آنحضرتﷺ کا معاملہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کے مزاج و صلاحیت کو مد نظر رکھ کر ہوتا تھا
حصہ دوم
جی ہاں جب آپ اپنے سامنے والے کا مزاج یا طبیعت پہچان لیتے ہیں کہ وہ کیا پسند کرتا ہے اور کیا ناپسند کرتا ہے اب اگر تو اس کے دل کواپنا اسیر قیدی یا دیوانہ بنانا چاہتا ہے تواس کے ساتھ معاملہ کرتے وقت اس کے مزاج کا خیال رکھ تاکہ وہ تیرا غلام بن جائے
اور یہ بات بلا دلیل نہیں ہے بلکہ اگر سیرت میں اس پہلو کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ ہر شخص کے ساتھ اس کے مزاج کی رعایت رکھتے ہوئے معاملہ فرماتے تھے اور اپنی ازواج مطہرات میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کے مزاج کی رعایت رکھتے ہوئے معاملہ فرماتے تھے۔ چنانچہ ہربیوی کے ساتھ وہی سلوک کرتے جو اس کو اچھا لگتا تھا۔
چنانچہ حضرت عائشہؓ کی شخصیت میں وسعت و کشادگی تھی کیونکہ اماں عائشہؓ کی عمر کم تھی تو آنحضرتﷺ امی عائشہؓ کے ساتھ مزاح کرتے تھے اور دل داری کرتے تھے اور نرمی و شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے
آنحضرتﷺ کا معاملہ: سفر میں پیش آنے والا قصہ
ایک بار اماں عائشہؓ آنحضرتﷺ کے ساتھ سفر میں تھیں واپسی پر مدینہ طیبہ کے قریب ہوئے تو آنحضرتﷺ نے اصحاب سے فرمایا کہ تم آگے چلتے رہو چنانچہ لوگ چلتے ہوئے آگے بڑھ گئے اب آنحضرتﷺ امی عائشہؓ کے ساتھ اکیلے رہ گئے ادھر امی عائشہؓ اس وقت تک کم عمر اور ہلکی پھلکی جسامت والی تھیں۔ آنحضرتﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا عائشہ آؤ دوڑ لگائیں اور مقابلہ کریں چنانچہ مقابلہ شروع ہوا تو امی عائشہؓ تیز دوڑی اور تیز دوڑتے ہوئے آنحضرتﷺ سے آگے نکل گئیں۔
اس کے کچھ عرصہ بعد جب امی عائشہؓ کا جسم بھاری ہو گیا اور گوشت چڑھ گیا پھر سفر میں آنحضرتﷺ کے ساتھ نکلی تو آنحضرتﷺ نے لوگوں سے فرمایا تم آگے بڑھ جاؤ ، لوگ آگے بڑھ گئے تو آنحضرتﷺ نے فرمایا آؤ عائشہ دوڑ لگائیں پھر مقابلہ ہوا تو اس بار آنحضرتﷺ جیت گئے اور آگے نکل گئے تو فرمایا عائشہ یہ پچھلی باری کا بدلہ ہو گیا اور اماں خدیجہؓ بڑی عمر کی تھیں تو ان کے ساتھ آنحضرتﷺ کا سلوک اور تھا۔
بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر دیکھا جائے تو آنحضرتﷺ کا اپنے اصحاب کے ساتھ سلوک بھی مختلف ہوتا تھا سب کے ساتھ ایک جیسا نہیں تھا چنانچہ آنحضرتﷺ حضرت ابوہریرہؓ سے وہ امید نہ رکھتے تھے جو حضرت خالد بن ولید سے رکھتے تھے یا اس کے برعکس حضرت خالد بن ولید سے جو امید یا برتاؤ ہوتا وہ حضرت ابوہریرہؓ کے ساتھ نہیں ہوتا تھااور حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ جو معاملہ ہوتا تھا وہ طلحہؓ کے ساتھ نہیں ہوتا تھااور آنحضرتﷺ حضرت عمرؓ کے ساتھ بعض کچھ ایسے خاص معاملات کرتے تھے اور ایسی ذمہ داری ان کی طرف منسوب کر دیتے تھے جو کسی اور کی طرف نہیں کی جا سکتی تھی
آنحضرتﷺ کا معاملہ: جنگ بدر میں نکلنے والے بعض قریش کے متعلق آنحضرتﷺ کا فرمان
تو دیکھیئے جب آنحضرت ﷺ غزوۃ بدر کیلئے اپنے اصحاب کے ساتھ باہر نکلے ،باہر نکل کر آپﷺ نے سنا کہ قریش مقابلے کیلئے آ رہے ہیں تو آپﷺ پہچان گئے کہ قریش کے بعض لوگ مجبوری میں لشکر کے ساتھ آ رہے ہیں ان کا مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔اس موقع پر آنحضرتﷺ اپنے اصحاب میں کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ بنو ہاشم اور قریش کے کچھ لوگ صرف مجبوری کی وجہ سے ساتھ آ رہے ہیں ورنہ ان کا مسلمانوں کے ساتھ جنگ کا کوئی ارادہ نہیں ہے لہذا تم میں سے جس کا بھی کسی ہاشمی یا قریشی سے سامنا ہو جائے تو وہ اس کو قتل نہ کرے اور خاص کر جناب محترم چچا جان عباسؓ کو کوئی بھی ہاتھ نہ لگائے اور نہ ہی قتل کرے کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ وہ مجبوری میں ان کے ساتھ ہیں
بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عباسؓ اس وقت مسلمان ہو چکے تھے لیکن ایمان چھپایا ہوا تھا اور( وہ اہل مکہ کی خبریں آنحضرتﷺ کے پاس پہنچایا کرتے تھے ) اس لئے آنحضرتﷺ کو اچھا نہیں لگا کہ ان کو کوئی قتل کرے اور نہ ان کا راز فاش کرنا اچھا لگا کہ لوگوں کو بتا دیتے کہ عباسؓ تو مسلمان ہے
اور یہ پہلا معرکہ تھا جو مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ہونے جارہا تھا اور اس معرکہ میں مسلمانوں پر عجیب حال آیا ہوا تھا کہ اپنے ہی رشتہ داروں کے ساتھ جنگ ہونے جا رہی تھی کہ اپنے بھائیوں اور کزنوں اور دیگر گہرے رشتہ داروں کے ساتھ لڑنا پڑ رہا تھا لہذا مسلمان ہچکچا رہے تھے کہ عتبہ بن ربیعہ کفار قریش کے لشکر میں تھا اور سردار کی حیثیت رکھتا تھا اور ان کا بیٹا ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعۃ مسلمانوں کے لشکر میں تھا اور سگے باپ سے لڑنے جا رہا ہے اور ادھر حال یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے رشتہ داروں کو قتل کرنے سے منع کر دیا تھا تو ابوحذیفہؓ سے صبر نہ ہو سکا ور کہ دیا کہ ہم اپنے والد بیٹے اور بھائی کو تو قتل کریں لیکن عباسؓ کو چھوڑ دیں اللہ کی قسم اگر میرا سامنا عباسؓ سے ہو گیا تو میں تلوار سے اس کو گوشت کی گٹھڑی میں تبدیل کر دوں گا ، ابوحذیفہؓ کی یہ بات آنحضرتﷺ کے پاس پہنچ گئی آپﷺ نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو تقریبا تین سو کے قریب جوان شاہ سوار آپﷺ کے ارد گرد موجود تھے لیکن آپﷺ حضرت عمرﷺ کی طرف متوجہ ہوئے(کسی اور کی طرف متوجہ نہیں ہوئے)اور فرمایا
یَاعمَرُ أَ یُضرَبُ وَجہُ عَمِّ رَسُولِ اللہ بِالسَّیفِ؟
کہ اے عمر کیا رسول اللہ کے چچا کو بھی تلوار سے مارا جائے گا؟
نوٹ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ رسول اللہﷺ نے مجھے ابوحفص کی کنیت کے ساتھ پکارا
حضرت عمرؓ تو پہلے ہی سے آنحضرتﷺ کے حکم کے منتظر تھے کہ یہ جنگ کا موقع ہے اور جنگ میں اگر سپہ سالار کی بات مکمل طرح سے تسلیم نہ کی جائے توجنگ میں نقصان کا اندیشہ ہے اس لئےحضرت عمرؓ نے فوری حل پیش کرتے ہوئے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ مجھے اجازت دیجئے میں اس (ابوحذیفہ) کی گردن اڑا دیتا ہوں مگر رسول اللہﷺ نے اجازت نہیں دی اور اشارۃً یہ بتا دیا کہ اتنی تنبیہ کافی ہے
اس واقعے کے بعد حضرت ابوحذیفہؓ کو یہ غم لگ گیا کہ اس خطاء کی تلافی کیسے ہو گی چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کی تلافی شہادت کے علاوہ کوئی چیز نہیں کر سکتی ۔ابوحذیفہؓ کہتے تھے کہ میں اس دن میں کہے ہوئے الفاظ کے شر سے نہیں بچ سکتا اور کوئی عمل مجھے اس کا کفارہ بنتا نظر نہیں آرہا سوائے شہادت کے اسی غم اور سوچ میں رہے حتی کہ جنگ یمامہ میں شہید ہو گئے
یہ عمرؓ ہی تھے جو اس اہم معاملے کو سمجھ سکتے تھے کیونکہ یہ جنگ کا مسئلہ تھا کوئی صدقات جمع کرنے یا آپس کے جھگڑے کو سلجھانے کا یا ان پڑھ کو تعلیم دینے کا مسئلہ نہیں تھا لہذا یہاں ایک ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو انتہائی سمجھ دار اور با رعب ہو اسی وجہ سے آنحضرتﷺ نے حضرت عمرؓ سے اس بات کا تذکرہ کیا اور مشورہ کیا اور یہ انتہائی اہم بات کہی کہ (کیا رسول اللہﷺ کے چچا کے چہرے کو بھی تلوار سے مارا جائے گا؟ )
جاری ہے
Leave a Comment