جنت کی چابی کیا ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت معاز بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت کی چابی لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا ہے اسی طرح کی روایت امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ان کی مسند میں منقول ہے ۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے کہ حضرت وَھَبْ بِنْ مُنَبِّہ سے کسی نے پوچھا کیا یہ بات درست نہیں کہ لا الہ الا اللہ جنت کی چابی ہے؟؟
پوچھنے والے کا مقصد یہ تھا کہ جب کلمہ طیبہ پڑھ لیا گیا تو گویا جنت کی چابی مل گئی جب چابی مل گئی تو داخلہ بھی پکا ہو گیا اس پر حضرت وَھَبْ بِنْ مُنَبِّہ نے اعمال کی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے فرمایا کہ میاں ہر چابی میں دندانے ہوتے ہیں جس سے تالا کھلتا ہے اگر دندانے نہ ہوں تو چابی کے باوجود قفل نہیں کھلتا اگر تیرے پاس دانداناں والی چابی ہو گی تو جنت کا دروازہ کھلے گا ورنہ نہیں کھلے گا اور کلمہ طیبہ والی چابی کے دندانے اسلام کے احکامات ہیں نماز روزہ حج بیت اللہ زکوۃ وغیرہ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک دیہاتی نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ جنت کی چابی کیا ہے ؟
آنحضرت ﷺ نے فرمایا
لا الہ الا اللہ کہنا
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمھیں جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ بتاؤں؟؟
میں نے عرض کیا ضرور بتائیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا
لا حول ولا قوۃ الا بااللہ
انتہائی مزیدار و دلچسب بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہر مقصد کو پانے کیلئے اس کی ایک چابی بنائی ہے جس سے وہ مقصد کھلتا ہے یعنی کہ حاصل ہوتا ہے۔
آئیے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
نیکی و بدی کی چابیاں
چنانچہ نماز کی چابی طہارت ہے یعنی کہ وضوء جیسا کہ اک روایت میں بھی آتا ہے
مِفتَاحُ الصَّلٰوۃِ اَلطَّھَارَۃُ
اورحج بیت اللہ کی چابی احرام ہے۔
اور نیکی کی چابی سچ بولنا ہے ۔
اور جنت کی چابی توحید باری کا عقیدہ ہے۔
اور علم کی چابی خوبصورت سوال اور بہترین ادب ہے۔
یعنی اچھے طریقے سے موقع محل کا خیال کرتے ہوئے سوال کرنا، اور سوال کرتے ہوئے آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے عاجزی انکساری کے ساتھ سوال ہو۔
اور غیبی مدد ونصرت کی چابی صبر کرنا ہے۔
اور موجودہ نعمت میں اضافے کی چابی شکر بجا لانا ہے۔
اور ولایت کی چابی ہر ایک سے محبت کرنا اور ذکر اِلٰہی میں مگن رہنا ہے۔
اور فلاح (دنیا و آخرت کی کامیابی) کی چابی اللہ تعالی کا ڈر ہے۔
اور نیک کام کی توفیق ملنے کی چابی اللہ تعالی کی طرف رغبت اور اسکے عذاب سے ڈرنا ہے۔
اور قبولیت کی چابی دعاء ہے۔
اور آخرت میں رغبت کی چابی دنیا میں زہد اختیار کرنا ہے۔
اور ایمان کی چابی ان چیزوں میں غور کرنا ہے جن میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو غور کرنے کا حکم دیا ہے۔
اوراللہ تعالی کے دربار میں خصوصی حاضری کی چابی دل سے مسلمان ہونا یعنی دل سے فرماں بردار ہونا اور محبت ونفرت میں کرنے و چھوڑنے مین اخلاص پیدا کرنا ۔
اور دل کے زندہ رہنے کی چابی قرآن پاک میں تدبر وغوروفکرکرنا۔
صبح سحری کے اوقات میں آہ زاری کرنا اور گناہوں کو چھوڑنا ہے۔
اور اللہ کی نعمتوں کو حاصل کرنے کی چابی اس کی عبادت میں اخلاص کی اندر احسان کا درجہ پیدا کرنااور اس کے بندوں کو فائدہ پہنچانے کی تگ ودو اور محنت کرنا ۔
اور رزق کی چابی گناہوں پر استغفار کرتے ہوئے محنت و کوشش کرنا اور تقوی اختیار کرنا۔
اور عزت و شرافت کی چابی اللہ جل شانہ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت کرنا۔
اور آخرت کی تیاری کی چابی امیدوں کا چھوٹا ہونا ہے۔
اور ہرخیر کی چابی اللہ تعالی کی ذات میں اور آخرت کے گھر میں رغبت رکھنا ہے۔
اور ہر شر کی چابی دنیا کی محبت اور امیدوں کا لمبا ہونا ہے۔
یہ علم کا بہت بڑا باب ہے کہ خیروشر کی چابیوں کی پہچان ہو جائے۔
اور اس کی پہچان کی توفیق صرف اسے مل سکتی ہے جسے علم شرعی کا بہت بڑا حصہ نصیب ہوا ہو۔
کیونکہ اللہ تعالی نے ہر خیر وشر کی چابی بنا دی ہے جسے حاصل کر کے اس خیر یا شر میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالی نے شرک و تکبر اور رسولوں کے ذریعے بھیجی گئی تعلیمات سے روگردانی کرنے کو اور اللہ تعالی کی ذات سے غفلت اختیا کرنے کواور اس کا حق ادا نہ کرنے کو دوزخ میں داخلے کی چابی بنایا ہے۔
اور جیسا کہ شراب کو ہر گناہ کی چابی بنایا ہے۔
اورناچ گانے کو زنا کی چابی بنایا ہے۔
اور بد نظری کو ناجائز عشق ومحبت میں گرفتار ہونے کی چابی بنایا ہے۔
اور سستی و آرام طلبی کو ناکام ونامراد ہونے کی چابی بنایا ہے۔
اور گناہوں کو کفر کی چابی بنایا ہے۔
اور جھوٹ کو نفاق کی چابی بنایا ہے۔
اورحرص کو بخل اور قطع رحمی اور ناحق مال بٹورنے کی چابی بنایا ہے۔
اور انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی تعلیمات سے اعراض کو ہر بدعت کی چابی بنایا ہے
اور ان باتوں کی تصدیق وہی کر سکتا ہے جس کو صحیح بصیرت اور ایسی عقل ملی ہو جس کے ذریعہ وہ اپنے آپ میں اورارد گرد کی چیزوں میں جھانک سکے اور صحیح و غلط کی پہچان کر سکے۔
پس ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ ان چابیوں کی پہچان میں پوری صلاحیت خرچ کرے پورا زور لگائے پوری زندگی صرف کرے۔
خلاصہ گفتگو
اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کو اللہ تعالی دارالاسباب بنایا ہے جو سبب اختیار کیا جائے گا اس پر نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا ایسا نہیں ہے کہ محض ارادے سے ہم کوئی اچھا یا برا کام انجام دے سکیں بلکہ اس کیلئے اسباب اختیار کرنا بھی ضروری ہے اور یہی ہماری سنجیدگی کی دلیل بھی ہے کہ اگر ہم کوئی کام کرنے میں سنجیدہ ہیں تو سبب کیوں اختیار نہیں کرتے نیک بننا ہے تو نیکی کے اسباب اختیار کریں جنت یا درجات جنت یا کوئی بھی خوبی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے اسباب بھی اپنائیں ورنہ پھر کوخواب ہی ہے حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔۔
واللہ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَعِلْمُہُ اَتَمُّ
Leave a Comment