شیرکے بارے میں معلومات | شیر کی اقسام، نام، خصوصیات
شیر کو عربی میں اسد کہتے ہیں اسکی جمع اُسُودٌ اُسُدٌ اورآسَادٌ آتی ہے اور شیرنی کیلئے اَسْدۃٌ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔
شیر کے نام
شیر کے بہت سارے نام ہیں جس اس کی عظمت کا پتہ چلتا ہے کیونکہ جس چیز کے نام زیادہ ہوں گے وہ اہم بھی زیادہ ہوتی ہے۔
حتی کہ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ شیر کے پانچ سو نام ہیں،بعض کہتے ہیں پانچ سو سے بھی زیادہ ہیں،آئیے شیر کے چند مشہور نام ذکر کرتے ہیں جو کہ یہ ہیں
اُسامَۃُ۔ الحَرثُ۔ حَیدَرۃٌ۔ السَّبْعُ۔ الضِّرغَامُ۔ الغَضَنفَرُ۔ القَسوَرَۃُ۔ الَّلیثُ۔ الورود۔ الطِّیثارُ۔ الھَرمَاسُ۔ اَلضَّیغَمُ
شیرکے بارے میں معلومات
شیر کی کنیتیں
ابوحفص۔ ابو الزعفران۔ ابوالعباس۔ ابوالحرث۔ ابوالابطال
یہ بھی شیر کا اعزاز ہے کہ اس کے نام بھی متعدد ہیں اور اس کی کنیت بھی متعدد ہیں ۔علامہ کما الدیں دمیری ؒ ایک مشہور عالم ہیں انہوں نے جانوروں کے حالات پر ایک کتاب لکھی ہے اس کی ابتدا انہوں نے شیر سے کی ہے اور وجہ یہ بیان کی ہے کہ شیر اک بہادر اور نڈر جانور ہےاور جنگل کا سردار ہےکیونکہ یہ بہادردلیر جرأت مند سنگ دل چالاک بد مزاج وبد خلق ہونے کی وجہ سے اک بارعب بادشاہ اور سردار کے روپ میں ڈھلا ہوا جانور ہے اسی بہادری دلیری اور حملہ آوری کی وجہ سے شیر بہادری کی مثال بن گیا ہے لہذا جہاں بھی بہادری کو بیان کرنا ہو وہاں شیر کی مثال دی جاتی ہےچنانچہ حضرت حمزہؓ کی بہادری کو بیان کرنے کیلئے ان کو اللہ کا شیر کہا جاتا ہےاو ر حضرت ابوقتادہؓ کو فارس النبیﷺ(یعنی اللہ کے نبی کا شاہ سوار)کہا جاتا ہے اور حضرت علیؓ کو حیدرکرار کہا جاتا ہے ،حیدر کرار کا مطلب ہے پلٹ کر سخت حملہ کرنے والا۔
شیرکے بارے میں معلومات دلچسپ ہیں
شیر کی اقسام
شیر کی بہت سی قسمیں ہیں اگرچہ ہمارے دہکھنے مین کم آتی ہیں چنانچہ مشہور فلسفی ارسطو کی طرف منسوب کرتے ہوے منقول ہے وہ کہتے ہیں میں نے ایک عجیب قسم کا شیر دیکھا جس کا رنگ سرخ اور شکل انسان سے ملتی جلتی تھی۔
اور بعض مؤرخین کہتے ہیں ایک شیر ایسا بھی ہوتا ہےجس کی شکل گائے سے ملتی جلتی ہوتی ہے اور کچھ حضرات کے خیال میں چھوٹے چھوٹے سینگ بھی ہوتے ہیں اس قسم کے شروں کے
ماہرین کے مطابق شیرنی بچہ پیدا کرنے کے بعد کچھ دن کیلئے اس کی خوب حفاظت کرتی ہے حتی کہ بچہ آنکھیں کھولتا ہے اور چھ ماہ تک وہ اپنی ماں کی حفاظت میں رہتا ہے پھر اپنا شکار کرنے کے قابل ہو جاتا ہےاور وہ اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے۔
شیر کی خصوصیات
جانوروں کی دنیا کے ماہرین کہتے ہیں کہ شیر بہادر نڈر حملہ آورہونے باوجود بہت صابر ہوتا ہے چنانچہ بھوک برداشت کرتا ہے خاص کر پانی کی ضرورت تو کافی دنوں تک محسوس نہیں کرتااور اس کی بہادرانہ خوبی یہ ہے کہ اکثر وبیشتر یہ کسی اور کا کیا ہوا شکا ر نہیں کھاتا اورمزید مزے کی بات یہ ہے کہ کھاتے کھاتے جب پیٹ بھر جائے تو بقیہ شکار کو وہیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور پھر دوبارہ اس شکار پر نہیں آتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کی جب اس کو شدت کی بھوک لگ جائے تو بہت زیادہ بد مزاج ہو جاتا ہے۔
