اونٹ کی فریاد
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک ایسا واقعہ جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا
کیا آپ کبھی ایسی جگہ گئے ہوں جہیں جانور کثرت سے موجود ہوں مثلا کسی چڑیا گھر میں تو آپ دیکھیں گے کہ اگر آپ قریب سے جائزہ لیں تو آپ کومحسوس ہوگا کہ بعض جانورآپ کی طرف دیکھتے ہیں اپنی دونوں آنکھوں سے اور ان آنکھوں میں جانور کے محسوسات کے بہت سارے اشارے ہوتے ہیں گویا وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں آپ کو اپنا حال سنا رہے ہوتے ہیں اور آپ کو کچھ باتوں کا جواب دیتے ہیں اور اپنی فطرت کے مطابق وہ آپ کے قریب آتے ہیں اور بعض ایسی حرکات کرتے جن میں بہت سارے معانی ومطالب چھپے ہوتے ہیں ایسا لگتا ہے وہ ابھی بول پڑیں گے یہ تو عام سی بات ہے اور عام طور پر پیش آنے والے واقعات و حالات ہیں لیکن آپ کو کیسا لگے گا اگر کچھ ایسے انوکھے کام ہوں جن کو اللہ تعالی ظاہر فرمانے کا ارادہ کرے جس کے ذریعے دل ہل جائیں اور عقلیں حیران ہو جائیں اور احساسات معطل ہو جائیں دلیل کے طور پر یہ دیکھیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اجمعین نے حضور اکرم ﷺ کے ہاتھ مبارک میں موجود کنکریوں کی آواز یعنی تسبیح سنی حالانکہ عام حالات میں کنکری کا بولنا بات کرنا محال سمجھا جاتا ہے ،اور صحابہ کرام ؓ نے کھجور کے تنے کے رونے کی آواز سنی وہ آنحضرت ﷺ کا قرب چاہتا تھا جب مسلمانوں نے آنحضرت ﷺ کیلئے منبر بنایا اور آنحضرت ﷺ نے جس کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے اس کی بجائے منبر پر چڑھ کر خطبہ دینا شروع کیا اس پر آنحضرت ﷺ اس درخت کے تنے کے قریب آئے اس کو گلے لگایا پیار کیا اور فرمایا کیا تو اس بات پر راضی نہیں؟ کہ آخرت میں تو جنت کے درختوں میں شامل ہو جائے اس کے بعد وہ تنا خاموش ہو گیا ،جب پتھر اور درخت تسبیح کرتے ہیں اللہ کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں لیکن ہم ان کی تسبیحات اور حمد کو سمجھ نہیں سکتے تو جانور جو جاندار ہے کچھ شعور بھی رکھتا ہے اس کا بولنا بات کرنا عقل کے زیادہ قریب نہیں؟؟
اونٹ کی فریاد لہذا اونٹ بھی فریاد کرتا ہے
چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ ایک اونٹ نے حضور اکرم ﷺ سے شکایت لگائی کہ میرا مالک مجھ سے کام زیادہ لیتا ہے اور کھانے کو پورا نہیں دیتا،اور ھدھد نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے بات کی اور اپنے غائب رہنے کی وجہ بیان کی اور بتایا کہ ایک قوم پر ملکہ بلقیس حکومت کرتی ہے،اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے چیونٹی کی آواز سنی جو اپنے قبیلے کو کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر سے ڈرا رہی تھی اور کہ رہی تھی کہ اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ لشکر تمھیں روند ڈالے بات یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول سچے ہوتے ہیں چنانچہ حضور اکرم ﷺ ایک دفعہ فجر کی نماز کے بعد کھڑے ہوئے اور اپنے اصحاب کو ایک