Islam

زمان نبوت اور تعمیرات ، ازواج مطہرات کے حجرے اور ان کا طرز

زمان نبوت اور تعمیرات

آپﷺ کے دور میں تعمیراتی سرگرمیاں

مسجد قبا کا سنگ بنیاد اور مسجد نبوی کی لمبائی چوڑائی اور مسجد نبوی میں ایک چبوترہ۔

مسجد قباء

ہجرت کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے چودہ دن تقریبا مدینہ منورہ سے کچھ فاصلے پر قبیلہ بنوعمر بن عوف  کے ہاں قیا فرمایا وہیں پر آپ ﷺ اس قبیلہ کی درخواست پر  مسجد قباء کی بنیاد رکھی تو بنیاد کا  پہلا پتھر قبلہ کی جانب رکھا اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے ایک پتھر رکھا پھر اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے بھی ایک پتھر رکھا جب یہ تینوں پتھر رکھ دیئے گئے تو اس کے بعد سب لوگوں نے مل کر تعمیر شروع کر دی۔

جب بھی مسجد کی بنیاد رکھی جاتی تھی تو آنحضرت ﷺ  قبلے کی تحقیق فرما کر قبلہ کی تعیین کرتے ،امام کی جگہ کا تعین کرتے کہ یہاں امام کھڑا ہوگا اور مسجد کی حد بندی بھی کرتے ۔بلکہ بسا اوقات مسجد کی حد بندی کیلئے تشریف بھی لے جایا کرتے تھے۔زمان نبوت اور تعمیرات

مسجد نبویﷺ کی تعمیر

جب آنحضرت ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو مسجد نبوی کو تعمیر کرنے کا ارادہ کیا اور زمین تلاش کی ،جس جگہ مسجد تعمیر کرنے کا پروگرام بنا وہ جگہ بنو نجار قبیلے کی ملکیت تھی اور وہاں پر باغات بھی تھے۔ حضور اکرم ﷺ نے ان کے پاس پیغام بھیجا کہ باغات کی قیمت لے لو ، ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم اس کی قیمت آپ سے نہیں لیں گے بلکہ اللہ تعالی سے اس کی قیمت لیں گے مطلب یہ کہ ہم باغات کے پیسے نہیں لیں گے ،پس وہاں پر لوگوں نے مسجد بنائی منظر کچھ اس طرح تھا کہ کھجور کے درختوں کی قطار مسجد کے قبلہ کی جانب رہی اور اس کے کنارے کنارے پتھر لگا دیئے ۔لوگوں نے جب ایک پتھر لگایا تو وہ رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے آنحضرت ﷺ بھی اس عمل میں صحابہ کرام ؓ کے ساتھ شریک ہو گئے (رجز پڑھنے سے جوش و جذبہ پیدا ہوتا ہے ) حضور اکرم ﷺ نے مسجد نبوی کی بنیاد اینٹ کے ساتھ رکھوائی اور اینٹ کے کناروں کو پتھر لگا کر مضبوط کیا اور مسجد کے ستون کھجور کے تنوں کے بنائے گئے اور چھت پر کھجور کی ٹہنیاں رکھی گئیں،اور مسجد کی چوڑائی قبلہ سے پچھلی دیوار تک تقریبا سو ہاتھ (یعنی پچاس گز) تھی پچاس گز کے ڈیڑھ سو فٹ بنتے ہی آج کے لحاظ سے اور اتنی لمبائی تھی یعنی سو ہاتھ (پچاس گز) مطلب ڈیڑھ سو فٹ اس لحاظ مسجد نبوی کی چوکور مربع شکل میں تھی اور اس کی لمبائی چوڑائی برابر تھی ،اور زمین کے اوپر تین ہاتھ تک کی چنائی اینٹوں کے ساتھ کی گئی۔زمان نبوت اور تعمیرات

اس طرح کی تھیں آپﷺ کے دور میں تعمیراتی سرگرمیاں

مسجد نبوی کو تین بار تعمیر کرنا

آنحضرت ﷺ نے مسجد نبوی کو تین مرتبہ مختلف طریقوں سے تعمیر فرمایا

 پہلی بار جس طرز پر بنایا اس کو سمیط کہتے ہیں

سَمِیط؟؟  

سمیط کہتے  ہیں تعمیر کرتے وقت ایک اینٹ کو دوسری کے سامنے رکھنا

 دوسری مرتبہ ضفرہ طرز پر تعمیر فرمائی

ضَفْرَہ؟

ضفرہ کا مطلب ہے تعمیر کرتے وقت دیوار کی چوڑائی ڈیڑھ اینٹ کے برابر رکھنا۔

 تیسری مرتبہ آنحضرت ﷺ نے انثی الذکر کے طرز پر تعمیر کیا

اُنْثٰی الذَّکَرِ؟؟اس کا مطلب ہے تعمیر کرتے وقت دو اینٹ چوڑائی میں رکھنا اور دو اینٹ لمبائی میں رکھنا۔زمان نبوت اور تعمیرات اس طرح تھیں

