکر کے ساتھ حالات کے بدلنے اور بہتر ہونے کا انتظار کرے اور اپنی طرف سے جو کوشش اور محنت ہو سکتی ہے وہ کرتا رہے ۔
کیونکہ فطرت کا قانون ہے کہ ہمیشہ تنگی نہیں رہتی اور نہ ہی ہمیشہ آسانی ۔
اور بہت مشکل ہے فطرت کے قانون کے خلاف جا کر کامیاب ہونا
او بھولے انسان یہ جان لے کہ بھوک لگنے کے بعد پیٹ بھرنے کی نوبت بھی آتی ہے اور اگر پیاس لگے تو پانی بھی مل جاتا ہے اور پیاس بجھ جاتی ہے سدا نہ بھوک رہتی ہے نہ پیاس ۔
لہذا بھوک کے زمانے میں بھوک کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور شکایت کا انداز اپنانا مناسب نہیں ہے کیونکہ بھوک اگر آئی ہے تو تونگری بھی تو آئی تھی ؟ یا آ جائے گی انشاءاللہ
اور کبھی کسی وجہ سے راتوں کو نیند نہ آئے تو ایسا وقت بھی آتا ہے کہ پرسکون نیند آ جاتی ہے لہذا نیند نہ آنے کی تکلیف کو اچھالنا اور شکوے پر آ جانا مناسب نہیں ہے کیونکہ اگر آج چند دن کا جاگنا یاد ہے تو بیسیوں مرتبہ کی میٹھی اور گہری نیند کے مزے بھی تو قدرت نے عطا کئے تھے ۔
اور بیماری کے بعد صحت بھی آئے گی ایسا نہیں ہوتا کہ ہمیشہ بیماری ہی رہے لہذا تکلیف کا ذکر تو یاد رہے اور عافیت کا زمانہ بھول جائے یہ کہاں کا انصاف ہے؟
آج اگر گھر سے باہر ہیں تو کوئی بات نہیں کتنا عرصہ گھر میں گذرا؟ اور کتنا وقت گھر میں بے فکری میں گذارا؟
آج اگر کسی وجہ سے راستہ بھٹک گئے ہیں تو کیا ہوا کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ راستہ نہیں بھولے ؟
کیا آپ نے کبھی اس آیت میں غور کیا ؟
فَعَسٰی اللہُ اَن یَّأْتِیَ بِالفَتْحِ اَو اَمْرٍ مِن عِندِہِ
ترجمہ و خلاصہ
آپ کو کیا معلوم کہ اس سختی یا مشقت اور تکلیف کے بعد اللہ تعالی کتنی فتوحات کا دروازہ کھولے گا یا کوئی اور چیز ظاہر فرما دے گا محض اپنی قدرت اور طاقت سے
اس سے معلوم ہوا کہ معاملات اور انسان پر آنے والے حالات اللہ تعالی کی مرضی اور قدرت سے آتے ہیں نا کہ اپنی مرضی سے اور بلا اجازت اور بے ترتیب ۔
لہذا اے انسان تم رات کو یہ خوشخبری سنا دوکہ صبح طلوع ہونے والی ہے جو جلد ہی رات پہ غلبہ پا لے گی اور پہاڑوں کے اوپر سے اور وادیوں کے دہانوں سے طلوع ہو گی ۔
اور تو غم زدہ کو یہ بشارت دے کہ عنقریب خوشی اور کشادگی آئے گی اور روشنی کی رفتار سے اور پلک جھپکنے کی مقدار سے آئے گی ۔
اور تکلیف میں مبتلا انسان کو یہ بتا دے کہ مہربانی اور کرم ایسے چپکے طریقہ سے ہو گا کہ اندازہ ہی نہ ہو سکے گا کہاں سے اور کیسے ہو گیا ؟ انسان سوچتا رہ جائیگا کہ میں تو سمجھتا تھا کہ اب اصلاح احوال مشکل ہے لیکن معلوم نہیں یہ کیسے ہو گیا ؟
لہذا جب کبھی تو کسی صحراء کو دیکھے کہ لمبا ہی ہوتا جاتا ہے تو یہ سمجھ لے کہ اس صحراء کے بعد یقینا ہریالی اور سبزہ ہو گا ۔
اور جب تجھے پہاڑ نظر آئیں کہ یہ بہت سخت ہیں تو جان لے کہ کبھی یہ بھی ختم ہو جائیں گے اور سیدھا راستہ بھی آ جائیگا ۔
اور کیوں نہ ہو کہ آنسوؤں کے ساتھ ہی تبسم بھی ہوتا ہے
اور خوف کے بعد امن بھی ہوتا ہے
اور گھبراہٹ کے بعد سکون اور اطمینان بھی ہوتا ہے۔
اور یہی فطرت کا قانون ہے جس کے خلاف ہر گز نہیں ہو سکتا
آپ نے سنا نہیں ؟ اور پڑھا نہیں ؟ کہ آگ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا
کبھی سوچا؟ کیوں نہیں جلایا جبکہ آگ کا کام ہی جلانا ہے
اس لئے نہیں جلایا کہ حفاظت ربانیہ نے جلنے نہیں دیا اور براہ راست آگ کو حکم ہوا
کُونِی بَردًا وَّسَلَامًا عَلٰی اِبرَاھِیمَ
:ترجمہ و خلاصہ
کہ اے آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا
چنانچہ زمانے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آگ نے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کا با ل بھی نہیں جلایا۔
آیئے آپ کو ایک اور رنگ میں فطرت کا قانون دکھاتے ہیں
