اسلامی نظام معیشت
کا ایک اصول
ِِبَیعُ المَبِیعِ قَبلَ القَبْض
یعنی جب تک خریدار اپنے خریدے ہوئے مال پر قبضہ نہ کر لے اور اپنی ذمہ داری میں نہ لے لے اس وقت تک اس مال کو آگے فروخت نہیں کر سکتا۔
ترمذی شریف کی ایک حدیث ہے
نَھٰی رَسُولُ اللہِﷺ عَن بَیعٍ وَشَرْطٍ وَعَن بَیعِ مَا لَیسَ عِندَکَ وَعَن رِبْحِ مَا لَم یَضْمَنْ
ترجمہ: کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع کے ساتھ کوئی اضافی شرط (جس کا تعلق اس معاملے کے ساتھ نہ ہو) لگانے سے منع کر دیا ہے اور جو اس وقت آپ کے پاس موجود نہیں یعنی آپ کا قبضہ اس پر نہیں ہے اس کو بیچنے سے بھی منع کر دیا ہے اور جس چیز کا ضائع ہو جانے کے بعد نقصان کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے اس کو بھی بیچنے سے منع فرما دیا ہے۔
کتنا پیارا ہے یہ اسلامی نظام معیشت کا اصول
بظاہر یہ سادہ سا اصول ہے لیکن دنیا کی تجارت کے اتنے بڑے بڑے مسئلے اس اصول کی پاسداری سے حل ہو سکتے ہیں کہ آپ کی سوچ ہے اور تجارت میں پائی جانے والی اونچ نیچ کا بہت حد تک علاج ہے اس میں۔لیکن اس اصول کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ شریعت میں قبضہ سے پہلے کسی چیز کو بیچنا کیوں منع ہے؟
تو بات یہ ہے کہ آپ صرف اسی چیز کو بیچ کر نفع حاصل کر سکتے ہیں جس کا نقصان بھی آپ پر پڑے اگر خدانخواستہ وہ ضائع ہو جائے تونفع بھی وہی کمائے جو نقصان برداشت کرے یہ نہیں ہو سکتا کہ ضائع ہونے کی صورت میں نقصان ایک آدمی برداشت کرے اور اس کو بیچ کر نفع کوئی دوسرا کمائے یہ سراسر زیادتی ہے اور اس زیادتی کا سد باب صرف اسلام ہی کرتا ہے کیونکہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کی بنیاد ہی انسانیت کی بھلائی پر ہے اور فطرت انسانی ترجمانی پر ہے۔
یہ ہےاسلامی نظام معیشت کا ایک اصول اور اس طرح کے اصول صرف اسلام ہی پیش کر سکتا ہے کیونکہ یہ دین فطرت ہے
اب یہ بات سمجھ لیں کہ نقصان کون اٹھاتا ہے؟تو شریعت کی نظر میں جس کے قبضے میں یہ چیز اس وقت موجود ہے وہ مالک ہو نہ ہو ضائع ہونے کی صورت میں نقصان اس کو برداشت کرنا پڑے گا مثلاً
ایک آدمی نے اپنی گاڑی بیچ دی اب جو خریدار ہے وہ اس گاڑی کا مالک بن گیا ہے لیکن اگر بیچنے والا یہ کہے کہ گاڑی تو میں نے بیچ دی ہے لیکن خریدار کے حوالے میں ایک ہفتہ بعد کروں گا خریدار اگر راضی ہو تو یہ معاملہ درست ہے۔لیکن اگر بالفرض یہ گاڑی اسے ہفتے میں اپنے پہلے مالک کے پاس ہوتے ہوئے تباہ ہو گئی تو اس کا نقصان اسی پہلے مالک کو برداشت کرنا ہوگا اور اس کو گاڑی کی طے شدہ قیمت نہیں ملے گی بھلا کیوں؟وہ اس لئے کہ گاڑی اس کی حفاظت میں اور ذمہ داری میں تھی جب وہ تباہ ہو گئی تو اس کو کچھ نہیں ملے بس یوں سمجھا جائے گا کہ اس نے یہ گاڑی بیچی ہی نہیں۔
ضمنی بات اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سود کہ حرمت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پیسے سے وہ شخص نفع اٹھاتا ہے جس کی ذمہ داری میں اس وقت یہ پیسہ نہیں ہے مثلاً
