سعادت کیاہے (توبہ دوم) اور یہ کیسے حاصل کی جا سکتی ہے؟
حصہ پنجم
سعادت اور خوش بختی تین صفات کے پیدا ہونے سے حاصل ہوتی اول اللہ تعالی کی نعمتوں پہ شکریہ ادا کرنے کا معمول ہونا دوسری اللہ تعالی کی طرف سے بھیجے ہوئے حال اور مصائب پہ صبر کرنے کا معمول ہو اور تیسری بات ہے اگر شومئ قسمت سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو توبہ کرنے میں دیر نہ لگانا اسی تیسری بات پہ گزشتہ پوسٹ میں بات ہوئی تھی تو اسی کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ گنا ہ کے صدور کے بعد اتنی آہ زاری کے ساتھ توبہ اور اتنے نیک اعمال اس کے ازالے کیلئے کئے جائیں کہ وہ گناہ نیکی میں تبدیل ہو جائے اور اللہ کا دشمن یعنی شیطان پکار اٹھے کہ کاش میں اس کو اس گناہ میں مبتلا نہ کرتا تو بہتر ہوتا کہ اس نے توبہ کرکے وہ درجات حاصل کرلئے جو اس کو حاصل نہیں تھے ۔
:سعادت کیاہے (توبہ دوم)
اس بات کو بعض عارفین نے یوں بیان کیا ہے کہ اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ گناہ کرتے ہیں اور بدلے میں جنت حاصل کرتے ہیں حالانکہ گناہ کی سزا تو یہ تھی کہ دوزخ میں جائے پر یہ کیا ہوا؟کیسے ہوا؟لوگوں کے پوچھنے پہ اس اللہ والے نے کہا کہ گناہ سرزد ہونے کے بعد یہ مسلسل اللہ تعالی سے ڈرتا رہا اور اس کے خوف میں مبتلا رہا کانپتا رہا روتا رہا ندامت کا اظہار کرتا رہا اور اللہ تعالی سے حیا کرتا رہا اس کے سامنے سر جھکاتا رہا اور ٹوٹا ہوا دل لے کر پھرتا رہا بالآخر اس کے حق میں نتیجہ یہ نکلا کہ یہ گناہ بہت ساری طاعات سے زیادہ نفع مند ثابت ہوا اور جنت میں داخلے کا سبب بن گیا ۔
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض بندے نیک کام کرتے ہیں اور بدلے میں دوزخ ملتی ہے جانتے ہو کیوں ؟اور کیسے ؟ لوگوں کے پوچھنے پہ اس نے کہا وہ اس طرح کہ نیکی کرنے کے بعد اپنے رب پہ ہی احسان جتلانا شروع ہو جاتا ہے اور ہروقت اس نیکی کے تکبر میں رہتا ہے اور اتراتا رہتا ہے اور اپنے آپ کو فخریہ نگاہوں سے دیکھتا ہے کہ میں نے بڑا کمال کر دیا ہے یہاں تک کہ اس کی نیکی ضائع ہو جاتی ہے اور وہ دوزخ کا حق دار بن جاتا ہے ۔
:سعادت کیاہے (توبہ دوم)
پس جب اللہ تعالی کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو کسی آزمائش میں مبتلا کرتا ہے اور وہ بندہ اس آزمائش کےنتیجے میں اپنی گردن جھکا دیتا ہے اور اپنی عاجزی و انکساری کو اللہ تعالی کے سامنے ظاہر کرتا ہے یعنی مصیبت کے بدلے میں بندگی کا بڑھنا بھلائی کی نشانی ہے
اور اگرآزمائش آئی اور نتیجے میں بغاوت ہو گئی بندے کی جانب سے تو یہ بندہ بھلائی پر نہیں ہے
اور بعض بزرگوں کا قول ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے توفیق مل جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی تجھے تیرے نفس کے حوالے نہ کرے اور اللہ تعالی کی طرف سے بندے کو رسوا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ تجھے تیرے نفس کے حوالے کردے جب تو اپنے نفس کے حوالے ہو گیا تو سمجھ لے کہ ذلت و رسوائی طے ہو چکی ہے بس ظاہر ہونا باقی ہے ۔
جاری ہے
مزید تفصیل کیلئے اگلی پوسٹ کا وزٹ کریں شکریہ
Leave a Comment