جانورں کی دلچسپ معلومات

سانپ اور مینڈک کی عبرت ناک کہانی

کیا سانپ اور مینڈک کی دوستی ہو سکتی ہے؟

یقینا جواب ہو گا کہ نہیں

لیکن ذرا ٹھہرئیے یہاں بات حقیقی دنیا کی نہیں ہو رہی

بلکہ خیالی اور مثالی دنیا کی ہو رہی ہے  

سیانے لوگ ایک مثال بیان کرتے ہیں جس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں

بلکہ سیانے اور سمجھ دار لو گ جو واقعات سنایا کرتے  تھے یا سنایا کرتے ہیں اصل مقصود تو یہ ہوتا ہے کہ ان سے سبق حاصل کیا جائے 

چلیئے قصہ شروع کرتے ہیں

ایک دفعہ کا بیان ہے کسی جنگل میں ایک سانپ رہا کرتا تھا اور اپنی زندگی میں مست تھا اس جنگل میں ایک ندی بھی بہتی تھی سانپ بھی دوسرے جانوروں کی طرح ندی پر اپنی پیاس بجھانے آتا تھااتفاق سے ندی میں ایک مینڈک رہتا تھا جو کہ سانپ کو اکثر و بیشتر پانی پیتے دیکھتا تھارفتہ رفتہ  کسی طرح ان کی آپس میں دوستی ہو گئ دوستی ہو جانے کے بعد وہ دونوں ندی کے کنارے بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کرتے ہنسی مذاق کرتے ادھر ادھر کی خبریں حالات جنگلی زندگی کے معاملات سیاست حکومت موسم کی گرمی سردی بارش خزاں غرض کہ باہم دل چسپی کے تمام معاملات زیر بحث آتے اور یوں وقت بڑی تیزی سے گزرنے لگا۔

جیسا  کہ کہا جاتا ہے نا                   کہ حالات سدا ایک جیسے نہیں رہتے ہمیشہ دوستی یاری نہیں رہتی  جوانی تعلق ہمیشہ نہیں رہتا بہار بھی خزاں سے تبدیل ہو جاتی ہے دشمنیا ں دوستیاں بدل جاتی ہیں آج کے دوست کل کے دشمن اور آج کے دشمن  کےکل دوست بن جاتے ہیں کیونکہ اکثر و بیشتر تو دوستی  میں مفاد کار فرما ہوتا ہے جب مفاد بدل جائے تو دوستی بھی ختم اسی طرح  کا معاملہ ان کے درمیان بھی پیش آیا اور ایک چھوٹی سی بات کی وجہ سےیہ دوستی دشمنی میں بدل گئی  ہوا یوں کہ ایک دن حسب معمول دونوں ندی کے کنارے بیٹھ کر باتوں میں مصروف تھے کہ سانپ  کونہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے مینڈک پر طنز کر دیا اور کہا تمھاری چال بہت عجیب ہے جب تم چلتے ہو تو اچھل اچھل کر چلتے ہو  جواب میں مینڈک نے بھی کہہ دیا کہ  ذرا اپنی چال پہ بھی غور کر لیں کیسے ٹیڑھے میڑھے ہو کر چلتے ہو   آپ جانتے ہیں کہ طاقت ور کی نفسیات  کیا ہوتی ہیں ؟ طاقت ور مذاق کرنا تو جانتا ہے لیکن مذاق برداشت کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔

یہی کچھ یہاں ہوا سانپ کو یہ جواب بہت ناگوار لگا اور اس نے مینڈک پر حملہ کر کے مارنا چاہا مینڈک یہ معاملہ بھانپ گیا اور فورا ندی میں چھلانگ لگادی اور غائب ہو گیا سانپ کا غصے سے برا حال اور انتقام کی آگ اندر جل رہی تھی اس نے سوچا بدلہ تو ضرور لینا ہے اور مینڈک کو سبق سکھانا ہے  چنانچہ وہ وہیں ندی کے کنارے کنڈلی مار کہ بیٹھ گیا اور مینڈک کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا  مینڈک  توجلدی باہر نہ آیا البتہ کسی انسان کاوہاں سے گزر ہوا اس نے دیکھا کہ سانپ بیٹھا ہوا ہےیہ کسی کو کاٹ لے گا  اس نے ڈنڈا لیا اور سانپ کو کچل دیا پرانے زمانے میں سانپ کو مار نے کے بعد درخت پر لٹکا دیا کرتے تھے یا زمین میں دبا  دیا کرتے تھے تاکہ کوئی جانور اس کو کھا  نہ لے اور نقصان نہ ہو جائے چنانچہ اس نے بھی سانپ کو کچل کر سامنے درخت پہ لٹکا دیا۔

آپ نے دیکھا ہو گا مرنے کے بعد سانپ بالکل سیدھا ہو جاتا ہے اور اس کے سارے بل نکل جاتے ہیں درخت پہ لٹکنے کے بعد بھی وہ بالکل سیدھا ہو گیا اور جسم کے سارے بل نکل گئے کچھ دیر بعد مینڈک کو خیا ل آیا کہ باہر نکل کر دوست کا حال معلوم کریں جب وہ باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ سانپ کو درخت پہ لٹکایا ہو ا ہے اور بالکل سیدھا کوئی بل بھی اس کے جسم میں باقی نہیں  بچا  اس پہ مینڈک نے ایک جملہ کہا جو اس ساری کہانی کا مرکزی نکتہ ہے بلکہ اس کہانی کا دل ہے جو کہ بڑا عبرت ناک اور باعث نصیحت ہے

مینڈک نے کہا

او سانپ بھیا آپ سیدھے تو گئے ہو لیکن ہوئے مرنے کے بعد ہو مزا تو تب تھا کہ زندگی ہی میں سیدھے ہو جاتے 

سبق

اس کہانی سے سبق یہ ملا کہ سیدھا تو ہم سب نے ہو جانا ہے بھلے موت کے بعد ہی سہی لیکن مزا تو تب ہے کہ زندگی ہی میں اپنی مرضی سے سیدھے ہو جائیں ورنہ حالات دیکھ کرتو  ہر کوئی سیدھا ہو جاتا ہے فرعون جو اپنےآپ  کو رب کہتا تھا جب ڈبکی لگی تو پکار اٹھا تھا کہ میں اب اس رب پہ ایمان لانا چاہتا ہوں جس پہ بنی اسرائیل کا ایمان ہے  ۔لے دس بندہ اب پوچھے کہ یہی کام ڈبکی سے پہلے کرنا تھا  اگر پہلے کیا ہوتا تو فائدہ ہوتا اب کیا فائدہ جب مہلت ختم ہو گئی۔

اسی پر آپ تمام کافروں اور گناہ گاروں کو سمجھ لیں کہ یہ سب ایک وقت مقررہ پہ توبہ بھی کرنا چاہیں گے ایمان بھی لانا چاہیں گے لیکن وقت گزرنے کے بعد جب کوئی بھی فائدہ نہیں ہو گا لہذا اب وقت ہے جو کام بعد میں کرنا ہے اب کر لیں تاکہ مفید ہو سکے۔

واللہ اعلم

مزید پڑھیں

اونٹ کی دلچسپ معلومات

شیر کے بارے میں معلومات

Leave a Comment