بِرُّالوَالِدَینِ
والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا
بر کامعنی: بر کا لفظ عربی کے مادہ ب ر رسے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے صدق یعنی سچ۔
والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور نرمی و مہربانی والا معاملہ کرنا، اور ان کی ہر طرح سے رعایت و حفاظت کرنا، اور ان کے ساتھ برا سلوک بالکل نہ کرنا اور والدین کے دنیا سے جانے کے بعد ان کے دوستوں سے بھی اچھا سلوک کرنا ،اور بر کا لفظ صلہ رحمی کیلئے بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ اس ارشاد باری میں ہے
لَا یَنْھَاکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِینَ لَم یُقَاتِلُوکُم فِی الدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِن دِیَارِکُم اَنْ تَبَرُّوھُم
ترجمہ، اللہ تعالی تمھیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ان کے ساتھ تم کوئی نیکی کا کام کرویعنی ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔
برالوالدین کی اہمیت: علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنی عبادت اور اطاعت کے ساتھ بِرُّالوالدین کو جوڑا ہے یعنی قرآن پاک میں ایک جگہ اللہ تعالی نے جب اپنی عبادت اورتوحید کا حکم دیا تو بِرُّالوالدین کو اس کے ساتھ جوڑ کر ذکر کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی والدین کی شکر گزاری کو اپنی شکر گزاری کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے
وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوا اِلَّا اِیَّاہُ وَبِالْوَالدَینِ اِحْسَانًا
ترجمہ، اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
ہمارا موضوع ہے بِرُّالوَالِدَینِ
غور فرمائیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی کتنی اہمیت ہے اللہ تعالی کے ہاں کہ اپنی توحید کے ساتھ اس کو ذکر کیا ہے۔ اوردوسری جگہ فرمایا
اَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیکَ َاِلَیَّ المَصِیرُ
ترجمہ، (اللہ تعالی نے انسان کو تاکید کی ہے) کہ تم میرا شکر ادا کرو اور اپنے ماں باپ کا میرے پاس ہی تمھیں لوٹ کر آنا ہے۔
تو ہم بات کر رہے ہیں بِرُّالوَالِدَینِ کے بارے میں
دیکھیں یہاں حضرت لقمان علیہ الصلاۃ والسلام کی نصیحتوں کا ذکر ہو رہا تھا کہ وہ اپنی اولاد کو شرک سے بچنے کی تاکید کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف مشرکین (جوخود حضرت لقمان علیہ السلام کو ایک دانشور او دانا سمجھتے ہیں) جب ان کی اولاد نے تو حید کا راستہ اختیار کیا تو وہ انہیں دوبارہ شرک پر مجبور کر رہے تھے اب اولاد پریشان تھی کہ وہ ان والدین کے ساتھ کیا معاملہ کرے یہاں اللہ تعالی نے پہلے تو یہ بتایا کہ ہم نے ہی اولاد کو والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور خاص طور پر ماں کا حق بیان کیا ہے تاہم اللہ کا حق مقدم ہے کیونکہ اصل میں خالق تو وہی ہے ماں باپ تو محض وسیلہ بنے ہیں لہذا ماں باپ کا حق باری تعالی کی توحید کے اقرار کے بعد ہے، اسی لئیے یہاں پر اللہ تعالی نے اپنا شکر پہلے ذکر کیا ہے اور والدین کا شکر بعد میں ذکر کیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نےہمیں بتایا ہے کہ والدین کی فرماں برداری نماز جو کہ افضل الاعمال ہے کے بعد سب سے بڑا عمل ہے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا تقاضا ہے کہ زندگی میں کبھی بھی اپنی والدین کو برا بھلا نہ کہو اور نہ ہی نافرمانی کرکے ان کو تکلیف پہنچاؤ۔ والدین کی نافرمانی میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کے جائز مطالبوں اور ضروریات وحاجات میں ان کی نافرمانی کرنا اور خلاف ورزی کرنا جیسا کہ ان کی جائز حاجات میں موافقت کرنا فرماں برداری میں آتا ہے اسی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ والدین دونوں یا ایک اگر کوئی جائز حکم کرے تو اطاعت واجب ہے اگرچہ وہ حکم کسی ایسی چیز کے متعلق ہو جو مندوب کے (جواز کی آخری حد) کے زمرے میں آتی ہو۔
