مکہ اور مدینہ کی مساجد
مکۃ المکرمہ میں مشہورمسجد تو ظاہر ہے بیت اللہ شریف ہے حرم مکی ہے لیکن کچھ اور مساجد بھی ہیں اسی طرح مدینۃ المنورہ میں مشہورو معروف مسجد تو مسجد نبوی ہے لیکن کچھ دیگر مساجد بھی موجود ہیں آئیے دیکھتے ہیں وہ کون سی ہیں اور ان کا نا کیا ہے؟
مسجد قبلتین
تعارف یہ مسجد غرب مدینہ کے شمال میں ایک بلند ٹیلہ ہے جس کا نام حَرَّۃُ الوَبْرَۃ ہے اس پر واقع ہے اور اس مسجد کے مغربی جانب ایک سیڑھی ہے جس سے اوپر چڑھ کر جایا جاتا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ تعالی جب مدینہ منورہ کے والی یعنی حکمران تھے تو انھوں نے اس کی تجدید کی تھی۔ اس کے بعد سلیمان بن عبدالملک نے ۹۵۰ ہجری میں دوبارہ اس کی تجدید کی ،اس مسجد کے اندرونی حصے میں شمال کی جانب ۱۵۰کے قریب آیات انتہائی خوبصورت انداز میں لکھی ہوئی ہیں ،سلیمان نے لکھوائی۔
مکہ مدینہ کی مساجد
مسجد کی وجہ تسمیہ؟
اس مسجد کا نام ذوالقبلتین پڑنے کی وجہ یہ ہے روایات میں آتا ہی کہ ایک دفعہ رسول اکرم ﷺ اس مسجد میں ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ دواران نماز ہی تحویل قبلہ کا حکم آ گیا یعنی قبلہ تبدیل ہو گیا اور بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ شریف کی طرف منہ کرنے کا حکم مل گیا آپ ﷺ نے ابھی دو ہی رکعت پڑھائی تھی کہ آپ ﷺ نے اپنا رخ بیت اللہ کی پھیر لیا اس طرح اس مسجد میں ایک نماز میں دو قبلے استعمال ہوئے وہیں سے اس مسجد کانام ذوالقبلتین (یعنی دو قبلوں والی مسجد )پڑ گیا،چنانچہ علامہ قرطبی تفسیر قرطبی میں فرماتے ہیں
وَقِیلَ نَزَلَ ذٰلِکَ عَلَی النَّبیِّ ﷺفی مَسجِدِ بَنِی سَلِمَہ وَ ھُوَ فِی صَلٰوۃ ِالظُّہرِ بَعدَ رَکَعَتَینِ مِنھَا فَتَحَوَّلَ فِی الصَّلٰوۃِ فَسُمِّیَ ذٰالِکَ المَسجِدُ مَسجِدَ القِبْلَتَینِ
اس عربی عبارت کا مفہوم وہی جو اوپر وجہ تسمیہ میں بیان ہوا۔
ہم بات کر رہے ہیں مکہ اور مدینہ کی مساجد کے بارے میں
مسجد ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ
مسجد ابو بکرؓ مسجد مُصَلّٰی کی شمال کی طرف واقع ہے اور مسجد جہاں واقع ہے اس کو محلَّہ عَرِیضِیَہ کہتے ہیں اس مسجد کا نام مسجد ابوبکر پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے اس مسجد میں عید کی نماز پڑھائی تھی، بعد میں اس جگہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے سب سے پہلے مسجد تعمیر کی،
وَیُرجَحُ اِنَّ اَوَّلَ بِنَاءً اُقِیمَ عَلَیہِ کَمَسْجِدٍ کَانَ عَلٰی عَھْدِ اَمِیرِ المَدِینَہ عُمَرَ بْنِ عَبدِالعَزِیزِ
ترجمہ، راجح بات یہ ہے کہ اس جگہ مسجد کے انداز میں سب سے پہلی تعمیر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جو کہ امیر مدینہ تھے کے دور میں ہوئی۔
ؓ مسجد عمر بن خطاب
تعارف، عام کتب تاریخ مدینہ میں اس مسجد کا ذکر نہیں ملتا لیکن علامہ سمہوی ؒ نے یہ بات لکھی ہے یہ مسجد مسجد مصلی سے قبلہ کی جانب میں بطحان نام کی وادی میں ایک اونچے ٹیلے پر واقع ہے اور اس کی بنیاد شمس الدین بن احمد السلاوی نے ۸۵۰ ہجری کے بعد رکھی اور یہ مسجد مسجد عمر بن خطاب کے نام سے مشہور ہے اور اس کی موجودہ بلڈنگ اور تعمیر سلطان عبدالمجید کے زمانہ میں ۱۲۶۶ ھجری میں ہوئی چنانچہ معالم بین مکہ والمدینہ کے مصنف لکھتے ہیں کہ
