Islam

قرآن پاک کی ابتدا سورۃ فاتحہ سے کیئے جانے میں حکمت

کیا آپ جانتے ہیں کہ قرآن پاک کی ابتدا سورۃ فاتحہ سے کیئے جانے میں کیا حکمت اور فوائد ہیں؟ اگر نہیں تو آپ اس تحریر کا مطالعہ کریں

:قرآن پاک کی ابتدا

کیا آپ جانتے ہیں کہ قرآن پاک کی ابتداء سورۃ فاتحہ سے کیئے جانے میں کیا حکمت اور فوائد ہیں اگر نہیں تو آپ اس تحریر کا مطالعہ کریں  

 اللہ تبارک وتعالی نے اپنی مقدس کتاب کا آغاز سورۃ فاتحہ سے کیا ہے کیونکہ اس سورۃ میں قرآن پاک کے جمیع مضامین کے تمام مقاصد کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اجمالًا چونکہ اس میں تمام مضامین کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے اسی لیئے اس کا نام اُمُّ القرآن اور أُمّ الکتاب  بھی ہے۔

گویا یہ پورے قرآن کیلئے ایک عنوان کا درجہ رکھتی ہے اور آنے والے تمام مضامین کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

اسی بات کو حضرت امام حسن بصریؒ نے یوں بیان کیا ہے

أِنَّ اللہَ أَودَعَ عُلُومَ الْکُتُبِ السَّابِقَۃِ فِی الْقُرْآنِ ثُمَّ أَودَعَ عُلُومَ الْقُرْآنِ فِی الْمُفَصَّلِ ثُمَّ أَودَعَ عُلُومَ الْمُفَصَّلِ فِی الْفَاتِحَۃِ فَمَنْ عَلِمَ تَفْسِیرِھَا کَانَ کَمَنْ عَلِمَ تَفْسِیرَ جَمِیعِ الکُتُبِ الْمُنَزَّلَۃِ

ترجمہ: اللہ تبارک وتعالی نے پہلے جتنی بھی کتابیں نازل فرمائی ہیں ان تمام کے سارے علوم کو قرآن میں بیان کر دیا ہے  پھر قرآن پاک کے سارے علوم کو مفصلات سورتوں میں بیان کر دیا ہے پھر مفصلات سورتوں کے تمام علوم کو سورۃ فاتحہ میں رکھ دیا ہے۔ پس جس نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر کو جان لیا یا سمجھ لیا اس نے گویا کہ آسمان سے نازل کردہ تمام کتب کے علوم کو سمجھ لیا

[بیھقی فی شعب الایمان]

اور علامہ زمخشری صاحبؒ نے بھی اس بات کو لکھا ہےکہ سورۃ فاتحہ تمام علوم پر مشتمل ہے۔ وہ اس طرح کہ اس میں اللہ تبارک وتعالی کی حمد وثناء اس طرح بیان کی گئی ہے جس کا وہ مستحق ہے اور عبدیت پنا بھی بیان کیا گیا ہے ۔امر و نہی کا بھی ذکر ہے اور وعدے اور وعید کا بھی ذکر ہے اور اگر دیکھا جائے تو قرآن پاک بھی ان موضوعات سے باہر نہیں جاتا ۔

قرآن پاک کی ابتدا

حضرت امام فخرالدینؒ فرماتے ہیں کہ اگر غور کیا جائے تو پورا قرآن چار باتوں پر مشتمل ہے 

پہلی          :                                                                            اُلُوہِیَت یعنی اللہ تعالی کی حمد وثناء۔

دوسری     :                                                                               معاد یعنی آخرت کا بیان۔

تیسری        :                                                                        نبوت کا بیان ۔

چوتھی    :                                                                 قضاء و تقدیر کا بیان اور اثبات

اور چاروں مضامین سورۃ فاتحہ  میں موجود ہیں ۔

مثلًا  

َاَلحَمدُ لِلہِ رَبُّ العَالَمِین

 میں اُلُوہِیَت کا بیان ہے کیونکہ اُلُوہِیَت کا مطلب ہے اللہ تعالی کی توحید کو تسلیم کرنا اور الحمدللہ میں اقرار ہی یہ کیا گیا کہ تمام تعریفیں جو متصور ہیں کائنات میں ان کا مستحق صرف اللہ تعالی ہے کیونکہ جو خالق ہوتا ہے وہی تعریف کا مستحق ہوتا ہے۔ جب تعریف کا  استحقاق اللہ تعالی کیلئے ثابت ہے تو          اُلُوہِیَت بھی اس کیلئے ثابت ہو گئی۔

ِمَالِکِ یَومِ الدِّین

 میں معاد یعنی آخرت کا بیان ہے کیونکہ یوم الدین کا مطلب ہے فیصلےیا بدلے کے دن کا مالک اور فیصلہ یا بدلہ جس دن کے ساتھ مخصوص ہے وہ قیامت کا دن ہے اور قیا مت کا قائم ہو جانا ہی آخرت ہے ۔ اس کے ساتھ اس میں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ انسان مجبور نہیں ہے کہ کچھ بھی نہ کر سکے اور نہ ہی اتنا مختار ہے کہ سب کچھ کر سکے بلکہ اللہ تعالی نے انسان کو نیکی کے کرنے اور بدی سے بچنے کی طاقت دی ہے بشرطیکہ انسان اس قوت کو اپنی مرضی سے استعمال کرے کیونکہ زور زبردستی کا نظام دنیا میں انسان کے ساتھ نہیں ہے ۔

