امر بالمعروف ونہی عن المنکر
قولہ تعالی
کُنتُم خَیرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُونَ بِالمَعْرُوفِ وَتَنْھَونَ عَنِ المُنْکَرِ وَتُؤمِنُونَ بِاللہِ
ترجمہ مسلمانو تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کیلئے وجود میں لائی گئی ہے تم نیکی کے تلقین کرتے ہو برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو
المعروف
معروف کا لغوی معنی ہے جس کے خیر ہونے کو اچھا ہونے کو نفس پہچانتا ہواور اس کے خیر ہونے پر مطمئن ہو جیسا کہ قول باری تعالی ہے
وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا
اس آیت میں امام زجاج ؒ کے بقول معروفا کا معنی ہے اچھے افعال واقوال یعنی اپنے والدین کے ساتھ ایک اچھے ساتھی کی طرح ہو جا کہ اچھے کام کر اور اچھی بات کہ۔
المنکر
منکر کا لغوی معنی ہے اوپرانامانوس اجنبی۔ کہا جاتا ہے(رَجُلٌ نَکِرٌ)یعنی اجنبی نامانوس آدمی اور کہا جاتا ہے (رَجُلٌ مُنْکَرٌ دَاءُہُ) کسی انوکھی اور اجنبی بیماری والا جس بیماری کو کوئی جانتا نہیں۔
منکر کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ تیرا کسی چیز کو پہچاننے سے انکار کر دینا ظاھر ہے جو چیز تیرے لئے انوکھی و اجنبی ہوگی تو اس کو کیسے پہچانے گا؟
خلاصہ یہ نکلا کہ منکر معروف کی ضد اور الٹ چیز کو کہتے ہیں یعنی جس کے اچھا ہونے کو لوگ نہ جانتے ہوں بلکہ برے ہونے کے طور پر جانتے ہوں۔
معروف کا اصطلاحی یعنی استعمالی مفہوم
یہ ایک جامع نام ہے اور اللہ تعالی کی ہر اطاعت کو شامل ہے ہر وہ عبادت جس سے اللہ تعالی کا قرب حاصل کیا سکے اس کو شامل ہے اور لوگوں کے ساتھ اچھے سلوک کو شامل ہے اور ہر وہ عمل جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے ترغیب دی ہے۔
منکرکا اصطلاحی یعنی استعمالی مفہوم
منکر ہر اس عمل کو کہتے ہیں جس کی قباحت شریعت نے بیان کی ہے اورجس کو حرام قرار دیا ہے اور جس کے کرنے سے منع کیا ہے۔
شیخ جرجانی نحوی کہتے ہیں کہ امربالمعروف کا مطلب ہے ایسے اعمال کی طرف راہ نمائی کرناس جو نجات کا سبب بنیں۔
اور نہی عن المنکر ان تمام اعمال سے روکنا ہے جو شریعت میں ممنوع ہیں۔
بعض کہتے ہیں امر بالمعروف خیر پر دلالت کرنے کا نام ہے۔
اور نہی عن المنکر شر سے منع کرنے کا نام ہے۔
بعض کہتے ہیں امر بالمعروف ان احکامات کے حکم کرنے کا نام ہے جو کتاب اللہ میں آئے ہیں۔
اور نہی عن المنکر ان کاموں سے روکنے کا نام ہے جن کی طرف نفس وشیطان و شہوت مائل ہو۔
بعض کہتے ہیں امر بالمعروف بندے کے ہر اس قول وفعل کا نام ہے جو اللہ تعالی کو راضی کرنے کا سبب بنے ۔
اور نہی عن المنکر ہر اس عمل کی قباحت بیان کرنے کا نام ہے جس سے شریعت اور پاک دامنی دور رہنے کی تلقین کرے مطلب جو عمل اللہ تبارک وتعالی کی نازل کردہ شریعت میں نا جائز ہے۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مقام و مرتبہ
اما م غزالی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر دین میں قطب اعظم کا درجہ رکھتے ہیں یہ ایک ایسا ضروری کام ہے جس کیلئے اللہ تعالی نے تمام کے تمام انبیاء کرام علی نبینا وعلیہم الصلاۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ،اگر بالفرض اس کی بساط کو لپیٹ دیا جائے اوراس کے علم و عمل کو مہمل و بیکار چھوڑدیا جائے تو خدا نخواستہ نبوت کا بیکار ہونا لازم آئے گا اور دیانت ختم ہو جائے گی اوردینی کمزوری عام ہو جائے گی اور گمراہی پھیل جائے گی اور جہالت کا دور دورہ ہو جائے گا اور فساد پھیل جائے گا اور ٹوٹ پھوٹ کا دائرہ وسیع ہو جائے گا اور شہروں میں تباہی عام ہو جائے گی اور لوگ ھلا ک ہوجائیں گے اور اس ہلاکت کا پتہ قیامت کے دن چلے گا ہائے افسوس وہ کام ہو بھی گیا ہے گس سے ہم ڈر رہے تھے اس پر تو انا للہ وانا الیہ راجعون ہی کہا جا سکتا ہے۔
