سعادت کیا ہے (صبر دوم)اور یہ کیسے حاصل کی جاتی ہے؟
حصہ سوم
تو قارئین بات چل رہی ہے کہ سعادت و خوش بختی تین چیزوں سے حاصل ہوتی ہے اول نعمت پر شکر کرنے کی عادت سے دوم مصیبت کے وقت صبر کرنے سے اسی دوسری صفت کی تشریح بیان ہو رہی ہے کہ ہر حال میں عبودیت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے کیونکہ بندے کی عبودیت کی اصل شان یہ ہے کہ حالات کی تنگی اور ناگواری کے باوجود اپنا رشتہ عبادت برقرار رکھے اور اس خوبی میں انسان مختلف ہوتے ہیں کچھ توعبودیت میں کچھ بھی فرق نہیں آنے دیتے اور کچھ کمی یا سستی کر بیٹھتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسی خوبی کے مطابق انسان کا اللہ تعالی کے ہاں مقام اور مرتبہ ہوتا ہے ۔
:سعادت کیا ہے (صبر دوم)
چنانچہ شدید سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضوء کرنا بھی عبودیت ہے ۔
اور اپنی خوبصورت اور دل میں اتر جانے والی بیوی کے حقوق ادا کرنا بھی عبودیت ہے۔
اور اپنی جان سے بھی پیاری اولاد پر خرچ کرنا اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا بھی عبودیت ہے۔
لیکن آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس میں عبادت کے ساتھ ساتھ نفس کی تسکین بھی موجود ہے ۔
اسی طرح ناگواریوں کا لیول بھی مختلف ہوتا ہے تمام ناگوار لگنے والی عبادات میں ناگواری کا لیول ایک جیسانہیں ہوتا ۔
جیسا کہ آپ خود موازنہ کریں کہ سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے کی ناگواری اور تنگدستی کے باوجود خرچ کرنے کی ناگواری میں کتنا فرق ہے؟
یہ دونوں ناگوار عبادت ہونے میں ایک جیسا ہونے کے باوجود آپس میں زمین آسمان جیسا فرق رکھتی ہیں چنانچہ جو جس قسم کی ناگواری اٹھائے گا اسی قسم کا اجر وثواب پائے اور اسی مناسبت سے اس کا اللہ تعالی کے ہاں مقام و مرتبہ بھی بنے گا ۔
اور جو کوئی بھی ہر قسم کے حالات میں رشتہ عبودیت کو نبھائے گا وہ اللہ تعالی کے اس فرمان کا مصداق بنے گا
اَلَیسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ
ترجمہ: کیا اللہ تعالی ہی اپنے بندے کیلئے کافی نہیں؟
:سعادت کیا ہے (صبر دوم)
یقینا اللہ تعالی اپنے بندے یا بندوں کیلئے کافی وافی ہےاور یہ کفایت عبودیت یا عبادت کے لحاظ سے ہوتی ہے لہذا کامل عبودیت والوں کی کفایت بھی کامل اور تام ہوتی ہے اور ناقص عبودیت والوں کی کفایت بھی ناقص ہو گی پس جو انسان مکمل کفایت کا مزہ چکھے وہ اللہ تعالی کا شکر گزار بنے کہ اسی کی توفیق سے یہ ہوا اور جو انسان دیکھے کہ اس کی کفایت ناقص ہے تو وہ اپنے آپ کو ملامت کرے کہ اس کا سبب خود اس کا پیدا کردہ ہے ۔
اور پھر جن نیک لوگوں کی کفایت کامل ہوتی ہے ان پر شیاطین کا کچھ بھی اثر و رسوخ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ان پہ شیاطین کا غلبہ ممکن ہے کیونکہ شیطن نے خود کہا تھا جب اس کو راندہ درگاہ کیا جا رہا تھا کہ میں تیرے تمام بندوں کو گمراہ کروں گا سوائے ان لوگوں کے جو تیرے نیک اور مخلص بندے ہوں گے چنانچہ ارشاد باری ہے
فَبعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّھُم اَجْمَعِینَ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھِمُ المُخْلَصِینَ
ترجمہ: کہ تیری عزت کی قسم میں ان تمام ابن آدم کو گمراہ کروں گا سوائے ان کے جو تیرے مخلص اور فرمانبردار ہوں
اس مضمون کی بہت ساری آیات ہیں ۔
بہر حال جو اللہ کے نیک بندے ہیں ان پر شیطن کا بس نہیں چلتا لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ کبھی انسان غفلت میں مبتلا ہواور دھوکہ کھا جائے اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے انسان اپنی پوری کوشش کرتا ہےچور سے بچنے کی لیکن کبھی کبھی چور کا داؤ لگ جاتا ہے اور نقصان پہنچا دیتا ہے ۔
اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام ہر اعتبار سے کامل مکمل ہونے اور سب سے زیادہ عقل مند و صاحب فہم ہونے کے باوجود وہ چوک کر بیٹھے جس سے منع کیا گیا تھا تو پھر تیرا کیا خیال ہے ان کی اولاد کے بارے میں جو ان سے صفات میں بہت ہی کم ہے ۔
ہاں یہ الگ بات ہے کہ جو بھول چوک کی وجہ سے مبتلا ہوتا ہے وہ اس پہ برقرار نہیں رہتا بلکہ تو بہ کر کے دامن صاف کرا لیتا ہے ۔
واللہ تعالی اعلم
جاری ہے مزید معلومات کیلئے اگلی پوسٹ کا وزٹ کیجئے
Leave a Comment