تابط شرا
حصہ اول
اللہ تعالی نے انسان کو بنایا ہے اور اس کو مختلف صلاحیتیں دی ہیں چنانچہ آپ روز مرہ کی زندگی میں دیکھیں گے کہ مختلف لو گوں میں مختلف کوالٹیاں ہیں کسی میں کوئی خوبی ہے تو کسی میں کوئی عیب ہے کسی میں ایک خوبی ایک خاص حد تک ہے تو کسی دوسرے میں وہی خوبی بہت بڑے لیول پر ہے ۔اسی طرح کسی میں کوئی عیب ایک خاص حد تک ہے تو کسی اور میں یہی عیب عام حدود سے کافی زیادہ ہے کوئی لوگ ہوتے ہیں کہ جیسے ہی موت کی وادی میں جاتے ہیں تو لوگ ان کو بھول جاتے ہیں جبکہ بعض لوگ ایسے ہیں کہ موت کے بعد بھی لوگوں میں اپنے تذکروں کے ذریعے موجود رہتے ہیں۔
پھر بعض لوگ اپنے اچھے تذکروں کےذریعے زندہ رہتے ہیں اور بعض لوگ برے تذکروں کے ذریعے موجود ہوتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے بہادرانہ کارناموں کی وجہ سے موضوع ذکر بنتے ہیں تو کچھ لوگ اپنی ذہانت اور چالاکی کی وجہ موضوع گفتگو بنتے ہیں ۔
آج کی پوسٹ میں ہم ایک ایسے ہی چالاک اور شاطر آدمی کا ذکر کریں گے جس کو گذرے ہوئے تو بہت عرصہ ہو گیا ہے لیکن وہ آج بھی اپنی لائن کے لوگوں میں یعنی جن کو شعروشاعری اور تاریخ میں دلچسپی ہے میں اپنے تذکروں کے ذریعہ سے موجود ہے ۔
اس شخص کا جو نام مشہور ہے وہ تابط شرا یعنی بغل میں شر کو لے کر چلنے والا اور اس کا اصل نام ہے ثابت بن جعفر بن سفیان۔
اس کا یہ نام کیسے پڑا اس کی وجہ بڑی دلچسپ ہے کہ ایک دفعہ اس نے تلوار کو بغل میں لیا اور گھر سے نکل گیا بعد میں اس کی والدہ سے کسی نے پوچھا کہ ثابت کہاں ہے؟ تو اس نے جواب دیا عربی میں جس کا مطلب ہے کہ مجھے نہیں پتہ البتہ اس نے شر کو اپنی بغل میں لیا اور گھر سے نکل گیا یعنی کہ تلوار کو بغل میں دبا کر گھر سے باہر چلا گیا ہے ۔
جبکہ دیگر بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ گھر سے چھری بغل میں لے کر باہر نکلا اور اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے پاس گیا اور ان میں سے ایک کو ہلکی سی چھری ماری جس پہ سب نے مل کر اسے کہا تابط شرا یعنی کہ بغل میں شر لے کر گھومنے والا ۔
اس کا ایک مزیدار اور دل چسپ قصہ ہے کہ یہ شہد کے چھتوں سے شہد نکالا کرتا تھا اور قبیلہ ہذیل جو اس کا دشمن تھا ان کے علا قہ میں کسی پہاڑ کی غار میں اس کو چھپا کر رکھتا تھا اور ہر سال یا وقتا فوقتا ادھر چکر لگاتا رہتا تھا اور ایک بار ایسا ہوا کہ قبیلہ ہذیل کو پتہ چل گیا کہ یہ یہاں آتا جاتا ہے چنانچہ انہوں وہاں گھات لگائی اور اس کاانتظار کرنے لگے اور جب یہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ وہاں آیا اور غار میں لٹک گیا تاکہ نیچے اترے کہ اسی اثنا میں ہذیل کے لوگوں نےان پر حملہ کر دیا اور اس کے ساتھیوں کو وہاں سے بھگا دیا اورغار میں جانے والی رسی کو ہلایا اور اس سے کہا اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردو ۔
تابط شرا نے نیچے سے اوپر دیکھا تو دشمن کو وہاں موجود پایا اور ان سے پوچھا کہ میں کس شرط پہ اوپر آؤں؟
مجھے امن دے کر چھوڑ دیا جائیگا یا گرفتار کر کے فدیہ وصول کیا جائیگا؟
دشمن نے کہا کہ تجھے بلاشرط کےباہر آنا ہے ہماری طرف سے تیری حفاظت کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔
اس کے جواب میں تابط شرا نے کہا کہ ےتم کیا سمجھتے ہو کہ مجھے پکڑ لو گے اور قتل کر کے میرا مال چھین لو گے ؟ تو سن لو میں ہر گز ایسا نہیں کرنے والا ۔
چنانچہ اس نے ایک عجیب و غریب تدبیر نکالی کہ غار کی دوسری طرف کو وہ شہد بہانا شروع کر دیا جس سے سارے پتھر چکنے ہو گئے اور پھر آخر میں شہد کی ایک مشک کواپنے پیٹ پہ باندھا اور دوسری طرف کو لڑھکنا شروع کر دیا اور لڑھکتے لڑھکتے پہاڑ کی دوسری طرف صحیح سالم نیچے جا کھڑا ہوا اور دشمن سے چھوٹ گیا کہا جاتا ہے کہ جس جگہ یہ جا کر اترا اس جگہ سے دشمن تین دنوں کی مسافت کے برابر دور تھا
اس قصہ کو بعض نے اور طرح سے بھی بیان کیا ہے کہ جس پہاڑ پہ یہ چڑھا تھا اس پہ جانے اور اترنے کا راستہ ایک ہی تھا جب دشمن نے گھیرا اور سرنڈر کرنے کا کہا تو اس نے سارا شہد پتھروں پر گرا دیا جس سے وہ سارے پتھر خوب چکنے ہو گئے اور پھر خود کو ان چکنے پتھروں پہ گرا کر گھسٹے ہوئے اور دشمن سے باتیں بھی کرتے ہوئے دوسری طرف جا کر اتر گیا اور یوں اپنی عقلمندی سے ایک یقینی گرفتاری یا موت سے بچنے میں کامیاب ہوا ۔
جاری ہے
Leave a Comment