Islam

فساد کا مطلب ، خشکی اور تری میں فساد کا مطلب

فساد کا مطلب

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے۔

 ظَھَرَ الفَسَادُ فِی البَرِّ وَالبَحْرِ بِمَا کَسَبَتُ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیقَھُم بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّھُم یَرْجِعُونَ

 ترجمہ: لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے جو کمائی کی اسی کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا تاکہ انھوں نے جو کام کیے ہیں اللہ تعالی ان میں سے کچھ  کا مزہ انہیں چکھائے شاید وہ باز آ جائیں۔

رئیس المفسرین حضرت ابن عباس ؓ                    اور حضرت عکرمہ ؒ                              اور حضرت ضحاکؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں بَرّ یعنی خشکی سے جنگل بیابان اور وسیع و عریض کھلے میدان مراد ہیں ۔۔اور بحر سے شہر اور بستیاں مراد ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ اور حضرت عکرمہؒ سے ایک روایت اور بھی ہے کہ بحر سے وہ شہر اور بستیاں مراد ہیں جو سمندر کے کنارے پر واقع ہوں۔اور دیگر حضرات کہتے ہیں کہ بَرّ سے زمین مراد ہے اور بحر سے سمندر مراد ہے۔

حضرت زید ابن رفیع ؒ کہتے ہیں کہ ظہر الفساد میں فساد کا مطلب ہے زمین پر بارش کا رک جانا جس کا نتیجہ قحط سالی کی صورت میں نکلتا ہے اور سمندرمیں اگر بارش نہ برسے تو اس میں موجود جانور ہلاک ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

 ہم بیان کر رہے کہ فساد کا مطلب کیا ہے؟

اور حضرت امام مجاہدؒ سے اس کی تفسیر میں مروی ہے کہ فساد فی الارض سے ابن آدم علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کا آپس کے قتل و غارت میں مبتلا ہو جانا  مراد ہے  اور فساد فی البحر سے سمندر میں تجارتی یا پرائیویٹ مقاصد کیلئے چلنے والی کشتیوں اور جہازوں کو زبردستی چھین لینا اور قبضہ کر لینا مراد ہے۔

اور حضرت امام ابو العالیہ ؒ کہتے ہیں کی جس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی اس نے زمین میں فساد پھیلایا کیونکہ زمین و آسمان کا ٹھیک رہنا درست رہنا اطاعت خداوندی کے ساتھ جڑا ہوا ہے اسی مضمون پر مشتمل ہے وہ روایت جو ابوداؤد شریف میں ہے۔

 لَحَدٌّ یُقَامُ فِی الاَرْضِ اَحَبُّ اِلٰی اَھْلِھَا مِنْ اَنْ یُمْطَرُوا اَرْبَعِینَ صَبَاحًا۔

 ترجمہ:           زمین میں گناہ کبیرہ سرزد ہونے پر اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدود میں سے کسی حد کو نافذ کر دینا یہ زمین والوں کیلئے چالیس دن کی نفع بخش بارش سے بہتر ہے۔

یعنی چالیس دن کی بارش سے زمین کی سیرابی و زرخیزی میں  جواضافہ ہوتا ہے اگر ایک حد نافذ کر دی جائے تو زمین اور زمین پر رہنے والوں کواس کا فائدہ  زیادہ ہو گا۔

اور وجہ اس کی یہ ہے کہ جب حدود نافذ ہوتی ہیں تو سارے لوگ یا زیادہ تر لوگ معصیت ربانی کے ارتکاب سے رک جاتے ہیں اور جب نافرمانی یا معاصی کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو یہ سبب بنتا ہے آسمان و زمین کی برکات کے مٹنے کا اور ختم ہونے کا۔

یہی وجہ ہے کہ جب آخر زمانے میں حضرت عیسٰی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کا نزول ہو گا تو وہ اس شریعت مطہرہ کو نافذ کریں گے چنانچہ وہ خنزیر کو قتل کرکے ختم کر نے کا حکم دیں گے اور صلیب کو توڑنے کا حکم دیں گے اور جزیہ کو سرے سے ختم ہی کر ڈالیں گے کیونکہ جزیہ کافر سے لیا جاتا ہے اور اس زمانے میں کوئی بھی کافر نہیں ہوگا بلکہ سب کے سب مسلمان ہو جائیں گے اور جو قبول اسلام سے انکار کرے گا اسے قتل کر دیا جائے گا۔

