دستور پاکستان کو دستور اسلامی بنانے میں علماء کا کردار
پاکستان کے بن جانے اور وجود میں آ جانے کے بعد سب سے اہم کام اس کے دستور کی ترتیب وتشکیل اور اس کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا مرحلہ تھا۔ اس کیلئے حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ نے جس جدوجہد کا آغاز کیا تھا اس کا سب سے اہم کردار حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ کے حصے میں آیا، اور پاکستان جس مقصد کیلئے بنایا گیا تھا اس کی تکمیل کیلئے مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے ان تھک محنت اور کوشش کی اور پاکستان کی دستور سازی میں بہت اہم کردار ادا کیا اس سلسلے میں حضرت تھانویؒ خود لکھتے ہیں کہ پاکستان بن جانے کے فورا بعد اس کوعوام کی امنگوں کے مطابق اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا آغاز کر دیا گیا تھا، اور لیاقت علی خانؒ کے طرف سے حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے اپنے ساتھیوں کے تعاون سے اسلامی دستور کا ایک خاکہ تیار کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کیلئے مجھے ہندوستان روانہ کیا تاکہ میں مولانا مناظراحسن گیلانیؒ، مفتی محمد شفیعؒ، علامہ سید سلیمان ندویؒ اور ڈاکٹر حمیداللہ کو پاکستان لے کر آؤں۔ چنانچہ مولانا مناظر احسنؒ، مفتی محمدشفیعؒ اور ڈاکٹر حمیداللہؒ تو فورا پاکستان پہنچے اور تین ماہ میں دن رات لگا تار کام کر کے ایک خاکہ تیار کر لیا گیا۔ ادھر انہی دنوں میں مرکزی اسمبلی میں قراداد مقاصد پاس کرائی گئی جس کو علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے دن رات محنت کر کے تیار کیا تھا، اور اس قرارداد مقاصد کی مخالفت صرف اقلیتی فرقوں اور سوشلسٹ لوگوں نے کی تھی، اور مشرقی پاکستان کا ایک ممبر بھی ایسا نہ تھا جس نے اس کی مخالفت کی ہو۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی اس موقع پر دوسری کامیابی یہ ملی کہ بورڈ آف تعلیمات اسلامیہ منظور کیا گیا اور اس بورڈ کی تشکیل اور ارکان کا انتخاب حضرت شیخ الاسلام مولانا عثمانیؒ کی مرضی سے ہوا۔ اس بورڈ کی ذمہ داری یہ طے پائی کہ ملک میں کوئی قانون قرآن وسنت سے ہٹ کر بننے نہ پائے بلکہ ہر نیا بننے والا قانون پہلے قرآن وسنت کے اصول پر پرکھا جائے گا بورڈ اس پر اپنی رائے دے گا پھر وہ آئین کا حصہ بنے گا، یہ قانون سازی کا سلسلہ جاری تھا کہ حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کا انتقال پر ملال ہو گیا، اس موقع پر اسلامی قوانین کیلئے مرحوم لیاقت علی خان کی پریشانی اور اضطراب کھل کر سامنے آ گیا اور حضرت شیخ الاسلامؒ کے انتقال سے بہت پریشان تھے۔ چنانچہ انہوں نے سید سلیمان علی ندویؒ کو بلانے کا فیصلہ کیا جو کہ ابھی تک ہندوستان میں تھے اس مقصد کیلئے بھی مجھے (مولانا احتشام الحق تھانویؒ) ہی بھیجا۔ میں نے اس وقت کہا کہ ہو سکتا ہے ہندوستان مجھے ویزہ نہ دے تو لیاقت علی مرحوم نے کہا کہ ہم آپ کو سفارتی ویزہ پر بھیج دیں گے لیکن میں نے اس طرح جانے سے انکار کیا اور بتایا کہ ندوی صاحب اس وقت جدہ میں موجود ہیں اگر مجھے جلدی پاسپورٹ اور ویزہ بنا دیا جائے تو میں جدہ سے حضرت ندویؒ کو لے آؤں گا، چنانچہ لیاقت علی خان نے رات کو ہی متعلقہ محکمے کو حکم دیا اور دو گھنٹے میں سارے کاغذات تیار ہو کر میرے پاس پہنچ گئے مگر میرے جدہ جانے سے پہلے ہی اطلاع ملی کہ حضرت ندویؒ بمبئی پہنچ گئے ہیں، پھر مجھے ہندوستان بھیجا گیا اور میں نے حضرت ندویؒ کے سامنے پاکستان آنے کی دعوت پیش کی جو انہوں نے قبول کر لی، اس کے بعد جب پہلا آئینی مسودہ سامنے آیا تو بالکل غیر اسلامی تھا اس پر ملک بھر کے مختلف مکاتب فکر کے ۳۱ ممتاز اور جید علماء کرام کراچی میں جمع ہوئے اور بفضلہ تعالی میری ہی دعوت پر یہ حضرات جمع ہوئے اور ان علماء نے ۲۲ نکات مرتب کرکے حکومت کو دئیے کہ پاکستان کا دستور ان شقوں کی روشنی میں بنایا جائے۔ یہ اجتماع پاکستان کی تاریخ کا ایک منفرد اور اہم باب تھا اور یہ میری دعوت پر منعقد ہوا تھا اور اس اعتراض کے جواب میں منعقد ہوا تھا کہ پاکستان میں کون سا اسلام رائج کیا جائے۔ اس کے بعد ملک بھر میں اسلام کے موضوع پر کانفرنسیں منعقد کی گئیں جس کے نتیجے میں حکومت نے نیا دستوری مسودہ جاری کیا جس میں کافی حد تک اسلام کے بنیادی اصول شامل تھے لیکن کچھ باتیں ابھی بھی قابل ترمیم تھیں۔ نتیجتًا دوبارہ پھر علماء کرام کراچی میں جمع ہوئے اورایک ایک آرٹیکل پر اپنی سفارشات مرتب کر کے حکومت کو بھجوائیں۔ اس کے نتیجے میں ۱۹۵۶ کا آئین سامنے آیا جس میں صراحتًا کہ دیا گیا تھا کہ پاکستان میں اسلام کا نظام معیشت اور مالیاتی تصور نافذ ہوگا اور اس کو نافذ کرنے کیلئے پانچ سال کی مہلت مانگی گئی تھی، لیکن ہماری بد قسمتی کہ اس پر عمل نہ ہو سکا اور ۱۹۵۸ میں اسی آئین سے وفا داری کا حلف اٹھانے والے ایوب خان نے اسے منسوخ کر دیا۔
فَاِلَی اللہِ المُشْتَکٰی
علماء کرام کے بائیس نکات
اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو مولانا احتشام الحق تھانویؒ کی زندگی کے پہلو بڑے ہی تابناک ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ میں جو چیز مولانا کو ناقابل فراموش بناتی ہے وہ ان کی سربراہی میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کے مرتب کئے ہوئے وہ ۲۲ نکات ہیں یہ ایک کارنامہ ان کی بقیہ جدوجہد پر بھاری نظر آتا ہے اور دنیا و آخرت میں سرخروئی کیلئے شاید کافی ہو جائے بلکہ یہ کارنامہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی تاریخ اسلامی میں سنہری الفاظ کے ساتھ لکھا جائے گاکیونکہ مغرب زدہ افراد کا ہمیشہ سے ہی یہ اعتراض رہا ہے کہ ملک میں کون سا اسلام نافذ کیا جائے جب کہ پاکستان میں مسلمان بہت سارے فرقوں میں تقسیم ہیں۔ اس بے ہودہ اعتراض کا حضرت نےایسا دنداں شکن اور مثبت جواب دیا کہ تاریخ بن گئی اور دن رات محنت کر کے مختلف مکاتب فکر علماء کا نمائندہ اجتماع کراچی میں منعقد کروایا اور تمام مکاتب فکر کے نامور ۳۱علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور سو فی صد اتفاق سے ۲۲ نکات کے ذریعہ سے اسلامی آئین اور قانون کے خطوط کیلئے اصول بنائے گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس اجتماع میں اسلام کی اجارہ دار کچھ سیاسی جماعتوں کےراہ نماؤں کی انا ایک بڑی رکاوٹ تھی جسے مولانا نے اپنی حسن تدبیر سے دور کیا اور ہمیشہ کیلئے ان مغرب زدہ لوگوں کا منہ بند کر دیا جو علماء کے اختلاف کو بنیاد بنا کر اسلامی دستور سے بھاگنے کی راہیں تلاش کر رہے تھے۔ یہ اجتماع ۲۱،۲۲،۲۳،۲۴جنوری ۱۹۵۱ کو کراچی میں منعقد ہوا اور اس میں مشرقی و مغربی پاکستان کے جید علماء نے شرکت کی ان میں سے چند حضرات اکابر کے نام یہ ہیں: علامہ سید سلیمان ندویؒ، مفتی محمد شفیعؒ، مفتی محمد حسنؒ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، مولانا احمد علی لا ہوریؒ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ، مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، مولانا شمس الحق افغانیؒ، مولانا خیر محمد جالندھریؒ، مولانا شمس الحق فرید پوریؒ اور مولانا محمد علی جالندھریؒ اور مفتی تقی عثمانی صاحب کے بقول حضرت احتشام الحق تھانویؒ دو قومی نظریہ کے زبردست حامی تھے اور کٹر پاکستانی تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے کبھی مصلحت یا رواداری سے کام نہیں لیا۔
Leave a Comment