Islam

سعادت کیا ہے(صبر) اور یہ کیسے حاصل ہوتی ہے؟ (حصہ دوم)

سعادت کیا ہے(صبر) اور یہ کیسے حاصل ہوتی ہے؟ (حصہ دوم)

سعادت کیا ہے(صبر)اور یہ کیسے حاصل ہوتی ہے؟

(حصہ دوم)

سعادت  یعنی       دارین کی خوش بختی     تین چیزوں کے حاصل ہونے کا نام ہے سب سے پہلی    ہے نعمت پہ      شکریہ ادا کرنے کا مزاج      ہونا ۔

دوسری        چیز ہے صبر کی تو فیق   مل جانا ۔

اللہ تعالی جل شانہ کی طرف سے اپنے بندوں پہ کبھی کبھی کوئی حال آجاتا ہے جس سے وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے     اور آزمائش کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بندے کو کچھ ایسے مراتب اور درجات تک پہنچایا جائے جن تک یہ اپنے عمل کے ذریعے سے نہیں پہنچ پا رہا                  ۔

پس اگر کوئی ایسی صورت بن جائے تو اس میں بندے پر صبر کرنا ضروری ہوتا ہے  تاکہ پتہ چلے کہ ہم اللہ تعالی کے فرمانبردار بندے ہیں اور پھر اس صبر میں فائدہ بھی بندے کا اپنا ہو کہ اونچے اونچے درجات تک رسائی نصیب ہوتی ہے ۔

:سعادت کیا ہے(صبر)

صبر کرنے کیا مطلب ہے    ؟اور صبر کیلئے کیا کیا کام کرنے پڑتے ہیں ؟

صبر میں سب سے پہلے جو چیز ضروری ہے وہ ہے اپنے آپ کو غصہ کرنے سے روکنا یعنی جو حال آیا ہوا ہے اس کو تقدیر سمجھ کر قبول کرنا اور اس  پہ غصہ بالکل نہ کرنا بلکہ اللہ تعالی سے اچھے حالات کی امید رکھتے ہوئے اس کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر جانا ۔

اور دوسری چیز ہے اپنی زبان کو شکوہ شکایت سے روکنا اور کوئی اول فول بات زبان سے نہ نکالنا بلکہ کوشش کرکے اللہ تعالی کی نعمتوں کا اظہار کرنا کہ الحمدللہ اللہ تعالی کا بہت احسان ہے    اور بندے پہ اس کی نعمتیں بے شمار ہیں کیا ہوا         اگر آج مشکل حال آگیا ہے تو کل کو ٹل  جائے گا اور بدل جائے گا ۔

اور تیسری چیز ہے اپنے جسم  اور اپنے اعضاء کو کنٹرول میں رکھنا  یعنی کہ جسم سے یا اعضاء سے کوئی  ایسا            کام نہ کرنا جو اللہ تعالی کو پسند نہیں  مثلا    اپنے  چہرے کو پیٹنا اپنا گربیان پھاڑنا    بال نوچنا                                    وغیرہ وغیرہ  ۔

:سعادت کیا ہے(صبر)

بس یہ سمجھ لیں کہ صبر کا مدار ان تین چیزوں پہ ہے  چنانچہ جب بندہ ان تین چیزوں پہ عمل کرتا ہے اور اس طرح سے کرتا ہے کہ عمل کا حق ادا کردیتا ہے  تو آیا ہوا حال اور مشقت اس کیلئے رحمت اور نعمت بن جاتی ہے اور مصیبت  عطیہ بن جاتی ہے اور ناپسندیدہ  پسندیدہ بن جاتا ہے ۔

کیونکہ اللہ تعالی اپنے بندے کو ہلاک کرنے کیلئے تو آزمائش نہیں دیتا ؟بلکہ وہ تو اس لئے آزمائش  میں ڈالتا ہے کہ اس کا امتحان لے کہ میرا بندہ   عبودیت     میں کیسا ہے ؟کیوں کہ جس طرح    اچھے حالات  میں  اور پسندیدہ معاملات میں بندے پر ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کی بندگی میں لگا رہے اسی طرح  ہی ضروری ہے کہ تنگی میں اور ناگواری میں بھی اللہ تعالی کی بندگی میں کمی نہ آنے دے ۔

کیونکہ اچھے حالات میں تو ہر کوئی ساتھ نبھاتا ہے پتہ تو تب چلتا ہے جب حالات ناموافق ہوں  اور یپہ پھر بھی عبادت میں لگا ہوا ہے لیکن ہائے  افسوس کہ اکثر لوگ اچھے حالات میں تو عبودیت نبھا لیتے ہیں اور برے حالات میں وہ یہ فرض نبھانے میں ناکام ہو جا                 تے ہیں   ۔

واللہ اعلم وعلمہ اتم ۔

جاری ہے  مزید پڑھنے کیلئے اگلی پوسٹ کھولیں

Leave a Comment