چنانچہ حضرت عیسٰی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام  صرف اسلام یا تلوار کو قبول کریں گے تیسری کوئی بھی شکل اس زمانے میں نہیں ہو گی۔ پس جب حضرت عیسٰی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کے دور میں اللہ تعالی اپنی قدرت سے دجال کواور اس کے متبعین کوہلاک کر دیں گے اور یاجوج ماجوج بھی ختم ہو جائے گی گویا کہ دنیا سے شر کا خاتمہ ہو جائے گا تو اس وقت اللہ تعالی کی طرف سے زمین کو حکم ہو گا کہ اپنی برکات کو باہر نکال ۔ پھر جب زمین اپنی برکات کو نکالے گی تو اس وقت ایک انار اتنا بڑا ہوگا کہ اسےلوگوں کی ایک بڑی جماعت مل کر کھائے گی اور وہ سب کیلئے کافی ہو جائے گا اور مزید یہ کہ اس انار کے چھلکے میں یہ لوگ سایہ حاصل کریں گے یعنی انار اتنا بڑا ہوگا کہ اس کے چھلکے کے نیچے ایک جماعت سایہ حاصل کرے گی۔ اور دودھ دینے والی ایک اونٹنی کا دودھ ایک جماعت کی بھوک ختم کر دے گا۔ اور یہ سب کچھ اس زمانے میں حضرت عیسٰی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت مطہرہ کو سو فیصد  نافذ کرنے کی برکت سے ہو گا۔

پس نتیجہ یہ نکلا کہ جب بھی عدل وانصاف قائم کیا جائے گا دنیا میں خیروبرکات بڑھ جائیں گی۔

بخاری شریف کی صحیح حدیث سے ثابت ہے

اِنَّ الفَاجِرَ اِذَا مَاتَ تَسْتَرِیحُ العِبَادُ وَالبِلَادُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ

ترجمہ؛             فاجر فاسق انسان جب مرتا ہے تو زمین پر رہنے والے لوگ، آبادیاں، درخت چرند پرند اور  جانور وغیرہ سب راحت پا جاتے ہیں۔

 کیوں؟؟ اس لئے کہ اس کے گناہوں کی نحوست سے جو بلائیں مصیبتیں نازل ہوا کرتی تھیں ان سے نجات مل جائے گی۔ اسی لئیے حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ان کو روایت پہنچی ہے کہ ابن زیاد کے زمانے میں میں کسی آدمی کو گندم کے دانوں سے بھری تھیلی ملی جب اس کو کھولا تو دیکھا کہ گندم کے دانے کھجور کی گٹھلی کے برابر ہیں اور اس تھیلی پر لکھا ہوا تھا کہ یہ اس زمانے میں کاشت کئے جاتے تھے جب عدل کا دور دورہ تھا۔اور بعض نے کہا یہاں فساد فی الارض سے شرک مراد ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔

اس سے معلوم کہ فساد کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کوئی حسی نقصان کیا جائے بلکہ ایک لحاظ سے نافرمانی بھی بہت بڑا فساد ہے

اب اس آیت کا دوسرا حصہ

لِیُذِیقَھُم بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّھُم یَرْجِعُونَ

ترجمہ: تاکہ انھوں نے جو کام کئے ہیں اللہ تعالی ان میں سے کچھ کا مزہ انھیں چکھائے شاید وہ باز آ جائیں۔

مزہ چکھائے؟؟ کیا مطلب؟؟وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ان کو جانی مالی نقصان میں مبتلا کرتا ہے پیداوار کم ہو جاتی ہے پھل کم ہو جاتے ہیں اور مقصود اس سے لوگوں کی آزمائش ہوتی ہے تاکہ وہ ڈر کر نافرمانی اور معصیت سے باز آ جائیں جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد باری ہے

وَبَلَونَاھُم بِالحَسَنَاتِ وَالسَیِّئَاتِ لَعَلَّھُم یَرْجِعُونَ

جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں ہم نے لوگوں کو فراوانی اور تنگی دے کر آزمایا تاکہ وہ نافرمانی سے باز آ جائیں۔

Leave a Comment