اِھْد ِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمِ

 سے سورۃ کے آخر تک میں تقدیر الہی اور نبوت کا بیان ہے کہ اسی کو اس قابل سمجھا گیا ہے کہ اس سے ہدایت مانگی جائے  اور ہدایت کو پہنچے ہوئے لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی استدعا کی جائے اور ہدایت یافتہ طبقہ انبیاء کرام کا ہے اور ان کے بعد پھر درجہ بدرجہ اور لوگ بھی اس میں داخل ہوتے ہیں   اور گمراہ لوگوں کے راستے پر چلنے سے بچنے کی دعا کی گئی ہے۔ گمراہ لوگ وہی ہیں جنہوں نے انبیاء کرام کی تعلیمات کو ٹھکرایا ہے۔اس سے بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کے پاس ہدایت کا پیغام پہنچانے کیلئے انبیاء کرام کو بھیجا تھا۔

یہ چاروں مضامین سورۃ فاتحہ میں بیان کر دئے گئے ہیں۔

اور علامہ بیضاوی ؒ فرماتے ہیں سورۃ فاتحہ تمام عقائد پر مشتمل ہے جو کسی بھی انسان کیلئے ضروری ہیں اور تمام احکامات پر مشتمل ہے جو انسان کو ساری زندگی کرنے ہوتے ہیں مثلًا

اِھْدِ نَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمِ

 میں جس سیدھے راستے کو مانگا گیا ہے ساری زندگی اس پر چلنا انسان کی ضرورت ہے ۔

سورۃ فاتحہ میں نیک اور بد لوگوں کا حال بھی بیان کر دیا گیا ہے تاکہ نیک لوگوں کے راستے پر چلا جائے اور برے لوگوں کے راستے سے بچا جائے  اور نیک لوگوں کا مقام اور مرتبہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ کتنا بلند ہو گا اور برے لوگوں کا حال بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں کیسے یہ لوگ راندہ درگاہ ہیں اور کتنے نا پسندیدہ ہیں کہ خود اللہ تعالی نے ان کے غلط راستے پر چلنے سے پناہ مانگنے کی ترغیب دی ہے ۔

 علامہ طیبی ؒ فرماتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ ان تمام علوم پر مشتمل ہے جو شریعت کے بنیادی علوم میں آتے ہیں مثلا ً شریعت کا ایک اہم علم ہے جس کو علم الاصول کہتے ہیں۔ علم الاصول کا مطلب ہے عقائد کا علم کہ اللہ تعالی کے بارے میں کیا کیا عقیدے ہونے چاہیئں اور اللہ تعالی کی پہچان کے کیا اصول ہیں ،  اس کی کیا کیا صفات ہیں ۔ان تمام باتوں کی طرف اشارہ ہے

اَلْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ

 میں اسی طرح معاد یعنی آخرت کی تیاری اوراس کا وجود بھی اہم علوم میں سے ہے اس کی طرف

مَالِکِ یَومِ الدِّینِ

 میں اشارہ ہے

اور دوسرا وہ علم ہے جس سے کمال حاصل ہوتا ہے جیسے اچھے اخلاق اور اخلاق کا سب سے اعلی درجہ یہ ہے کہ اللہ کے حضور سرخ رو ہو کر پیش ہونے کی جدوجہد کرنا اور صراط مستقیم کو اختیار کرنے پر استقامت حاصل کرنا۔ اس مضون کی طرف اشارہ ہے اللہ تعالی کے فرمان

أَنْعَمْتَ عَلَیھِمْ غَیرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیھِمْ وَلَا الضَّآلِّینَ

 میں۔

چنانچہ علامہ طیبیؒ فرماتے ہیں کہ باقی سارا قرآن ان مضامین کی تفصیل بیان کرتا ہے جو سورۃ فاتحہ میں اجمالاً رکھ دئے گئے ہیں بس یوں سمجھ لیں کہ سورۃ فاتحہ ایک دروازہ ہے اور بقیہ قرآن حویلی کی مانند ہے ۔

قرآن پاک کی ابتدا

امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ قرآن کے  چھے مقاصد ہیں تین اصل ہیں اور تین انکا تتمہ ہیں جو تین اصل ہیں وہ یہ ہیں:

 پہلا  جس کی طرف بلایا جا رہا ہے دعوت دی جارہی ہے اس کو پہچاننا اس کا بیان ہے

اَلْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ

میں ۔

دوسرا ہے  صراط مستقیم کی پہچان جیسا کہ

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمِ

میں بتایا گیا ہے ۔

تیسرا ہے پیشی کے احوال کو جاننا  اس کا بیان ہے مالک یو م الدین میں ۔

واللہ اعلم وعلمہ اتم

Leave a Comment