Islam

کائنات کی تخلیق ، قلم اور بادل کے بعد کیا پیدا کیا گیا

کائنات کی تخلیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قلم کےبعد اللہ تعالی نے کس چیز کو پیدا کیا؟

یہ بات  تو تقریباً واضح ہے کہ کائنات کی تخلیق میں سب سے پہلے جس چیز کو پیدا کیا گیا ہے وہ قلم ہے، اب رہ گئی یہ بات کہ قلم کے بعد کس چیز کو پیدا کیا گیا ہے؟

تو آئیے جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں دوسرے نمبر پر کس چیز کو پیدا کیا گیا ہے؟

علماء تاریخ فرماتے ہیں کہ قلم کے بعد اللہ تعالی نے ایک باریک سا بادل پیدا کیا جس کو غمام کے نام سے جانا جاتا ہے اسی طرف اشارہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب آپ سے پوچھا گیا کہ مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی ذات کہاں جلوہ افروز تھی؟

آپ ﷺ نے جواباً فرمایا غمام میں جلوہ افروز تھی جس کے نیچے ہوا تھی اور اوپر بھی ہوا تھی اس کے بعد اللہ تعالی نے عرش کو پیدا فرمایا یہ وہی غمام ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں ہے

ِھَل یَنظُرونَ اِلَّا اَن یَأتِیَھُمُ اللہُ فِی ظُلَلٍ مِّنَ الغَمَام

 اس آیت کی مختصر تفسیر یہ ہے کہ یہود مدینہ بسا اوقات یہ مطالبہ کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالی ہمیں نظر آ کر ایمان لانے کا حکم دیں تو ہم ایمان لے آئیں گے اس مطالبے کا جواب دیا گیا ہے کہ تم ایمان لانے کیلئے اس وقت کا انتظار نہ کرو کہ سائبان میں تمھیں اللہ تعالی نظر آئیں ۔

اگر نظر آ گئے تو ایمان بالغیب نہیں رہے گا جبکہ دنیا امتحان گاہ ہے اور بنا دیکھے ایمان لانے کا مطالبہ ہے

لیکن بعض حضرات کی رائے یہ ہے کی قلم کے بعد لوح محفوظ کو پیدا کیا گیا ہے کیونکہ روایات میں آتا ہے کہ اللہ تعالی نے قلم کو پیدا کرتے ہی حکم دیا کہ لکھو ماکان اور مایکون سب لکھو یعنی جو کچھ ہوگا قیامت تک سارا لکھو تو جیسے لکھنے کیلئے قلم ایک آلہ ہوتا ہے ایسے ہی لکھے جانے کیلئے ورق کی ضرورت ہوتی ہے اسی کو لوح محفوظ سے تعبیر کیا گیا ہے لہذا قلم کے بعد لوح محفوظ کو پیدا کیا گیا

البتہ پہلی رائے والوں کا کہنا ہے کہ قلم کے ساتھ چونکہ لوح محفوظ خود بخود ہی سمجھ  میں  آ جاتا ہے اسی لئے الگ سے اس ذکرکرنے کی ضرورت  نہیں ہے

بادل کے بعد کیا پیدا کیا گیا؟

اس میں اختلاف ہے اور حضرت ابن عباس ؓ کی طرف منسوب ایک روایت میں آتا ہے  کائنات کی تخلیق میں  بادل کے بعد عرش کو بنا گیا 

اور بعض کی رائے ہے کہ  اللہ تعالی نےپانی کو عرش سے پہلے بنایا پھر عرش کو بنایا اور پانی پر رکھ دیا  یہ حضرت ابن مسعودؓ کی طرف منسوب ہے

اور بعض کہتے ہیں کہ قلم کے بعد اللہ تعالی نے کرسی پیدا کی پھر عرش پھر ہوا پھر اندھیرے پھر پانی کو پیدا کیا اور عرش کو پانی پر ٹکا دیا ، البتہ پانی کو پہلے پیدا کرنے کا قول زیادہ صحیح ہے

کائنات کو پیدا کرنے کا آغاز کس دن ہوا؟؟؟

حضرت عبداللہ بن سلام، کعب احبار،اور مجاھدؒ فرماتے ہیں کہ کائنات  کی تخلیق میں  پیدا کرنے کا آغاز اتوار کے دن سے ہوا

اور محمد بن اسحاق کہتے ہیں ہفتہ کے دن آغاز ہوا اسی طرح کی بات حضرت ابوھریرہؓ سے بھی منقول ہے

کس دن میں کس چیز کو پیدا کیا گیا؟؟

قرآن پاک  کی بعض نصوص جیسا کہ سورۃ السجدہ کی یہ آیت ہے

اللہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالَارْضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی العَرْشِ

اور بعض آحادیث س یہ  بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے کائنات   کی تخلیق میں یہ طرز اپنایا کہ مخلوق کو تدریج کا سبق دینے کیلئے کائنات کو چھ دن میں بنایا۔البتہ کس چیز کو کس دن بنایا؟؟ یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں

حضرت عبداللہ بن سلام ؒکہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کائنات کو اتوارکے دن بنانا شروع کیا چنانچہ اتوار اور سوموار کے دن زمینوں کو پیدا کیا، اور مخلوق کی روزی میں استعمال ہونے والی چیزیں اور پہاڑ منگل اور بدھ کے دن بنائے