تو آپ بتائیں کیسی بات ہو رہی ہے بِرُّالوَالِدَینِ کے بارے میں
بعض فقہاء شافعیہ و مالکیہ کے ہاں دونوں کی اطاعت برابر ہے کسی کو دوسرے پر ترجیح نہیں ہے جبکہ بعض دیگر فقہاءکرام کہتے ہیں کہ ماں کی اطاعت کو ترجیح ہے والد کی اطاعت پر، اور کچھ حضرات نے اس کو راجح کہا ہے۔
والدین کی اطاعت و فرماں برداری کا دارومدار ان کے مسلمان ہونے پر بھی نہیں ہے بلکہ خدانخواستہ اگر والدین کافر بھی ہوں تو بھی ان کی اطاعت ضروری ہے بشرطیکہ وہ مسلمانوں کے ملک یعنی دارالاسلام میں رہتے ہوں، اگر اولاد کو کفر اختیار کرنے حکم دیں یا کسی اور حرام کے کرنے کا کہیں تو اطاعت جائز نہیں ہے اور والدین کی اطاعت میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر جہاد فرض عین نہ ہو تو ان کی اجازت کے بغیر جہاد پر نہ جائے۔
اسلام میں بِرُّالوَالِدَینِ کی خصوصی اہمیت ہے
والدین کی اطاعت میں یہ بھی ہے کہ ان کے دوستوں یاروں کا خیال رکھے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے، آنحضرت ﷺ اماں خدیجہؓ کی سہیلیوں کی طرف ہدیے بھیجا کرتے تھے تاکہ اماں خدیجہؓ کے ساتھ اچھا سلوک ہو اور ان کے ساتھ وفاء کا اظہار ہو حالانکہ اماں خدیجہؓ آنحضرت ﷺ کی بیوی تھیں جب بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ یہ حسن سلوک کیا ہے اللہ کے نبی نے تو والدین کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے۔
بِرُّالوَالِدَینِ بڑا اہم موضوع ہے
اللہ تعالی نے والدین کی اطاعت کا بیان کرتے ہوئے خاص طور پر بڑہاپے کی حالت کا ذکر کیا ہے کیونکہ اس وقت ان کا حال قوت سے ضعف کی طرف تبدیل ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی نے اس حال میں اطاعت و فرماں برداری کو اور زیادہ لازم کر دیا ہے کیونکہ اس وقت تقریبا وہ بڑہاپے اور بیماری کی وجہ سے ناتواں کمزور اور اک بوجھ سا بن جاتے ہیں لہذا ان کو اب اس طرح کی اطاعت ومحبت و پیار ونرمی و عاجزی اور برداشت کی ضرورت ہے جس طرح آپ کے بچپن میں انھوں نے آپ کیلئے اپنا سب کچھ لگایا اور آپ کا خیال رکھا تھا اور پالا تھا۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ مخاطب ہوتے ہوئے ادنی سی اکتاہٹ یا چہرے پر شکنیں اور بل نہ ہوں کیونکہ حق جل شانہ فرماتے ہیں
فَلَا تَقُلْ لَھُمَا اُفٍّ
ترجمہ، اپنے والدین کے سامنے اف تک نہ کہو۔
معلوم ہوا کے والدین کے سامنے اف کہنا اتنا ہی گھٹیا اور غلط ہے جتنا کفران نعمت کرنا اور اس میں والدین نے پالنے جو مشقتیں اٹھائی ہیں ان کا انکار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر وصیت ربانی کو مسترد کرنا بھی لازم آتا ہے۔
والدین کی اطاعت میں یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ نرم لہجے میں بات کریں اور اپنے آپ کو ان کے سامنے حقیر سمجھیں اور ان کی طرف تیز نظروں سے نہ دیکھیں۔
والدین کیلئے دعا کرنا بھی ان کے ساتھ حسن سلوک میں آتا ہے اور دعا کیلئے اس سے بہتر الفاظ نہیں ہیں جو قرآن پاک میں آئے ہیں۔
رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا
Leave a Comment