آنحضرت ﷺ کے رہائشی مکان کیسے تھے ؟؟ اور کیسا تھا ان کا طرز تعمیر؟

نبی اکرم ﷺ نے اپنے رہائشی مکانات کو مسجد نبوی کے ساتھ  ہی بنوایا نقشہ کچھ اس طرح تھا کہ چار دیواری اینٹوں سے بنوائی اور چھت پر کھجور کے درختوں کی ٹہنیاں ڈالی گئیں اور چھت کا شہتیر لوہے کا تھا اس کے اوپر مٹی کی ایک موٹی سی تہہ بنائی تاکہ مضبوط ہو جائے اور اس کے ساتھ اون کے ٹاٹ لگوا دیئے جن میں کئی دروازے و روشن دان رکھے گئے تاکہ ہوا اور روشنی کی آمدورفت رہے جس سے مکان کے اندر آنے اور جانے میں کافی سہولت میسر ہوتی تھی اور گھر میں کسی بھی چیز کو آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ کیا جا سکتا تھا اماں عائشہ ؓ کا مکان بالکل اس نقشے پر تھا البتہ حضرت فاطمہ ؓ کے مکان کا دروازہ قبلہ کی جانب کھلتا تھا ،اور حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ کے مکانوں کے درمیان ایک راستہ سا بنا ہوا تھا جس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ یہ دونوں ازواج اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہوئے بات چیت کر لیا کرتی تھیں ،حضرت حفصہ ؓ                                 کا گھر حضرت عمر ؓ کے گھر کی کھڑکی کے دائیں جانب حضرت عائشہ ؓ کے گھر کے جنوب کی طرف مشرقی جانب واقع تھا اور آنحضرت ﷺ کی باقی ازواج مطہرات کے گھر ان دو بیگمات کے گھروں کے بعد آگے کی جانب واقع تھے  اور حضرت فاطمہ ؓ کے گھر کی کھڑکی اپنے والد محترم آنحضرت ﷺ کے گھر کے قریب ترین تھی وہیں سے آنحضرت ﷺ ان کی خیر خبر لے لیا کرتے تھے ۔

آپﷺ کے دور میں تعمیراتی سرگرمیاں ضرورت کے اعتبار سے کافی تھیں

آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کے نو گھر تھے جن میں سے بعض کھجور کی ٹہنیوں اور مٹی کے پلاسٹر سے بنے ہوئے تھے اور چھت بھی کھجور کی ٹہنیوں سے بنی ہوئی تھی ۔اور بعض مکانات پتھروں سے بنے ہوئے تھے جو ایک دوسرے پر رکھ کر بنائے گئے تھے ان کی چھت بھی کھجور کی ٹہنیوں سے بنی ہوئی تھی ہر گھر میں ایک ہی کمرہ ہوتا تھا۔

اب غور کرنے کا مقام ہے کہ دیگر ضروریات مثلا بیت الخلاء کی جگہ، سال بھر کا راشن غلہ وغیرہ رکھنے کی جگہ،اور لوگوں سے میل ملاقات ملنے کی جگہ، اور آنحضرت ﷺ کی شب باشی جگہ بھی یقینا ہو گی ،اور ہتھیاروں کو رکھنے کی جگہ،گھر میں استعمال ہونے والے برتنوں کے رکھنے کی جگہ،اور جانور اونٹ خچر وغیرہ جو آنحضرت ﷺ کی ملکیت تھے انکو باندھنے کی جگہ ،اس کے علاوہ بیت المال میں آنے والے مال کو رکھنے کی جگہ ،مہمان خانہ ،قید خانہ ،شفا خانہ ،اور اصحاب صفہ کا چبوترہ وغیرہ کی جگہ ،غرضیکہ زندگی میں پیش آنے والی ہر ضرورت کیلئے جگہ مہیا کی گئی جس سے اس نومولود ریاست کی بنیاد کی مضبوطی اور وسعت کا اندازہ ہوتا ہے ،یہ وہ تمام ضروریات ہیں جو بنیادی ضروریات میں آتی ہیں ان کا انتظام و انصرام اپنی اپنی جگہ الگ الگ صحابہ کرام کی ذمہ داری و سپردگی میں مثالی طریقے سے جاری و ساری تھا ،آج بھی اگر ہم چاہیں تو اس مثالی نظام کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی تمام ضروریات کو بطریق احسن پورا کر سکتے ہیں۔

مسجد نبوی میں آنحضرت ﷺ کیلئے مخصوص چبوترہ

بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ کوئی اجنبی شخص آنحضرت ﷺ سے ملنے آتا اور آپ ﷺ صحابہ کرام کے بیچ میں تشریف فرما ہوتے تو اجنبی شخص پہچان نہیں پاتا تھا کہ آنحضرت ﷺ کون ہیں کہاں تشریف فرما ہیں لہذا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے ایک جانب ایک چبوترہ سا مٹی سے بنا دیا جس پر آنحضرت ﷺ تشریف فرما ہوتے اورصحابہ کرام ؓ آپ ﷺ کے گرد بیٹھتے تو آنے والا فورا پہچان جاتا تھا ،اس چبوترہ کی جگہ  کی نشان دہی مسجد نبوی میں اسطوانہ وفود کرتا ہے  جو مسجد نبوی کے ستونوں میں سے ایک ستون ہے۔

Leave a Comment