Islam

ابلیس ملعون کا قصہ ۔ آدم علیہ السلام سے ضد کیسے ہوئی؟

ابلیس ملعون کا قصہ آدم علیہ السلام سے  ضد کیسے ہوئی؟

کہتے ہیں کہ شروع شروع میں شیطان سردار تھا اور خوبصورت بھی اور آسمان وزمین والوں پر حکمران بھی تھا اور جنت کے کے خزانچیوں میں سے تھا۔ پھر اس نے بغاوت کی اور اپنے ماتحتوں کو اللہ تعالی ربوبیت کی بجائے اپنی ربوبیت اور عبادت کی دعوت دینے لگا جس پر اللہ تعالی نے اس مسخ کر کے ابلیس ملعون بنا دیا اور جو نعمتیں اور سرداری اس کو دی تھی وہ واپس لے لی اور آسمان سے زمین پر پھینک دیا، اور پھر اس کا اور اس کے ماننے والوں کا ٹھکانا ہمیشہ کیلئے دوزخ کو ٹھہرا دیا، اللہ کی پناہ دوزخ سے اور اس کی آگ سے اور اللہ کی پناہ ہے نعمت کے بڑھ جانے کے بعد کم ہو جانے سے  یا ختم ہو جانے سے۔اب نظر ڈالتے ہیں کہ اس سلطنت کیا تھی اور کیا تبدیلیاں آئیں؟ اور زوال کے اسباب کیا تھے؟

حضرت ابن عباسؓ و ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ابلیس  ملعون آسمان والوں پر حکمران تھا اور فرشتوں کے قبائل میں سے ایک قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس قبیلے کا نام جن تھا اور ان کو جن ااس لیئے کہا جاتا تھا کہ یہ جنت کے خزانچی تھے (جبکہ زیادہ مشہور بات یہ ہے کہ ان کو جن اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ عام نظروں سے اوجھل رہتے ہیں) اور ابلیس کو سرداری کے ساتھ ساتھ خزانچی کا عہدہ بھی دیا گیا تھا پھر ابلیس ملعون نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی تو اللہ تعالی نے اسے مسخ کر کے شیطان مردود بنا دیا۔

وَمَنْ یَّقُلْ مِنْھُم اِنِّی اِلٰہٌ مِنْ دُونِہِ فذٰلِکَ نَجْزِیہِ جَھَنَّمَ کَذٰالِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ 

ترجمہ:   اگر ان میں کوئی بالفرض یہ کہے کہ اللہ کے علاوہ میں بھی معبود ہوں تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے ایسے ظالموں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔

حضرت قتادہؓ سے اس آیت کے ضمن میں منقول ہے کہ یہ آیت ابلیس مردود کے بارے میں ہے جب اس نے گستاخی کرتے وہ کہا جووہ نہیں کہ سکتا تھا جس کے بعد وہ مردود ہوا

 ہم بیان کر رہے ہیں ابلیس ملعون کا قصہ : اور وہ واقعات جو اس کی حکومت کےدوران پیش آئے

حضرت ابن عباسؓ کے زریعے سے منقول ہے کہ ابلیس فرشتوں کی ایک جماعت سے تھا جن کا نام جن تھا اور یہ قبیلہ نارالسموم (بھڑکتی آگ یا شعلے ) سے پیدا کیا گیا تھا اور جنت میں اہم عہدے پر تھا اور فرشتوں کونور (روشنی سے پیدا کیا گیا تھا)  اور انسان کو مٹی سے بنایا گیا۔ سب سے پہلے دنیا میں جو قوم رہتی تھی وہ جنوں کے بعض قبائل تھے جنہوں میں زمین میں فساد برپا کیا قتل وغارت گری کی اور خون بہایا تو اللہ تعالی نے ابلیس کو جنوں ہی کا ایک لشکر دے کر بھیجا مقابلہ کرنے کیلئے۔ چنانچہ ابلیس  ملعون نے اس لشکر کے ساتھ مل کر ان کو مار بھگایا اور ان کو سمندری جزائر اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر دھکیل دیا،  یہ کارنامہ انجام دینے کے بعد ابلیس  ملعون تکبر میں آ گیا اور کہا میں نے وہ کام کر دیا ہے جو پہلے کوئی اور نہ کر سکا۔ پس اللہ تعالی اس کے اس ارادے وتکبر سے باخبر ہوا جبکہ فرشتے بے خبر رہے

