دلچسپ واقعات و حکایات

لوگوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں ان سے کیسے معاملہ کیا جائے حصہ اول

لوگوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں جب ان سے معاملہ کیا جائے تو مزاج کا خیال رکھنا چاہئے (پارٹ ۱) آپ اگر ہر دل عزیز بننا چاہتے ہیں تو لو گوں کا مزاج پہچانیئے اور اس کی رعایت کیجئے

لوگوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں جب ان سے معاملہ کیا جائے تو مزاج کا خیال رکھنا چاہئے

حصہ اول 

آپ اگر ہر دل عزیز بننا چاہتے ہیں تو لو گوں کا مزاج پہچاننےکی کوشش کریں اور اس کی رعایت کیجئے

لوگ اپنے مزاج اور طبیعت کی وجہ سے  بہت ساری چیزوں میں متفق ہوتے ہیں اور کچھ چیزوں کو پسند کرتے ہیں اور ان کو حاصل کر کے خوش ہوتے ہیں اور بہت ساری چیزوں میں ان کو ناپسند کرنے میں متفق ہوتے ہیں اور سب کے سب ان چیزوں سے نفرت کرتے ہیں

اور کچھ چیزوں میں لوگ متفق نہیں ہوتے بلکہ بعض لوگ ان چیزوں کو پسند کرتے ہیں اورخوش ہوتے ہیں دیگر بعض ان ہی چیزوں کو بوجھ سمجھتے ہیں۔

چنانچہ تما م لوگ تبسم یعنی خندہ پیشانی کو پسند کرتے ہیں اور چہرے پر سلوٹوں اور ناگواری کی لکیروں کو ناپسند کرتے ہیں

اور دوسری جانب بعض لوگ خوش مستی اور مزاح کو پسند کرتے ہیں اور بعض لوگ اس کو ناپسند کرتے ہیں۔  

بعض لوگوں کو اچھا لگتا ہے کہ لوگ ان سے میل ملاقات رکھیں اور ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہیں اور بعض لوگ گوشہ نشینی کو پسند کرتے ہیں اور میل ملاقات آنا جانا ان کو اچھا نہیں لگتا

اور بعض لوگ گپ شپ گفتگو کو پسند کرتے ہیں جبکہ بعض لوگ گپ شپ اور گفتگو کی کثرت سے نفرت کرتے ہیں۔

اوپر بیان کردہ مزاجوں کی روشنی میں یہ بات کہی جاتی کہ جس کا جو مزاج ہوتا ہے وہ اپنے ہم مزاج کے پاس بیٹھ کر ہی راحت پاتا ہے،   تو پھر آپ اپنا مزاج ایسا کیوں نہیں بنا لیتےکہ لوگوں کو آپ کے پاس بیٹھ کر سکون حاصل ہو اور وہ راحت پائیں اور کیوں آپ لوگوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں کرتے کہ وہ آپ کے قریب ہو سکیں۔

شاہین اور کوے کی کہانی

بتایا جاتا ہے کہ ایک آدمی نے دیکھا کہ شاہین کوے کے ساتھ پرواز کر رہا ہے اور دونوں مل کر اڑتے جا رہے ہیں اس آدمی کوبڑا تعجب ہوا کہ شاہین کی پرواز کوے کے ساتھ؟

شاہین پرندوں کا بادشاہ اور کوا ایک کمزور اخلاق کا مالک ،  تو اس آدمی نے سوچا کہ یقینا ان دونوں میں کوئی بات ایسی ضرور ہے جس نے ان  کو اکٹھے پرواز کرنے والا بنا دیا ہے۔ چنانچہ اس نے ان دونوں کا پیچھا کیا حتی کہ جب وہ تھک کر زمین پر اترے تو اس آدمی نے دیکھا کہ وہ دونوں ایک پاؤں سے لنگڑے ہیں۔

دیکھیں دو مختلف قسم کے جانوروں میں ایک چیز مشترک ہوئی تو وہ آپس میں مل گئے اور اکٹھے پرواز کرنے لگے یہی حال ہے آپ کا کہ آپ بھی اگر کسی کے ساتھ مزاج مشترک کریں گے تو وہ آپ کے ساتھ راحت محسوس کریں گے۔

اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ جب کسی بیٹے کو یہ معلوم ہو کہ اس کا والد خاموش رہنے کو پسند کرتا ہے اور زیادہ گفتگو کو پسند نہیں کرتا تو بیٹے کو چاہئے کہ اپنے والد کے ساتھ معاملہ بھی اسی طرح کا کرے اور زیادہ و فضول گفتگو اس کے ساتھ نہ کرے تاکہ باپ اپنے اس بیٹے کے قریب ہو سکے اور راحت پا سکے اور باپ کو بیٹے کے پاس بیٹھنے سے سکون ملے۔