کیونکہ اس قطب اعظم کا علم وعمل مٹ چکا ہے اور اس کی صحیح حقیقت تو مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور دلوں پر لوگوں کے رواداری کا غلبہ ہو چکا ہے اور دلوں سے خالق ومالک کا خوف نکل چکا ہے اور لوگ لذات و خواہشات کے اپنانے میں اس طرح بے تکلف ہو چکے ہیں جس طرح جانور چارہ کھانے میں بے تکلف ہو تے ہیں ۔۔اور روئے زمین پر ایسے مؤمن صادق کا وجود ناپید ہو چکا ہے جو اللہ کے دین کے معاملے میں کسی کی ملامت کی پروا نہ کرے اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اگر کوئی اس کمزوری کو دور کرنے کی کوشش ہی کردے یا اس کوتاہی کے ازالے کا کرنے کا ارادہ کرلے اس پر عمل کی ذمہ داری لے کر یا اس کو نافذ کرنے کے ارادے سے اس سنت منتخبہ کی تجدید کیلئے اور اس چاک گریبان عبایا کی رفو گری کرتے ہوئے اس مردہ سنت کے احیاء کیلئے کمر کس لے تو یقینا وہ لوگوں میں ایک نمایاں کام والے کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور ایک ایسی نیکی کو تن تنہا انجام دینے والا ہو گا جس کے درجات قرب میں بلندی کے سامنے باقی ساری نیکیاں اور اعمال سر نگوں ہیں۔
بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ارباب حکومت کے ساتھ خاص نہیں ہے اور نہ محج علماء کے ساتھ خاص ہے بلکہ امت کے ہر فرد کیلئے اس کو کرنا جائز ہے ۔
امام الحرمیں فرماتے ہیں کہ یہی بات درست ہے کہ ہر آدمی اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ذمہ دار ہے باقی بات رہی دلیل کی تواس پر دلیل بھی موجود ہے اور وہ ہے اجماع المسلمین ،مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ بوقت ضرورت ہر شہری و فرد امر بالمعروف و نہی عن المنکر کر سکتا کے اور صدیوں سے بلکہ قرون اولی سے یہ معمول ہے کہ بادشاہوں اور علماء کے علاوہ عام مسلمان بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتے تھے اور ساتھ ساتھ مسلمانوں کو خود بھی اس عمل پر پختہ رہنے کی تلقین کرتے تھے اور عام مسلمانوں کو بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے چھوڑ دینے کی اجازت نہیں دیتے تھے ہاں یہ الگ بات ہے کہ عام آدمی جس نیکی کو جانتا اس کا حکم کرے گا یا ترغیب دے گا موقع و محل کو دیکھتے ہوئے اور جس برائی کو جانتا ہے اس سے منع کرے گا حکمت و بصیرت کیساتھ اور ظاہر یہ ہر بندے کے اعتبار سے مختلف ہوگا کیونکہ ہر ایک کی دینی معلومات مختلف ہوتی ہیں پس جو جس نیکی یا برائی کو جانتا ہے اس کے بارے میں عمل کرے گا اور کروائے گا ،باقی جو اعمال جائز وناجائز ہونے کے اعتبار سے مشہور ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ ان کے فرض ہونے کا چونکہ تقریبا ہر مسلمان کو علم ہے لہذا ہر مسلمان پر ان کا امر کرنا ضروری ہے ،،اور جیسے زنا ،شراب ،سود وغیرہ کا حرام ہونا ہر مسلمان کو معلوم ہے تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ حکمت وبصیرت کا استعمال کرتے ہوئے اس سے منع کرے اور اگر دقیق مسائل ہیں یا اجتہاد سے متعلقہ ہیں ان میں عام مسلمان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے یہ صرف علماء وفقہاء کا کام ہے۔
وَاللہ ُاَعْلَمُ باِلصَّوَابِ وَعِلْمُہُ اَتَمُّ وَاَکْمَلُ
Leave a Comment