ایمان عمل مزہ زندگی
زندگی کا اصل مزہ ایمان اور عمل کے ساتھ ہے
سچی اور پکی بات ہے کہ ایمان انسان کیلئے ایسے ہی ضروری ہے جیسے زندگی کیلئے پانی اور ہر جاندار کیلئے خوراک بلکہ اگر کہا جائے کہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ ان چیزوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے
زیادہ سے زیادہ نقصان یہ ہے کہ موت آ جائے گی
لیکن ذرا ٹھہرئے کیا مر جانا اتنا بڑا نقصان ہے ؟؟ ہر گز نہیں کیونکہ اگر یہ چیزیں دستیاب بھی ہوں تو بھی موت نے تو آنا ہے
آنا ہے نا؟؟ٹل تو نہیں سکتی نا؟؟ جی بالکل صحیح سمجھا نہیں ٹل سکتی
لہذا معلوم ہوا کہ ضروریات کے نہ ملنے کی وجہ سے مر جانا کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے جتنی کہ ایمان کے بغیر مرجانا
اف اللہ !اس کا نقصان اتنا کہ اس کی تلافی بھی ناممکن ہے آج تک آپ نے سنا نہیں ہو گا کہ کوئی مرنے والا دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آیا ہو اور پھر ایک لمبی زندگی جی کر دوبارہ موت آئی ہو ؟بس جب ایک دفعہ مہلت ختم تو ختم ! اب دوبارہ موقع ہر گز نہیں ملنے والا
لہذا اصل بدبخت اور شقی وہ ہیں جو ایمان کے خزانے سے اور یقین کے سرمائے سے خالی ہیں اور مفلس ہیں
اور وہ ہمیشہ بدنصیبی میں اور اللہ تعالی کے غضب اور ذلت میں زندگی گزارتے ہیں
اسی حقیقت کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے
قولہ تعالی ۔
وَمَن اَعرَضَ عَن ذِکرِی فَاِنَّ لَہُ مَعِیشَۃً ضَنْکًا وَنَحشُرُہُ یَومَ القِیٰمَۃِ اَعمٰی قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرتَنِی اَعْمٰی وَقَد کُنتُ بَصِیرًا قَالَ کَذَالِکَ اَتَتْکَ آیَاتُنَا فَنَسِیتَھَا وَکَذٰالِکَ الیَو مَ تُنسٰی
ترجمہ ۔ اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے وہ کہے گا یارب تونے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو آنکھوں والا تھا اللہ تعالی کہے گا اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں مگر تونے انھیں بھلا دیا اور آج اسی طرح تجھے بھلا دیا جائے گا
مطلب یہ ہے کہ جب قبر سے اٹھا کر حشر کی طرف لائے جائیں گے تو اس وقت ایسے لوگ اندھے ہوں گے لیکن بعد میں ان کو بینائی دے دی جائے گی جیسا کہ سورۃکہف کی آیت نمبر ۵۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھنم کی آگ کو دیکھیں گے
ان آیات کو اگر ایک اور تفسیر کی روشنی میں دیکھیں تو مطلب بنے گا
کہ جس نے میری یاد سے اعراض کیا یعنی میری اس کتاب سے اعراض کیا جو تمام مقاصد عالیہ پر مشتمل تھی اور انکار بھی حقیر اور ناقابل عمل سمجھ کر کیا تو بدلے میں ہم اس کی زندگی اس کیلئے تنگ کر دیتے ہیں جو اس پر عذاب بن جاتی ہے
اور بعض علماء کرام کہتے ہیں کہ تنگ زندگی سے مراد ہے قبر کی کی زندگی اس پر تنگ ہو کر عذاب بن جاتی ہے
اور اس اعراض کرنے والے کو ہم آنکھوں سے اندھا بنا کر اٹھائیں گے تاکہ اس کو اعراض کی پوری سزا ملے اس کے بعد وہ حیران اور ذلیل ہو کر پوچھے گا اے میرے رب تونے مجھے آنکھوں سے اندھا بنا کر اٹھایا حالانکہ میں تو دنیا میں بینائی والا تھا ؟تو میرا یہ حال کیوں ہوا؟
تو اس کو جواب میں کہا جائیگا کہ یہ تیرے اعمال بد کا نتیجہ ہے اور میرے ہاں سزا ہمیشہ گناہ کی طرح ہوتی ہے یعنی جس قسم کا گناہ ہو گا اسی قسم کی سزا ملے گی تو تم دنیا میں جیسےہماری یاد سے اندھے ہو گئے اور اسی اندھے پن میں زندگی گزار دی اور ہمیں بالکل بھول گئےبس آج اسی طرح ہم نے تمھیں بھلا دیا اور اندھا بنا کر اٹھا یا اب اس کے بعد تو دوزخ میں جائے گا اور اپنے کئے کی سزا بھگتے گا