 حضرت ابن عباسؓ و ابن مسعودؓ دونوں سے مروی ہے کہ جب اللہ تعالی اپنی ابتدائی مخلوق کو پیدا کر کے فارغ ہوا تو اللہ تعالی نے ابلیس کو آسمان ودنیا کا حکمران بنا دیا (جبکہ اس کا تعلق فرشتوں ہی کے ایک قبیلے تھا جن کو جِن کہا جاتا ہے جنت کا خزانچی ہو نے کی وجہ سے) اس سے ابلیس تکبر میں آگیا اور کہا کہ اللہ تعالی نے مجھے یہ ساری چیزیں اس لئےدی ہیں کہ میں فرشتوں سے بہتر ہوں اس پر اللہ تعالی نے فرمایا

 اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً  

ترجمہ:اور اس وقت کا حال سنو جب اللہ تعالی نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔

ابن عباسؓ سے ایک اور رویت منقول ہے کہ اللہ تعالی نے ایک مخلوق پیدا فرمائی او اس کہا کہ آدم کو سجدہ کرو انہوں نے انکار کر دیا تو اللہ تعالی نے ان پر آگ بھیجی جس سے وہ جل کر راکھ ہو گئے ،پھر ایک اور مخلوق پیدا کی اور فرمایا

اِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِینٍ

ترجمہ: میں مٹی سے ایک (آدم ) انسان پیدا کرنے والا ہوں۔

پس تم آدم کو سجدہ کرو انہوں نے بھی انکار کردیا ان پر بھی اللہ تعالی نے آگ کو بھیجا اور جلا کر راکھ بنا دیا، پھر اللہ تعالی ان ملائکہ فرشتوں کو پیدا کیا اور کہا آدم کو سجدہ کرو انہوں نے کہا جی بالکل کریں گے اور ابلیس اس موقع پر منکرین سجدہ میں سے تھا، اور بقول بعض کے ابلیس ان جنوں میں سے تھا جو زمین پر رہتے تھے اور فرشتوں نے ان کو فساد فی الارض کی وجہ سے مار بھگایا اور زمین کے اطراف وغیرہ میں پھینک دیا اور جنوں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے جن میں ابلیس بھی شامل تھا۔

ابلیس ملعون کا قصہ  : اس  میں زیادہ بہتر بات اور رائے 

یہ ہے کہ اس بارے میں وہی بات کی جائے جوقرآن پاک اس آیت میں بیان کی گئی ہے

وَاِذ ْقُلْنَا لِلمَلٰئِکَۃِ اسْجَدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا اِلَّا اِبْلِیسَ کَان،َ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہِ اَفَتَتَّخِذُونَہُ وَذُرِّیَّتَہُ اَولِیَاءَ مِنْ دُونِی وَھُم لَکُم عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّالِمِینَ بَدَلًا

ترجمہ: اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدم کے سامنے سجدہ کرو چنانچہ سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ جنات میں سے تھا چنانچہ اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی۔ کیا پھر بھی تم میرے بجائے اسے اور اکی ذریت کو اپنا رکھوالا بناتے ہو؟ حالانکہ وہ سب تمھارے دشمن ہیں اللہ تعالی کا کتنا بُرا متبادل ہے جو ظالموں کو ملا ہے۔

شیطان کو سجدے سے انکار کرنے کا کوئی حق نہیں تھا اگرچہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے اور آگ کے مزاج میں غالب آنا ہے لیکن محنت کرکے اس غالبیت والے مزاج کو تبدیل کیا جا سکتا ہے اور کرنا بھی چاہیئے جیسا کی انسان میں معصومیت کا مادہ ہے لیکن اس مادے کو مغلوب رکھنے کا پابند انسان ہے۔

یہاں اگرچہ سجدے کا حکم براہ راست فرشتوں کو دیا گیا ہے لیکن ابلیس اس میں شامل تھا اور ہے جیسا کہ اس نے خود بھی انکار کرتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ مجھے تو حکم ہی نہیں دیا گیا بلکہ دوسری دلیل دی جو سراسر غلط ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ابلیس کا تعلق جن قبیلے سے تھا اور وہ فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا۔

واللہ اعلم وعلمہ اکمل  

Leave a Comment