اور کیا آپ نے سمندر کو نہیں دیکھا ؟کہ اس نے حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں ڈبویا؟
کیوں ؟؟ آخر کیوں؟ اس لئے کہ حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرعونی لشکر کو قریب آتے دیکھا تو باذن الہی فرمایا
کَلَّا اِنَّ مَعِی َرَبِّی سَیَھدِینِ
:ترجمہ اور خلاصہ
جب قوم کے لوگوں نے فرعون کے لشکر کو اپنے پیچھے اور دریا کو اپنے سامنے دیکھا تو پکار اٹھے کہ اب تو ہم پکڑے گئے اور حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام سے آکر کہنے اب کیا ہوگا؟ ہم تو پکڑے جائیں گے اور پھر فرعون ہمیں بدترین سزا دے گا
اس کے جواب میں حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام نے جواب میں فورا فرمایا کہ ہر گز نہیں فرعونی لشکر ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ میرے سا تھ میرے رب کی طاقت اور حکم موجود ہے وہ ضرور کوئی نہ کوئی راستہ نکالے گا
اور پھر زمانے کی آنکھوں نے دیکھا کہ کیسے دریا نے خشک ہو کر حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی قوم اور ساتھیوں کو راستہ دیا ؟
جبکہ اسی جگہ فرعون کو لشکر سمیت دریا میں ڈبویا
تو آپ بھی غور کریں کہ آپ کی زندگی میں کبھی اس جیسا سخت موڑ آیا؟ نہیں نا
اگر آبھی جاتا تو اللہ تعالی کی قدرت اور طاقت کے سامنے وہ کچھ بھی نہیں تھا
تو پھر کاہے کا غم؟؟
اور کیا تم کو خبر نہیں کہ حضرت محمد ﷺ نے غار کے اندر جب دشمن نے ہر طرف سے گھیر لیا تو اپنے یار غار جناب حضرت ابوبکرؓ سے کیا فرمایا ؟؟
آنحضرت ﷺ نے فرمایا
لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعنَا
:ترجمہ اور خلاصہ
کہ اے ابو بکرؓ تو غم نہ کر نہ ہی فکر کیونکہ اللہ تعالی کی ذات اپنی پوری قوت سمیت ہمارے ساتھ ہے
اور دنیا نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ دشمن غار کے دہانے پہ پہنچ کر بھی یہ جان نہ پایا کہ آنحضرت ﷺ غار کے اندر ہیں
سوچیں کبھی ایسی نازک صورت حال کا سامنا کرنا پڑا؟ نہیں کرنا پڑا تو پریشانی کس بات کی ؟ جو حال بھیجتا ہےوہ دور بھی کر سکتا ہے بس اس سے تعلق بحال رکھ اور بس۔
کچھ سمجھ آیا ؟ کیا ہوتا ہےفطرت کا قانون اور اس کی طاقت؟
اصل نکتہ
اس میں نکتے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ وقت کے غلام ہوتے ہیں اور وقتی ایجادات اور مادی دنیا کے تابعدار ہوتے ہیں وہ صرف تکلیف تنگی اور مصیبت کو دیکھتے ہیں اور ان کے خیال میں اس عارضی مصیبت سے چھٹکارہ ہی سب کچھ ہوتا ہے اور یہی انکا مطمح نظر ہوتا ہے اور بس ۔
کیونکہ وہ لوگ صرف دیوار کے اوردروازے کے اس طرف جو نظر آتا ہے اسے ہی دیکھ سکتے ہیں ان میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ اپنی نظر میں گہرائی پیدا کریں اور دیوار کے پرلی طرف جو کچھ ہے اسے دیکھنے کی کوشش کریں
اور جو تکلیف نظر آرہی ہے اس کے بعد عافیت اور راحت کوجو اس وقت نظر نہیں آ رہی اس کو دیکھتے تو یہ غم بھول جاتے
لہذاغم نہ کر پریشان نہ ہو انشاءاللہ جو غم موجود ہے یہ جلد زائل ہو جائیگا
کسی سیانے کا قول ہے اور کیا ہی بہترین قول ہے کہ سب سے افضل عبادت فراخی کا انتظار کرنا ہے
کیونکہ دن الٹے پلٹے رہتے ہیں
اور راتیں حاملہ ہوتی ہیں مطلب کہ اندھیرے روشنی کو جنم دیتے ہیں
اور غیب کے معاملات آنکھوں سے اوجھل ہیں پتہ نہیں کس وقت کیا ہو جائے؟
اور کائنات کا حکیم یعنی اللہ تعالی ہر روز نئے نئے حالات پیدا کرتے رہتے ہیں
عین ممکن ہے جو کچھ آج ہمارے سامنے ہو رہا ہے وہ کل نہ ہو اور کوئی نئی چیز وجود میں آ جائے
کیونکہ یہ بات طے ہے کہ تنگی کے بعد آسانی آتی ہے یہی فطرت کا قانون ہے جس نے ساری دنیا کے سسٹم کو جکڑا ہوا ہے
واللہ اعلم بالصواب
Leave a Comment