بس سچی بات ہے کہ ایمان کے بغیر انسان کا نفس اور ضمیر نا تو سعادت مند ہو سکتا ہے نا اس کا تزکیہ ہو سکتا ہے اور نا وہ گناہوں سے پاک ہو سکتا ہے اور نا ہی اس سے غم اور قلق زائل ہو سکتا ہے
پس معلوم ہوا کہ ایمان عمل مزہ زندگی ہے
ہاں ایمان ان تمام مسائل سے چھٹکارے کا ضامن ہے یعنی
ایمان عمل مزہ زندگی ہے
صحیح اور برحق بات یہ ہے کے ایمان کے بغیر زندگی کا کوئی مزہ نہیں ہے بلکہ زندگی بد ذائقہ رہتی ہے
اسی لئے تو ملاحدہ کا پسندیدہ طریقہ ہے کہ وہ ایمان کی کمی کو اور ضمیروں پر پڑنے والے بوجھ کو اور گلے میں گناہوں کے طوقوں کو اتارنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کیلئے وہ بے جا اور فضول قسم کی بحث مباحثہ لڑائی جھگڑا مناظرہ سے بھی گریز نہیں کرتے
ہائے کتنی افسوس ناک زندگی ہے ایمان کے بغیر اور کس قدر گھاٹے کا سودا ہے ؟اور کس قدر لعنت اور پھٹکار پڑتی ہے ان لوگوں پر جو اللہ تعالی کے بنائے ہوئے اس نظام سے باہر نکل جاتے ہیں
مندرجہ ذیل آیت پر غور کریں
وَنُقَلِّبُ اَفْئِدَتَھُم وَاَبصَارَھُم کَمَا لَم یُؤمِنُوابِہِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُھُم فِی طُغْیَانِھِم یَعمَھُونَ
ترجمہ ۔جس طرح یہ لوگ پہلی بار( قرآن جیسے معجزے پر ) ایمان نہیں لائے ،ہم بھی (ان کی ضد کی پاداش میں ) ان کے دلوں اور نگاہوں کا رخ پھیر دیتے ہیں،اور ان کو اس حالت میں چھوڑ دیتے ہیں کہ کہ یہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے پھریں۔
اور اگلی آیت مزید وضاحت ہے
ملاحظہ فرمائیں
قولہ تعالی
وَلَواَنَّنَا نَزَّلْنَا اِلَیھِمُ المَلٰئِکَۃَ وَکَلَّمَھُمُ المَوتٰی وَحِشَرْنَا عَلَیھِم کُلَّ شَئیٍ قُبُلًا مَاکَانُوا لِیُؤمِنُوا اِلَّا اَنّْ یَشَاءَ اللہُ ولٰکِنَّ اَکْثرَھُم یَجھَلُونَ
ترجمہ ۔اگر بالفرض ہم ان کے پاس فرشتے بھیج دیتے ،اور مردے ان سے باتیں کرنے لگتے ،اور(ان کی مانگی ہوئی ) ہر چیز ہم ان کے سامنے لا کر رکھ دیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں تھے الا یہ کہ اللہ تعالی ہی چاہتا (کہ انہیں زبردستی ایمان پر مجبور کردے تو بات دوسری تھی ،مگر ایسا ایمان نا مطلوب ہے نہ معتبر)لیکن ان میں سے اکثر لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں
مطلب جہالت کی باتوں کا یہ ہے کہ انبیاء کرام علیھم الصلؤۃ والسلام سے اپنی مرضی کے فضول قسم کے معجزات دکھانے کا مطالبہ کرتے تھے اور کہتے تھے اگر فلاں معجزہ دکھا دو تو ہم ایمان لے آئیں گے مگر حقیقی بات یہ ہے کہ تمام من پسند معجزات بھی اگر بالفرض دکھا دئے جاتے تو یہ ایمان پھر بھی نہ لاتے
جب ایمان لانا ہی نہیں تو پھر مختلف قسم کے معجزات دکھانے کا مطالبہ جہالت نہیں تو اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ سوچیئے
مطلب کہ ایمان و عمل مزہ زندگی ہے
اب ذرا دوسری تفسیر کی روشنی میں نظر ڈالتے ہیں
جب یہ کفار داعی ایمان یعنی رسول کے سمجھانے اور دعوت دینے کے باوجود ایمان نہیں لائے تو اب ہم ان کو سزا دیں گے اور سزا کے طور پر ان کے دلوں کو راہ حق سے پھیر دیں گے چنانچہ نہ ان کو ایمان کی توفیق ملے گی اور نہ اعمال کی اوریہ اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے عین انصاف ہو گا جب تم نے اپنی مرضی سے ہدایت کو قبول نہیں کیا اور کھلے دروازے میں داخل نہیں ہوئے تو ہم زبردستی تم سے ایمان قبول نہیں کروائیں گے بلکہ اب ایمان نہ لانے کی وجہ جو سزا بنتی ہے وہ تمھیں ملے گی اور ضرور ملے گی اور برابر ملے گی
واللہ اعلم بالصواب
Leave a Comment