وَقَد اَقَامَ ذٰالِکَ المَسجِدَ شَمسُ الدِّین مَحَمَّدُ بنُ اَحمَدَ السَّلَاوِی ؒ بَعدَ عَامٍ ۸۵۰ ہجری وَیُعرَفُ بِالمَسجِدِ سَیِّدِنَا عُمَرَ بنِ الخَطَّابِ وَتَجدِیدُ بِنَائِہِ عَلَی الوَضْعِ الحَالِی یَرجِعُ اِلٰی عَھدِ سُلطَانِ عَبدُالمَجِیدِ الاَوَّلِ فِی عَامٍ ۱۲۶۶ ہجری
ترجمہ، اور اس مسجد کی تعمیر شمس الدین محمد بن احمد السلاوی ؒ نے ۸۵۰ ہجری کے بعد کی اور یہ مسجد عمر بن الخطاب کے نام سے موسوم ہے، البتہ اس کی موجودہ بلڈنگ اور تعمیر کا تعلق سلطان عبدالمجید کے ساتھ ہے جو انہوں نے ۱۲۶۶ ہجری میں کی تھی۔
مکہ اور مدینہ کی مساجدبڑی اہمیت کی حامل ہیں
مسجد علی بن ابی طالب
تعارف مسجد علی بن المرتضی ؓ مسجد مصلی کیے شمال کی جانب کسی جگہ واقع ہے اور اس مسجد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جمعہ ادا کی تھی، باقی رہی یہ بات کہ اس کا نام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ کیوں پڑا تو وہ اس لیے کہ حضرت علی ؓ نے اس مسجد میں کسی موقع پر نماز عید پڑھائی تھی، اس مسجد کے بانی اول بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ ہیں جب آپ ولید بن عبدالملک کے دور میں ۹۳ ھجری میں مدینہ کے حاکم بنے تھے تب آپ نے یہ مسجد بنوائی تھی اور اس کی تجدیدی تعمیر بعد میں امیر زین الدین ضیغم المنصوری نے ۸۸۱ ہجری میں جب وہ مدینہ منورہ کے حاکم بنے تو انھوں نے اس مسجد کے گرنے کے بعد از سر نو کی ،تاریخ میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ جب یہ مسجد گری تھی تو اس میں کئی حجاج کو دفن بھی کیا گیا تھا۔ مکہ مدینہ کی مساجد
مسجد مصلی
تعارف یہ مسجد ثنیۃالوداع سے جانب جنوب مسجد نبوی کے قریب واقع ہے اور یہ مسجد مبارک ہے کیونکہ حضور اکرم ﷺ نے ہجرت کے دوسرے سال میں اس میں عید کی نماز پڑھی تھی، اس مسجد کو مسجد غمامہ بھی کہتے ہیں وجہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے نبی ﷺ اس میں نماز پڑھ رہے تھے کہ سورج پورے کا پورا بادل میں چھپ گیا علامہ سمہوی کے بقول اس مسجد کی بنیاد بھی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ۹۳ ہجری میں رکھی جب آپ ولید بن عبدالملک سے پہلے مدینہ کے حکمران تھے، پھر اس کے بعد سلطان ابن قلاوون نے ۷۴۷ ہجری میں اس کی تجدید کی ،پھر اس کے بعد چودھویں صدی ہجری میں اس کی تجدید سلطان عبدالمجید عثمانی کے زمانہ میں ہوئی جو آج تک موجود ہے
مسجد جمعہ
تعارف یہ مسجد پتھروں کی بنی ہوئی ہے اور اس مسجد الوادی بھی کہا جاتا ہے اور ہجرت کے نوویں صدی میں سلطان بایزید عثمانی نے پتھروں سے بہت مضبوط تعمیر کی تھی اور ابھی تک یہ مسجد سلطان بایزید عثمانی کی تعمیر کے ساتھ ہی موجود ہے، البتہ اس کی کچھ مرمت بعد میں سید حسن ؒ نے کی۔ اس کے بعد ۱۳۹۵ ھجری میں سعودی عرب کی حکومت نے اس کو مزید مزین اور خوبصورت کرکے بنایا اور یہ قباء کے باغیچوں کے بالکل درمیان میں واقع ہے۔
اس مسجد کا تاریخی پس منظر
تاریخ یہ ہے کہ ہجرت کے موقع پر جب آنحضرت ﷺ قباء سے مدینہ منورہ تشریف لا رہے تھے توراستے میں قبیلہ بنی سالم بن عوف میں جمعہ کا وقت ہو گیا لہذا آنحضرت ﷺ نے بطن الوادی میں جمعہ کی نماز پڑھائی یہ مدینہ منورہ میں آپ ﷺ کا پہلا جمعہ تھا تو جہاں آپ ﷺ نے جمعہ کی نماز پڑھائی اس جگہ مسجد کی بنیاد رکھی گئی۔
Leave a Comment