تحریک پاکستان میں حضرت علا مہ تھانوی صاحبؒ کا کردار
حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد مالکؒ کاندھلوی کہتے ہیں ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں اہل ہندوستان کی ناکامی کے بعد انگریزوں کے قدم ہبدوستان میں مزید مضبوط ہو گئے اور مزید جم گئے تو مسلمانوں اور ہندؤوں نے مل کر ایک قومی سطح کی مہم آزادی شروع کر دی جس کا مقصد یہ کہ انگریز کو ہندوستان سے نکالا جائے یہ تحریک آہستہ آہستہ چلتے ہوئے انیسویں صدی کراس کر کے بیسویں صدی میں داخل ہو گئی اور بیسویں صدی میں دارلعلوم دیو بند کے فارغ التحصیل علماء میدان میں اترتے ہیں اور اس تحریک کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں جب علماء کرام کا ایک بڑا حصہ اس تحریک سے منسلک ہوتا ہے تو مصائب قیدوبند کی مشقتیں جھیلنا پڑتی ہیں اور سولیوں کا سیزن شروع ہو جاتا ہے۔ یہ تحریک تھی بھی انگریزوں کے خلاف اور چلا بھی ہندو مسلم مل کر رہے تھے ہندو تعداد میں بھی زیادہ تھے اس کے باوجود بھی مسلم لیڈروں کو چن چن کرظلم وستم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک پرآہستہ آہستہ ہندؤوں کی گرفت مضبوط ہو نے لگی۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ جب مالٹا کی قید سے رہا ہو کر آئے بمبئی کی بندرگاہ پر آپ کا استقبال کیلئے ایک بہت بڑا مجمع موجود تھا جنھوں نے خوشی میں مختلف نعرے لگائے ایک نعرہ یہ بھی لگا، حضرت شیخ الہند کی جے ہو، حضرت اس نعرے کو سن کر چونک پڑے۔ اس موقع پر حضرت مولانا محمد علی جوہر اور حکیم اجمل بھی موجود تھے انھوں نے ترجمہ کر کے بتایا کہ اس کا مطلب ہے شیخ الہند کی فتح ہو اس پر حضرت شیخ الہند نے فرمایا کہ مجھے اس کا معنی ومطلب معلوم ہے مجھے حیرانگی اس بات پر ہو رہی ہے کہ میری قید کے دوران ذہنوں میں یہ تبدیلی کیسے آ گئی؟ْ اگر جے ہو کہنے میں کوئی نقصان نہیں سمجھا جا رہا تو اللہ اللہ کی جگہ رام رام کہنے میں بھی کوئی حرج نہ سمجھا جائے گا۔
ہم بات کر رہے ہیں تحریک پاکستان میں حضرت علا مہ تھانوی صاحبؒ کا کردارکے بارے میں
علامہ سید سلیمان ندویؒ اس بات کو ایک مثال کے ذریعے واضح کرتے ہیں کہ فرض کریں دوبھائیوں نے چلنا شروع کیا ایک تھوڑا سا آگے تھا اور دوسرا پیچھے۔ پیچھے والے نے کچھ قدم تیز رفتار سے اٹھا لئے اور آگے والے کو پیچھے کر دیا۔ اس مثال کا مطلب یہ تھا کہ ہندو سیاست میں مسلمانوں سے پیچھے تھا مگر بعد میں وہ آگے نکل گیا۔ اس مرحلہ تک کی جدوجہد میں تمام علماء دیوبند شامل تھے مثلا مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ، مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا عبیداللہ سندھیؒ، مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا ظفراحمد عثمانیؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ ودیگر علماء متفقہ طور پر سب ساتھ رہے۔ لیکن ۱۹۳۷ میں مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے محسوس کرنا شروع کر دیا کہ ہندؤوں کے شانہ بشانہ اگر مسلمان اس تحریک میں شامل رہے تو ممکن ہے انگریز کی غلامی سے نجات پا کر ہندؤوں کی غلامی میں چلے جائیں گے۔ اس پر مولانا اشرف علی تھانویؒ نے مسلم لیگ پٹنہ کے اجلاس میں (جو ۱۹۳۹ میں ہوا) ایک وفد بھیجا جس میں حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی بھی شامل تھے اور پٹنہ کے اس اجلاس میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا تو جو قومی آزادی کی تحریک تھی اس میں مذہبی رنگ اجاگر ہو گیا جبکہ پہلے محض قومی بنیاد پر یہ تحریک چل رہی تھی اس موقع پر حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اور ان کے ہم خیال حضرات نے اس خیال پر کہ اس مشترکہ تحریک میں اس موقع پر الگ الگ ہو کرتحریک چلانے سے یہ بالکل کمزور پڑ جائے گی اس علیحدگی کی مخالفت کی اوریہ نظریہ پاکستان کی مخالفت بھی محض قیام پاکستان تک تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اس کا رخ تبدیل ہو گیا چنانچہ ۱۹۴۸ میں قیام پاکستان کے بعد مولانا حسین احمد مدنیؒ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں تشریف لائے اس مجلس میں مولانا مدنیؒ سے پاکستان کے بارے سوال کیا گیا تو حاضرین مجلس جو کہ عینی شاہد ہیں کے بقول مولانا مدنیؒ نے فرمایا کسی جگہ مسجد کی تعمیر سے پہلے اختلاف ہو سکتا ہے کہ کہاں بنانی لمبائی چوڑائی کیا رکھنی ہے یہ فقھی اختلاف ہے اور درست ہے لیکن مسجد بن جانے کے بعد اب اس کی حفاظت و نگرانی ہر مسلمان کا فرض ہےاب پاکستان کی شکل میں چونکہ مسجد تعمیر ہو چکی ہے تواس کی حفاظت ہم سب مسلمانوں کا فریضہ بھی ہے اور ہماری تمنا بھی، علماء کی اسی شمولیت نے اس کو قومی سے مذہبی تحریک بنا دیا اور قائد اعظمؒ نے ہمیشہ علماء کی اس شمولیت کو سراہا اور اپنی تقریروں میں بارہا اس بات کا اعلان کیا کہ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کا قانون بنانے والا مسلمانوں کا دستور تو آج سے تیرہ سو سال پہلے بن چکا ہے۔ ان علماءکرام نے مسلم لیگ کے ساتھ مل کر پورے ہندوستان میں کام کیا اور میرٹھ، مظفرنگر،لاہو، سہارن پور، صوبہ سرحداور بنگال کے علاقوں میں اس تحریک کی حمایت میں نمایاں فرق محسوس ہونے لگا چنانچہ تاریخ آج بھی جانتی ہے کہ ۱۹۴۵ سے پہلے کی تحریک اور ۱۹۴۵ کے بعد کی تحریک میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اسی بنا پر حضرت مولانا سید عبدالقادرآزادؒ فرماتے ہیں قیام پاکستان کے سلسلہ میں اگر علماء دیوبند کے کردار بحث کی جائے اور ان کی جدوجہد کا ذکر کیا جائے تو علامہ اقبالؒ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور قائد ملت لیاقت علیؒ کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کے سرپرست اعلی حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، دارالعلوم کے صدر مہتمم مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ،دارالعلوم کے صدر مفتی مولانا محمد شفیع عثمانیؒ، دارالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ، حکیم الامت کے دوسرے خلفاء مولانا مفتی محمد حسن صاحبؒ بانی جامعہ اشرفیہ، حضرت مولانا خیر محمدؒ بانی جامعہ خیر المدارس، مولانا سید سلیمان ندویؒ، شیخ المحدثین حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا ادریس کاندھلویؒ اورخطیب پاکستان مولانا احتشام الحق تھانویؒ کے نام سر فہرست ہوں گے۔ سلہٹ اور سرحد کے ریفرنڈم میں شیخ الاسلام پاکستان علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، علامہ ظفر احمد عثمانیؒ اور انکے ساتھیوں نے ڈٹ کر ہندوانہ ذہنیت کے خلاف کام کیا۔ چنانچہ قائد اعظم ؒ نے اسی وجہ سے کراچی میں پاکستان کی پہلی قومی پرچم کشائی علامہ شبیر احمد عثمانیؒ سے کرائی اور مشرقی پاکستان میں علامہ ظفر احمد عثمانی سے کرائی اور مولانا احتشام الحق تھانویؒ انہی دو حضرات کے جان نشین تھے اور پوری زندگی تبلیغ اسلام اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کیلیئے وقف کر دی۔ آپ بلا کے خطیب ومقررشیریں بیاں تھے اسی لئے نواب زادہ لیاقت علی خانؒ کے الیکشن میں تھانہ بھون، کیرانہ، شاملی اور مظفر نگر میں مولانا کو دہلی سے بلا کر پروگرام کروائے جاتے تھے جو بڑے کامیاب رہتے تھے۔ ۱۹۴۶ میں متحدہ ہندوستان میں جب عبوری حکومت قائم ہوئی تو اس وزیر خزانہ کے طور پر بجٹ قائد ملت نے پہش کیا تھا جس سے پہلے مولانا احتشام الحق سے اس بجٹ تقریر میں سورہ حشر کی یہ آیت
کَیلَا یَکُونَ دُولَۃً بَینَ الاَغْنِیَاءِ مِنکُم
شامل کرائی گئی جو مسلم لیگ کا معاشی نظریہ بیان کر رہی تھی کہ جب پاکستان بنے گا تو اس کی معیشت سرمایا دارانہ نظام پر مبنی نہیں ہو گی، لیکن آج ۷۵ سال بعد بھی ملک کی معیشت کا نظام کیا ہے؟ یہ ہم سب جانتے ہیں اور اس کو بھگت بھی رہے ہیں۔
فالی اللہ المشتکی
Leave a Comment