تخلیقِ انسانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حصہ سوئم
ماں کے پیٹ میں ہی جب ولادت کا وقت قریب آتا ہے تو بچہ اپنا انگوٹھا منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کر دیتا ہے یہ گویا مشق ہوتی ہے ایک ایسے جہان میں جانے کی جہاں رزق کا یہ موجودہ نظام ختم ہو جائے گا اور ذریعہ روزگار یعنی ناف کٹ جائے گی اور بچے کو خود سے ماں کے سینے سے دودھ کو کھینچ کر پیٹ بھرنا پڑے گا تو اس کی تربیت وہ پیٹ سے ہی لے کر آتا ہے ،کہنا پڑے گا کہ اللہ تعالی اپنے بندے کو کسی موقع پر بھی بے یارومددگاراور بغیر راہنمائی کے نہیں چھوڑتا لیکن انسان کیا کرتا ہے؟بسا اوقات ساری ساری زندگی اپنے پروردگار جو پہچانے بغیر گزار دیتا ہے اس کی عبادت اور فرماں برداری تو دور کی بات ہے اسی لیئے تو اللہ تعالی نے فرمایا ہے
ومَا قَدَرُوااللہَ حَقَّ قَدرِہِ
ترجمہ :اور انہوں نے اللہ تعالی کی صحیح قدر نہیں پہچانی
ساتھ ہی اگر یہ آیت ملائیں تو مفہوم اور زیادہ واضح ہو جاتا ہے
لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ
ترجمہ:تم سب ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف چڑھتے جاؤگے
تخلیقِ انسانی کوئی آسان کام نہیں ہے
انسان اپنی زندگی میں مختلف مراحل سے گزرتا ہے بچپن آتا ہے پھر جوانی ادھیڑعمری اور بڑھاپا آتا ہے پھر موت آتی ہے نیز انسان کی سوچ میں میں بھی مسلسل تبدیلی آتی رہتی ہے سوچ میں تبدیلیوں کا آنا بھی ان مراحل میں داخل ہے جن کو انسان ساری زندگی طے کرتا رہتا ہے اور یہ بھی منازل ہیں کہ پہلے عالم ارواح میں تھا وہاں سے باپ کی پیٹھ کے راستے سے ماں کے پیٹ میں آیا پھر ماں کے پیٹ سے زمین کی پشت پر آیا زمین کی پشت سے زمین کے پیٹ میں داخل ہوا اور پھر زمین کے پیٹ سے اگلے جہان میں گیا جس کی پوری حقیقت سے تو اللہ رب العزت ہی واقف ہے ،واقعی یہ بڑی عجیب وغریب قسم کی سیڑھیاں ہیں جن پر ہم چڑھتے چلے جاتے ہیں
پیدائش
اللہ تعالی کا فرمان ہے
وَنُقِرُّ فِی الاَرحَامِ مَا نَشَاءُ اِلٰی اَجَلٍ مُسَمًّی ثُمَّ نُخرِجُکُم طِفلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا اَشُدَّکُم ومِنکُم مَن یُتَوَفّٰی ومِنکُم مَن یُرَدُّ اِلٰی اَرذَلِ العُمَرِ لِکَیلَا یَعلَمَ مِن بَعدِ عِلْمٍ شَیئًا
ترجمہ :اور ہم تمھیں ماؤں کے پیٹ میں جب تک چاہتے ہیں ایک متعین مدت تک ٹھرائے رکھتے ہیں پھر تمھیں ایک بچے کی شکل میں باہر لاتے ہیں پھت تمھیں پالتے ہیں تاکہ تم اپنی بھرپور عمر تک پہنچ جاؤ اور تم میں سے بعض وہ ہیں جو پہلے ہی دنیا سے اٹھا لیئے جاتے ہیں اور تمھیں میں سے بعض وہ ہوتے ہیں جن کو بدترین عمر یعنی انتہیائی بڑھاپے تک لوٹا دیا جاتا ہے یہاں تک وہ سبب کچھ جاننے کے بعد بھی کچھ نہیں جانتے
تخلیقِ انسانی ایک ایتہائی دقیق اور بہت ہی مشکل کام ہے
چنانچہ جب بچہ باہر کی ہوا کھانے کے قابل ہو جاتا ہے اور روشنی برداشت کرنے کا اھل ہو جاتا ہے تو خالق ومالک کی طرف سے اس کے باہر آنے کا لمحہ آن موجود ہوتا ہے آپ سوچیں اگربچے کے دنیا میں آنے کا وقت ماں باپ کے سپرد ہوتا تو کتنے ہی بچے ماں باپ کی جلد بازی کی وجہ سے ضائع ہو جاتے؟اور کتنے ہی شدت احتیاط کی وجہ سے دم گھٹ کر اپنی جان سے جاتے قدرت کی طرف دنیا میں آنے کا وقت ایک خاص انداز سے مقرر کیا جاتا ہے نہ زیادہ بڑا سائز ہو جس کو جننا ہی مشکل ہو جائے اور نہ ہی بالکل چھوٹا مکھی جیسا سائز ہو جس کو جننے کے بعد سنبھالنا ہی مشکل ہو جائے اور کتنے ایک لوگ ہیں جو اس مشکل کام کو کر لیتے اور اتنے چھوٹے سائز کے بچے کی پرورش کر سکتے؟