اور آسمانوں کو جمعرات اور جمعہ کے دن پیدا فرمایا اور جمعہ کی آخری گھڑی میں اس سے فراغت ہوئی اور اس آخری گھڑی میں حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا پس یہی وہ گھڑی ہے جس میں قیامت قائم ہو گی اسی طرح کی روایت حضرت ابن مسعودؓ اور ابن عباسؓ سے بھی ہے

حضرت ابن عباسؓ سے ایک اور روایت ہے کہ اللہ تعالی نے پہلے زمین کو مخلوق کی روزی سے بھر کر پیدا فرمایا لیکن زمین کو پھیلایا نہیں بچھایا نہیں پھر آسمانوں کی طرف متوجہہوئے اور پورے سات آسمان ٹھیک ٹھیک پیدا فرمائے پھر اس کے بعد زمین کو بچھایا اسی طرف اشارہ کرتی ہے قرآن پاک یہ آیت (وَالاَرْضَ بَعدَ ذٰلِکَ دَحٰھَا)

 اور اللہ تعالی نے آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد زمین کو بچھایا

اور یہی بات زیادہ بہتر لگتی ہے اس طرح آیات میں تطبیق بیٹھ جاتی ہے اور ہر آیت کا مطلب واضح ہو جاتا ہے

اور حضرت ابن عباسؓ سے ایک دوسری سند سے یہ بھی مروی ہے کہ اللہ تعالی نے کائنات کو پیدا کرنے سے دوہزار سال پہلے بیت اللہ کو بنایا اور چار ستونوں پر ٹکا دیا پھر اس بیت اللہ کے نیچے سے زمین کو بچھا کر پھیلا دیا اس طرح کی بات حضرت ابن عمرؓ سے بھی مروی ہے 

اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے ایک روایت مروی ہے جس میں وہ اس آیت کی تشرح کرتے ہیں

ھُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُم مَّا فِی الاَرْضَ جَمِیعًا ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَاءِ فَسَوّٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ

اور فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کا عرش پانی پر تھا اور ابھی تک کسی اور مخلوق کو پیدا نہیں کیا تھا پھر جب مخلوقات کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اسی پانی سے ایک دھواں نکالا وہ دھواں پانی کے اوپر بلند ہوا اور چھا گیا اسی دھویں سے سات آسمانوں کو بنایا پھر اس پانی حکم  کوالہی سے خشک کیا اور ایک زمین کو پیدا کر دیا پھر اس زمین کو پھاڑا اور پھاڑ کر سات زمینوں میں تبدیل کردیا اور یہ کام اتواراور سوموار  کے دن ہوا

کچھ غیر معتبر باتیں

اب اس کے بعد بھی کچھ باتین کتابوں میں موجود ہیں البتہ ان کو زیادہ معتبر نہیں سمجھا گیا وہ درج ذیل ہیں پھر ان سات زمینوں کو ایک خاص قسم کی حوت (یعنی مچھلی ) کی پیٹھ پر رکھ دیا بعض حضرات کہتے ہیں اس حوت کا ذکر اس نون (ن) میں ہے جو سورۃ قلم کے شروع میں آیا یے چنانچہ ارشاد باری ہے

ِِن وَالقَلَم 

اور یہ حوت پانی میں ہے اور پانی ایک بہت بڑے لمبے چوڑے چکنے پتھر کی پیٹھ پر ٹکا ہوا ہے یہ پتھر ایک فرشتے کی پیٹھ پر رکھا ہوا ہے اور یہ فرشتہ ایک بہت بڑی چٹان پر سوار ہے اور یہ چٹان ہوا میں ہے بعض کہتے ہیں کہ یہ چٹان وہی ہے جس کا ذکر حکیم لقمان علیہ السلام نے کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ چٹان نہ آسمانوں میں ہے اور نہ زمین پر ہے چنانچہ جب یہ حوت حرکت کرتی ہے تو اضطراب و زلزلہ پیدا ہوتا ہے جس کو قابو کرنے کیلئے زمین پر پہاڑوں کو گاڑا گیا بس زمین ٹھہر گئی اس وجہ سے پہاڑ فخر کرتے ہیں کہ زمین کا ٹھہراؤ  ا  ن کی وجہ سے ہے  اسی بات کا ذکر اس آیت میں ہے

وَجَعَلْنَا فِیھَا رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیدَ بِکُمْ

اہم وضاحت

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اس مضمون میں جہاں کہیں بھی دن کا ذکر ہے مثلاً زمین کو فلاں دن پیدا کیا وغیرہ وغیرہ ان سے بعینہ دن مراد نہیں ہیں کیونکہ دن اس زمانے میں ابھی تھے ہی نہیں بلکہ دن کی مقدار کے برابر وقت مراد ہے جیسا کہ اس آیت

وَلَھُم رِزْقُھُم فِیھَا بُکْرَۃً وَعَشِیًّا

میں صبح اور شام سے صبح اور شام کے برابر وقت مراد ہے کیونکہ یہ بات طے ہے کہ جنت میں دن رات صبح شام کا نظام نہیں ہوگا

Leave a Comment