واقعہ سنایا اور جب واقعہ بیان کیا تو حضرت ابوبکر ؓ و حضرت عمر ؓ مجلس میں موجود نہیں تھے شاید کسی لشکر میں تھے یا تجارت کیلئے گئے ہوئے تھے پس آنحضرت ﷺ نے واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک بار ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا اور مکمل حفاظت کر رہاتھا کہ اسی اثنا میں بھیڑیا بکریوں پر حملہ آور ہوا اور ایک بکری کو گردن سے پکڑ لیا اور جلدی جلدی کھینچ کے لے جانے لگا
کیونکہ فطرت کا قانون ہے کہ کمزور جانور طاقت ور کی غذا بنتا ہے
اور بکری بھی اس کے ساتھ کھچتی چلی گئی اور موت کی طرف بڑھتی رہی آنے والے حالات سے بے خبر، خوف نے اس کے حواس شل کر دئے اور بھیڑئے کے ساتھ چلنے پر مجبور کردیا جیسے ہی چرواہے کو خبر ہوئی وہ بھاگتا ہوا آیا (جبکہ چرواہا طاقتور اور مضبوط تھا) چھڑی ساتھ تھی ہی تعاقب کرتے ہوئے پیچھے سے حملہ آور ہوا اور بکری کو چھڑوانے پر تل گیا اور بھیڑے پر ایسا زور دار وار کیا کہ اس کو اپنی کمر کی ہڈی ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی حتی کہ جب بھیڑے کو یقین ہونے لگا کہ میں شکار کرنے کی بجائے خود شکار ہو جاؤں گا تو اس نے بکری کو چھوڑ دیا اور مغلوب ہو کردور بھاگ گیا اور اپنی دونوں پاؤں پر بیٹھ کر چرواہے کی دیکھا اور بولا آج تو تونے میرا شکار مجھ سے بچا لیا اور چھین لیا لیکن (یوم السبع) یعنی درندوں کے دن ان بکریوں کی کون حفاظت کرے گا؟
ہم بات کر رہے ہیں اونٹ کی فریاد کی بارے میں
اور تو کیا جانے کہ درندوں کا دن کیا ہے؟؟
یہ ایک ایسا دن ہے جو غیب سے تعلق رکھتا ہے اور مستبل قریب میں جب فتنے ظاہر ہوں گے اور لوگ اپنے جانوروں مویشوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیں گے لوگوں کو اپنی فکر لگ جائے گی جبکہ درندے اس دن خوب فساد مچائیں گے اور ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہوگا قتل وغارت و لوٹ مار عام ہو جائے گی ،،
اور یہ قیامت کی علامات میں سے ہوگی اس پر صحابہ کرام نے اس قصے اور بھیڑئے کی گفتگو اس کی فصاحت اور دیگر پیش آنے والے واقعات پر تعجب کا اظہار کیا
اور یہ تعجب کوئی بے یقینی یا تکذیب کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اپنی سوچ و فہم سے بلند بات کو اچانک سننے کی نتیجے میں پیش آیا
چنانچہ اس تعجب کی بنیاد پر صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ آپ ہمیں آسمانوں کی خبریں دیتے ہیں اور سچے ہیں لیکن یہ بھیڑئے کی بات وغیرہ والی خبر نے ہماری فکروں کو لگام دے ڈالی ہے اور ہمیں متحیر کر دیا ہے اس لیئے ہمیں تعجب ہو رہا ہے ،آنحضرت ﷺ نے جب صحابہ کو تعجب میں دیکھا تو فرمایا میں اس پر ایمان لاتا ہوں ،اور یہ بات روٹین کی ہے کہ ایسے موقعہ پر انسان اس طرح کا اظہار کرتا ہے خاص کر جب یہ شخصیت پیغمبر بھی ہو کیونکہ پیغمبر کی بات کا منبع اللہ تعالی کی ذات ہوتی ہے اور اللہ تعالی سے زیادہ سچا کون ہو سکتاہے؟؟
اب امید آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اونٹ کی بھی فریاد ہوتی ہے
Leave a Comment