آپ سوچیں کہ اگر اس نومولود کو جو ابھی دنیا میں آیا چاہتا ہے ماں کے پیٹ میں ہی یہ بتایا جائے کہبآپ ایک ایسی دنیا میں جا رہے ہو جہاں بڑے بڑے درخت پہاڑ اور سمندر ہیں تو کیا وہ یہ باتیں سمجھ لینے کے قابل ہے؟؟جبکہ اس نے کچھ ابھی تک دیکھا ہی نہیں لیکن جیسے ہی دنیا میں آئے گا وقت گزرے گا شعور آئے گا دیکھے بھالے گا تو خود ہی یہ باتیں سمجھ جائے گا ،،بالکل اسی طرح دنیا میں رہتے ہوئے اگلے جہان یعنی آخرت کی باتیں جو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے بتائی ہیں سمجھنا مشکل لگتا ہے کیوں کہ انسانی عقل و شعور کا دائرہ انتہائی محدود ہے جس میں یہ باتیں سما نہیں سکتیں لیکن جیسے ہی موت کی صورت میں اگلے جہان کا مہمان بنتا ہےاورروح و جسم کا آپس کا تعلق ختم ہوتا ہے توسارے پردے ہٹ جاتے ہیں ساری باتیں دیکھ بھی لے گا سمجھ بھی لے گا مان بھی لے گا جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے۔
ثُمَّ لَتَرَوُنَّھَا عَینَ الیَقِینِ
ترجمہ :پھرتم اسے بالکل یقینی طور پر دیکھ لوگے
یہ الگ بات ہے کہ وہاں کا ماننا نفع نہیں دے گا کیونکہ ایمان بالغیب کا مطالبہ ہے ایمان بالمشاہدہ کا نہیں۔
تخلیقِ انسانی ایک پیچیدہ عمل ہے
اللہ تعالی فرماتاہے
واللہُ اَخرَجَکُم مِن بُطُونِ اُمَّھَاتِکُم لَاتَعلَمُونَ شَیئًا
ترجمہ :اللہ تعالی نے تمھیں ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حال میں کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے
حیران کن بات ہے کہ جب انسان ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے تو کچھ بھی نہیں جانتا نا نفع کی بات نا نقصان کی بات نا کھانے کا پتہ نا پینے کا پتہ نا قضائے حاجت کا طریقہ کچھ بھی تو نہیں جانتا تو ایسے حالات میں اس کی ضروریات کیسے پوری ہوں گی؟؟ نا مانگ سکتا ہے نا خود کچھ کھا سکتا ہے نا اپنی ضرورت کا اظہارکر سکتا ہے نا ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کر سکتا ہے ،ایسے حالات میں اللہ تعالی ماں کی شکل میں ایک ایسی شفیق ہستی عطا فرمائی ہے جو اس کی ضروریات کو بغیر کہے بغیر مانگے اس طرح پورا کرتی ہے دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی انسان پر ماں کی صورت میں جو احسان کیا ہے اس کا بدلہ ساری زندگی نیں چکا سکتا اور اس کی خوراک کا ایسا عالی شان بندوبست فرمایا ہے کی اپنی غذا بھی حاصل کرتا ہے اور ماں کا پیار بھی حاصل کرتا ہے ،اور اللہ تعالی نے اس غذا کو حاصل کرنے کے ایسے اسباب عطا فرمائے کہ ماں کا پیار کم ہونے کی بجائے بڑھتا جاتا ہے لھذا اللہ تعالی نے بچے کو منہ میں دانت عطا نہیں فرمائے کہ کہیں دودھ پیتے ہوئے والدہ کو تکلیف نہ پہنچا سکے آج سائنس اس بات پر متفق ہے کہ شیر خوار بچے کیلئے ماں کے دودھ سے بہتر کوئی غذا نہیں ماں کا دودھ بچے کی ضرورت کے مطابق بدلتا رہتا ہے چنانچہ شروع میں یہ پتلا ہوتا ہے اور بعد میں گاڑھا ہوتا جاتا ہے اور بچے کی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے ،جب انسان ان باتوں پر غور کرتا ہے تو پکار اٹھتا ہے
فَتَبَارَکَ اللہُ اَحْسَنُ الخَالِقِینَ
تخلیقِ انسانی صرف اللہ تعالی ہی کا کام ہے
Leave a Comment