اور دوسری طرف اگر پیٹ بھر جائے تو سستی کا مریض بن کے پڑا رہتا ہےاور کسی چیز کی پروا نہیں کرتا ۔
شیر ہمیشہ اپنا شکار کرنا ہی پسند کرتا ہے لیکن کتے کا جھوٹا بالکل پسند نہیں کرتا کیونکہ یہ اپنی بہادری کے خلاف سمجھتا ہے۔
شیر کی اک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ شکار کو کھاتے وقت صرف اگلے نوکیلے دانت استعمال کرتا ہے اور چبائے بغیر نوچ نوچ کر کھاتا ہے پھر اسکا طاقتور معدہ خوراک کو ہضم کرتا ہے۔
ایک اور حیرت ناک بات شیر میں پائی جاتی ہےاس کے منہ میں لعاب والا پانی بہت کم آتا ہے اسی لئے شیر کا منہ بہت بدبودار رہتا ہے۔
شیر کی ہمت و بہادری ضرب المثل ہے لیکن بایں ہمہ اس میں بعض کمزوریاں بھی ہیں۔
چنانچہ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ مرغ کی آواز سے بہت گھبرا جاتا ہے۔
بلی کی آواز سے بہت ڈرتا ہے۔
اور یہ مزے دار بات بھی سن لیں کہ آگ کو دیکھ کر حیران پریشان ہو جاتا ہے،اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اس کی گرفت بہت مضبوط اور شدید ہوتی ہے جس سے بچ نکلنا کافی مشکل ہوتا ہے یہ بات تو سب کے مشاہدے میں ہے اور سب ہی جانتے ہیں شیر کو کسی بھی درندے جانور سے محبت نہیں ہوتی کیونکہ یہ تمام جانوروں میں سے کسی کو بھی اپنےساتھ محبت کے قابل نہیں سمجھتا اور یہ جانتا ہے کہ کسی جانور میں یہ سکت نہیں کہ وہ اس کے حملے کا جواب دے سکے۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ حیض والی عورت سے بھی شیر خوف کھاتا ہے اور اس کے قریب نہیں جاتا۔
شیر پر ہمیشہ بخار سا غالب رہتا ہےجس کی وجہ سے اس کا جسم ہمیشہ گرم رہتا ہے۔
اور شیر کے بوڑھا ہونے کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کے دانت گرنا شروع ہو جا تے ہیں جب دانت کمزور یا گرنا شروع ہو جاتے ہیں تو یہ کمزور ہو جاتا ہے زیادہ شکار کے قابل نہیں رہتا،پھر چھوٹی اور کمزور چیزوں کا شکار شروع کر دیتا ہے اس حالت میں انسان کو شکار کرنا پسندیدہ مشغلہ بن جاتا ہے کیونکہ انسان زیادہ مزاحمت نہیں کر سکتا۔
اس حالت میں اگر انسانی آبادی قریب ہو تو خطر ناک ہو سکتا ہے پھر یا تو اس کو مار دیا جاتا ہےیا پکڑکر چڑیا گھر وغیرہ میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
شیرکے بارے میں معلومات حیرت انگیز ہیں
احادیث پاک میں شیر کا ذکر
