سعادت کیا ہے اور یہ کیسے حاصل ہوتی ہے؟
اس دنیا میں ہر انسان کی خواہشات ہوتی ہیں اور یہ خواہشات بھلے عجیب و غریب ہوں یا سادہ سی لیکن ہوتی ضرور ہیں آج ہم ان میں سے ایک خواہش کا ذکر کرتے ہیں اور وہ ہے خوش بختی ۔
دنیا کا ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میں خوش نصیب و خوش بخت بنوں میرے دائیں بائیں سعادتیں اور خوش بختیاں ہوں اور میں بد نصیب یا بد بخت ہر گز نہ بنوں ۔
چناچہ آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے کسی بھی انسان سے سوال کریں کہ کیا تم بدنصیب و بد بخت بننا پسند کرو گے؟
تو اس کا ایک ہی جواب ہو گا اور فورا سے بھی پہلےوہ کہے گا ہر گز نہیں ۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ سعادت کس چیز کا نام ہے ؟
تو سن لیں کہ سعادت و خوش بختی تین چیزوں کا نام ہے۔
:سعادت کیا ہے
سب سے پہلی چیز جس پہ سعادت و خوش بختی کا مدار ہے وہ ہے نعمت کا شکر ادا کرنے کی عادت جس انسان کو بھی شکر ادا کرنے کی عادت ہو یا اس کا مزاج ہو کہ نعمت یا راحت ملنے پہ وہ شکر کرتا ہے اور عاجزی دکھاتا ہے تو سمجھ لیں کہ اس میں خوش بختی کی پہلی علامت موجود ہے ۔
اللہ تعالی کی طرف سے انسان پہ ہر وقت نعمتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے یہ نعمتیں مختلف لوگوں پہ مختلف شکل میں ہوتی ہیں کیوں کہ ہر انسان کا معاملہ دوسرے سے الگ ہوتا ہے مثلا ایک چیز اگر ایک انسان کیلئے باعث راحت ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ دوسرے کیلئے باعث تکلیف ہو ۔
شکر تین چیزوں کے جمع ہونے کا نام ہے جب تک یہ تین باتیں کسی میں نہ پائی جائیں اس وقت تک اس کا شاکرین کی فہرست میں شامل ہونا مشکل ہے ۔
اول
نعمت کا یا احسان کا اقرار کرنا اعتراف کرنا کیوں کہ اگر اعتراف ہی نہیں کرتا تو شکر کیسے ادا کرے گا؟ویسے بھی اقرار کرنا مشکل ہوتا ہے کیوں کہ اس میں بندے کی انا پہ چوٹ پڑتی ہے جس نے یہ مرحلہ عبور کرلیا امید ہے اگلے مراحل بھی عبور کر لے گا ۔
دوم
احسان کرنے والے کی تعظیم کرنا اور یہ تعظیم زبان سے بھی ہو مطلب یہ کہ اس نعمت کا اظہار کرنے کا اگر کوئی موقع بنے تو اظہار کرے بالکل نہ شرمائے ۔
سوم
یہ کہ اس نعمت کو منعم یعنی کہ احسان کرنے والے کی خوشنودی میں استعمال کرے اور جن کاموں میں لگنے کا حکم ہو ان میں لگائے اور جن کاموں سے منع کیا جائے اس سے رک جائے ۔
:سعادت کیا ہے
مثلا اگر اللہ تعالی نے مال دیا ہے تو جہاں خرچ کرنے کا حکم ہو وہاں خرچ کرے زکوۃ ادا کرے غریب لوگوں پہ خرچ کرے ان کی ضروریات کو پورا کرے ماں باپ کے مالی حقوق پورے کرے بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں خرچ کرےاس کے بعد غریب رشتہ داروں پہ خرچ کرے پڑوسی اگر محتاج ہے تو اس پہ لگائے ۔
اور معصیت و نافرمانی کے کاموں میں ہرگز نہ لگائے اپنی مال داری کی بنیاد پہ کسی پر ظلم نہ کرے وغیرہ وغیرہ
خلاصہ یہ ہے کہ اپنی پوری صلاحیت لگا کر یہ ثابت کرے کہ مجھ پہ جو نعمت و احسان ہوا ہے میں نے اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے یہی کام اللہ تعالی کو پسند ہے کہ اس کا بندہ کوشش میں لگا رہے ۔
واللہ اعلم بالصواب۔
جاری ہے اگلی پوسٹ میں سعادت کی بقیہ دو باتوں پہ بات ہو گی
انشاءاللہ
Leave a Comment