اسی طرح اگر بیوی کو معلوم ہو کہ اس کا خاوند مزاح کھیل کود کو پسند کرتا ہے تو بیوی کو چاہئے کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ ایسا کرے تاکہ خاوند کو بیوی کے قرب سے راحت و سکون مل سکے اور اگر بیوی کو معلوم ہو کہ اس کا خاوند ان باتوں کو پسند نہیں کرتا تو پھر اپنے خاوند کے ساتھ ایسا نہ کرے تاکہ یہ دونوں پیار محبت کے ساتھ رہ سکیں۔

اور یہی طرز اختیار کریں اپنے ساتھیوں اور پڑوسیوں وغیرہ کے ساتھ معاملہ کرنے میں کہ سب کو ایک مزاج کا نہ سمجھو بلکہ ان کے مزاج مختلف ہوتے ہیں اتنے مختلف کہ شمار نہیں ہو سکتا۔

 

لوگوں کے مزاج : ایک بڑھیا عورت اور اس کے بیٹے کی کہانی

بیان کرنے والا کہتا ہے کہ مجھے ایک بڑھیا اچھی طرح یاد ہے جو اپنی اولاد میں سے ایک کی بڑی تعریف کرتی تھی اور جب کبھی یہ بیٹا اس سے ملنے جاتا تو وہ بڑی راحت محسوس کرتی اور کھل کر اس سے باتیں کرتی باوجود یکہ اس کی دوسری اولاد بھی فرمانبردار تھی نافرمان نہیں تھی اور وہ بڑھیا ان سب سے راضی تھی لیکن ایک بیٹے کی تعریف بھی زیادہ کرتی تھی اور اس سے مل کر خوش بھی ہوتی تھی ،قصہ بیان کرنے والا کہتا ہے کہ مجھے شوق ہوا کہ اس راز کو جانوں اور معلوم کروں۔اسی اثناء میں ایک دفعہ میں اس بیٹے کے ساتھ جو میرا دوست بھی تھا بیٹھا باتیں کر رہا تھا تو میں نے اس سے یہ راز جاننا چاہا اور پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اماں جان تیرے ساتھ زیادہ خوش رہتی ہے ۔اس نے جواب دیا کہ بات یہ ہے کہ میرے بھائی امی جان کا مزاج نہیں سمجھتے اسی لئے جب وہ امی جان کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو امی جان اپنی طبیعت پر بوجھ سا محسوس کرتی ہیں۔میں نے مذاق میں کہا تم اپنی امی کے مزاج کو جانتے ہو؟وہ ہنسا اور بولا کہ جی میں جانتا ہو۔ں بات یہ ہے کہ میری امی جان بھی دوسری بوڑھی خواتین کی طرح ہے جن خواتین کو شادی کی باتوں میں مزا آتا ہے وہ جب گفتگو کرتی ہیں کہ فلانی کی شادی ہو گئی،  فلانی کو طلاق ہو گئی ،فلانی کے اتنے بچے ہیں اور ان میں سے فلاں بڑا ہے اور فلاں کی فلانی سے کب شادی ہوئی ،ان کے بچے کتنے ہیں بڑے کا کیا نام ہے وغیرہ وغیرہ اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں جن کو میں فضول سمجھتا ہوں۔ لیکن وہ ان باتوں کو کر کے بہت خوش ہوتی ہے اور سمجھتی ہے یہ بڑی قیمتی باتیں ہیں  ۔لہذا جب میں امی جان سے یہ باتیں پوچھتا ہوں اور وہ بتاتی ہیں تو وہ سمجھتی ہیں کہ میں نے ایسی بات بتائی ہے جو کہیں اور سے معلوم نہیں ہو سکتی تھی اور میں سن کر خوش کا اظہار بھی کرتا ہوں کہ یہ تو بڑی اچھی باتیں ہیں ۔پس جب بھی میں ان کے پاس بیٹھتا ہوں اسی طرح کی باتیں کرتا ہوں اور سنتا ہوں اور امی بھی بڑی خوش ہو کر یہ باتیں بتاتی ہیں اور بتاتے بتاتے ٹائم گزر جاتا ہے لیکن باتیں باتیں ختم نہیں ہوتی ۔جب کہ میرے دوسرے بھائی اس طرح کی باتوں کو سننے کا تحمل نہیں رکھتے اور وہ امی جان کے ساتھ دیگر ایسی باتیں کرتے ہیں جو امی کے خیال میں زیادہ اہم نہیں ہوتی۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلتا ہے تھوڑی ہی دیر میں امی جان اکتا جاتی ہیں اور میرے ساتھ خوش رہتی ہیں۔

یہ ہے اس راز کی اصل اورمکمل کہانی

جاری ہے

Leave a Comment