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ایک واقعہ منقول ہے کہ سفر میں جاتے ہوے کچھ لوگوں کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا لگتا ہے تمھارے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہے انہوں نے جواب میں کہا یہاں کچھ فاصلے پر اک شیر نے لوگوں کا راستہ روکا ہوا ہے اور راستے کے درمیان میں بیٹھا ہوا ہے لوگ خوف زدہ ہیں راستہ بند ہے یہ سن کر حضرت عبداللہ ؓ اس شیر کے پاس گئے اوراس کان پکڑ کر راستے سے ہٹا دیا اور پھر فرمایا کہ اے شیر نبی کریمﷺ نے تیرے بارے میں بالکل سچ فرمایا ہے کہ اللہ نے تجھے ابن آدم میں سےان لوگوں پر مسلط کیا ہے جو اللہ سے نہیں ڈرتےبلکہ اللہ کے علاوہ اور مخلوق سے ڈرتے ہیں اگر انسان اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے تو پھر تو ان پر مسلط نہیں اور نہ ہی تو ان کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
پھر فرمایا اگر انسان اللہ کے علاوہ کسی نہ ڈرتا تو اپنے معاملات میں اللہ کے علاوہ کسی اور پر بھروسہ بالکل نہ کرتا۔
اسی طرح کا مضمون سنن ابی داؤد میں بھی آیا ہے
حضرت ابو ھریرہؓ سے منقول ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام جب آخر زمان میں میں زمین پر اتریں گے تو خیروبرکات کا زمانہ ہوگا امن وامان کا دور دورہ ہوگامال کی کثرت ہوگی انصاف کا بول بالا ہوگاحتی کہ شیر اونٹ کے ساتھ اور چیتا گائے کے ساتھ پانی پیے گا اور بکری بھیڑیا اکٹھے ایک ہی جگہ سے پانی پیئں گےامن کا یہ عالم ہوگا بچے سانپوں کے ساتھ کھیلتے ہوں گے لیکن اس وقت سانپ بچوں کو نقصان نہیں پہنچائیں گے اسی حال میں حضرت عیسٰی علیہ السلام چالیس سال تک زندہ رہیں گے پھر ان کا انتقال ہو جائے گا۔
حضرت سفینہ ؓ صحابی رسول ہیں ایک دفعہ روم کی سر زمین پر لشکر سےپیچھے رہ گئے اور گرفتار ہوگئے پھر موقع پا کر بھاگ نکلےاور راستے میں جنگل سے گزرتے ہوئے شیر سے سامنا ہو گیا حضرت سفینہ ؓ نے شیر کو مخاطب کر کے کہا او ابو الحرث میں سفینہ ہوں صحابی رسولﷺ ہوں اور آنحضرتﷺ کا غلام ہوں راستہ بھول گیا ہوں یہ سننا تھا کہ شیر دم ہلاتا ہوا آپ کی بغل میں آ کھڑا ہوا چنانچہ جب حضرت سفینہ ؓ کو کوئی خوف محسوس ہوتا تو آپ شیر کو پکڑ لیتے بلکہ جب بھی کہیں سے کسی جانور کی آوازآتی شیر لپک کر اس طرف جاتا اور حضرت سفینہ کی حفاظت کرتا حتی کہ شیر نے آپ ؓ کو لشکر سے ملا دیا اور واپس ہو گیا۔
آنحضرت ﷺ نے عتبہ بن ابی جہل کیلئے بد دعا فرمائی کہ اللہ اپنے کتوں میں سے کوئی کتا اس پر مسلط فرما چنانچہ ملک شام جاتے ہوئے زرقاء نامی جگہ پر قیام کے دوران اک شیر آیا اور اس کا سر کچل دیا۔
بعض نے یوں واقعہ بیان کیا ہے شام کی طرف سفر کرتے ہوئے ایک جگہ راھب کےگرجا کے قریب پڑاؤ ڈالا تو راھب نے کہا یہاں درندے بہت ہیں قیام نہ کریں اس پر ابو لہب نے کہا میرے بیٹے عتبہ کیلئےمحمدﷺ نے بددعا کی ہے اس کی جان کو خطرہ ہے اس کا خصوصی خیال کرو چنانچہ ان لوگوں نے عتبہ کو اپنے درمیان سلایا لیکن رات کو ایک شیر آیا سب کے منہ سونگھتے ہوئے عتبہ پر چھلانگ لگا کر اسے ختم کردیا۔
صحیح بخاری میں ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کوڑھی سے ایسے بھاگو جیسے جیسے شیر سے دور بھا گتے ہو۔
Leave a Comment