ہارون نے اکرم کو ایک ہزار روپیہ قرض دیا جب اکرم نے وہ قرض لے لیا تو اب اس رقم کے ساتھ ہارون کا کوئی تعلق نہیں رہا اگر خدانخواستہ یہ رقم ضائع ہو جاتی ہے تو نقصان اکرم کا ہوگا ،ہارون جو اس رقم کا اصل مالک تھا اس کا کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ اکرم کے ذمہ ہوگا کہ وہ وقت مقررہ پر یہ قرض واپس کرے ،اب اگرہارون صاحب اکرم سے کہتے ہیں کہ جب میں قرض واپس لوں گا تو ایک ہزار سے سو روپیہ زیادہ لوں گا مطلب گیارہ سو وصول کروں گا ،یہ سو روپیہ کا نفع ہارون صاحب جس رقم کے بدلے میں لے رہے ہیں اس رقم کے ضائع ہو جانے کی صورت میں نقصان کی ذمہ داری ہارون پر نہیں تھی اس لیئے شریعت نے سود کو حرام قرار دیا ہے کہ سودی معاملے میں انجام کے اعتبار سے یہی چیز پائی جاتی ہے کہ نقصان کی ذمہ داری کے بغیر نفع حاصل کیا جا رہا ہے۔اسلامی نظام معیشت
اب سمجھتے ہیں اس اصول کو کہ قبضہ سے پہلے چیز کو کیوں نہیں بیچا جا سکتا؟
درحقیقت اسلام کا یہ وہ حکم ہے جس کی حقیقت سمجھنا انسان کے بس کی بات ہی نہیں ہے انسانی عقل کی اتنی رسائی نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے احکامات کو سمجھ سکے یہ تو اللہ تعالی کی مہربانی ہے کہ اس نے اپنی قدرت کاملہ سے انسان کو یہ احکام عطا فرمائے ہیں۔ظاہری انداز میں دیکھا جائے تو یہ ایک چھوٹا سا حکم ہے لیکن اس میں انسانیت کے اتنے فوائد ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اتنے بڑے بڑے مفاسد کا دروازہ بند ہو گیا ہےاور آج سرمائا دارانہ نظام معیشت میں جو نقصانات پائے جاتے ہیں ظن غالب سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کا پچاس فیصد تو اس اصول کو لاگو کرنے سے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔اسلامی نظام معیشت
آج کے دور میں قبضہ کرنے سے پہلے بیچنے کا رواج عام ہوچکا ہے اور اس کی وجہ مارکیٹ میں چیزوں کی قیمتوں میں مصنوعی اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے مثلاً
ایک تاجر نے کسی مال کا آرڈر دیا بیرون ملک سے ہو یا اندرون ملک سے ابھی وہ مال روانہ ہی ہوتا ہے راستے میں ہوتا ہے کہ آرڈر دینے والا تاجر اپنا مخصوص نفع رکھ کر دوسرے کو بیچ ڈالتا ہے پھر وہ دوسرا بھی اپنا نفع رکھ کر تیسرے کو بیچ دیتا ہے اور بسا اوقات یہ مال مارکیٹ میں پہچنے سے پہلے ہی کئی جگہ بکنے کی وجہ سے مہنگا ہو جاتا ہے کیونکہ ہر بیچنے والے نے اپنا نفع وصول کیا ہے اور پھر مارکیٹ میں آنے کے بعد اس مہنگائی کا اثر عام صارف پر پڑتا ہے کیونکہ درمیان میں جتنے لوگوں نے خریدا اور بیچا ہے وہ سارا کا سارا عام کسٹمر کو ادا کرنا پڑتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام پر بوجھ بڑھ جاتا ہے جبکہ بڑے بڑے تاجروں نے اپنا نفع کما لیا اگر یہ مال مارکیٹ میں آنے کے بعد اور آرڈر دینے والے تاجر کے قبضے میں آنے کے بعد بیچا جاتا تو یقیناً اس کی قیمت میں غیر ضروری اضافہ نہ ہوتا۔
اسی لیے اسلام نے اس شریفانہ لوٹ مار کا راستہ بند کر دیا ہے اور یہ پابندی لگا دی ہے کہ خریدار جب تک اپنی کسٹڈی میں نہ لے لے اس وقت تک آگے فروخت نہیں کر سکتا۔ یہ ہےاسلامی نظام معیشت کی ایک جھلک
Leave a Comment