تخلیق انسان
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حصہ دوئم
اس پوسٹ میں ہم یہ بیان کریں گے کہ رحم مادر میں ٹھہر جانے کے بعد کتنے دنوں میں کیا کیا تبدیلی آتی ہے چنانچہ قرار حمل کے تین ہفتے بعد انسانی وجود پیٹ کے اندر ایک انچ کے چوتھے حصے کے برابر ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ مڑنا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ ماں کے پیٹ میں بچے کا وجود گولائی میں ہوتا ہے ،واہ سبحان تیری قدرت ایک انچ کے چوتھے حصے کے بقدر وجود؟؟ کتنا نازک اور کتنا چھوٹا ہے کتنا لا چار ہوتا ہے کتنی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے اسے ۔۔
اس کے بعد دوسرے مہینے میں تک اس کی پرورش کی رفتار تیز ہو جاتی ہے حتی کہ دوسرے مہینے میں اس کا حجم ڈیڑھ انچ کے برابر ہو جاتا ہے۔
اور اعضاء میں سے صرف ماتھے کی چوڑائی اور اس پر پپوٹے کے نشانات نظر آنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ ہاتھ پاؤں کی کلیاں سی نمودار ہونے لگتی ہیں اور دوسرے ماہ کے اختتام تک چھوٹی چھوٹی انگلیاں کہنی کلائی اور گھٹنے نظر آنے لگتے ہیں۔تخلیق انسان کوئی آسان کام نہیں ہے
کتنے مراحل سے گزر کر تخلیق انسان ہوتی ہے
اسی دوران انسانی وجود چونکہ انتہائی چھوٹا اور نازک ہوتا ہے اور ذرا سا دھچکا بھی اس کو نقصان پہنچانے کیلئے کافی ہوتا ہے بلکہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہےاسی لئے اللہ علیم و خبیر نے اس کی حفاظت کا عجیب وغریب انتظام فرمایا ہے وہ اس طرح کہ بچہ اپنی جھلی میں میں مکمل طور پر پانی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے اور پانی میں تیرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ دھچکوں اور دھکوں کی صورت میں نقصان سے بچا رہتا ہے کیونکہ پانی میں ہونے کی وجہ سے اس کوچوٹ نہیں لگتی ،یہاں ایک اور بات قابل غور ہے کہ پیدا ہونے کے بعد اگر ہم تھوڑی دیر کیلئے بھی پانی میں ہاتھ پاؤں ڈالیں تو وہ سفید ہو جاتے ہیں اور کھال کچی ہو جاتی ہے لیکن ماں کے پیٹ میں ہر انسان مکمل طور پر پانی میں ڈوبا ہوتا ہے اس کے باوجود کھال کو کچھ نہیں ہوتا کیوں؟؟ جبکہ بچے کی کھال اور پورا جسم بڑا نازک ہوتاہے دیکھیں کتنا نازک کاپ ہے تخلیق انسان
اس لیے کہ پورے جسم پر قدرت نے واٹرپروف قسم کی تہہ چڑھائی ہوتی ہے جو بچے کی کھال کو پانی کی نمی سے محفوظ رکھتی ہے لیکن پیدا ہو جانے کے بعد چونکہ اس تہہ کی ضرورت نہیں رہتی اس لئے پہلے غسل میں پانی لگتے ہی وہ تہہ نما مادہ دھل جاتا ہے اور پگھل کر اتر جاتا ہے اور دوسری طرف پانی میں رہنے والے جانور مینڈک وغیرہ نے چونکہ ساری زندگی پانی میں ہی رہنا ہوتا ہے اس لئے ساری زندگی یہ مادہ ان کے جسم پر قائم رہتا ہے تو پھر کیوں نہ کہا جائے
فَاللہُ خَیرٌحَافِظًا
ترجمہ :اللہ تعالی بہترین حفاظت کرنے والے ہیں
اس دوسرے ماہ میں گوشت کی بوٹی (مضغہ) میں ھڈیوں کے ابتدائی ڈھانچے کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے اسی ھڈی کی وجہ سے ہی تو جسم کو ایک متعین شکل ملتی ہے چنانچہ ارشاد باری ہے
فَخَلَقْنَا المُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَونَا العِظَامَ لَحْمًا
ترجمہ : پھر اس لوتھڑے کو ہڈیوں میں تبدیل کر دیا پھر ہڈیوں کو گوشت کا لباس پہنایا
اس وقت کی ہڈی اگرچہ بہت پتلی ہوتی ہے لیکن پھر بھی گوشت کو کچھ سہارا فراہم کرتی ہے ۔، اسی اثناء میں دل کے اندر ایک بڑی تبدیلی واقع ہوتی ہے اور دلجو اس وقت تک ایک لمبی سی ٹیوب کی شکل میں تھا اب اس میں باقائدہ چار خانے بن جاتے ہیں اور یہ دھڑکنا شروع کر دیتا ہے اور ماں کے جسم سے حاصل ہونے والے خون کو پمپ کر کے اپنے جسم کے مختلف حصوں میں پہنچانا شروع کر دیتا ہے ذرا غور فرمائیں وہ کون سی ذات یا طاقت ہے جس نے ننھے سے دل کو ایک خاص رفتار پر اک خاص انداز سے چلایا؟؟
تخلیقِ انسان بہت باریک اور نازک عمل ہے
اور ایسا پاور فل طریقے سے چلایا کہ جب تک زندگی کی سانسیں ہیں تب تک یہ مسلسل چلتا رہے گا اور جب وقت مقررہ ختم ہو جائے گا تو یہ خود بخود ہی رک جائے گا ،تیسرے ماہ کے اخیر تک تقریبا تمام اعضاء مکمل ہو جاتے ہیں اور باقی وقت بچے کی نشونما میں لگتا ہے اس وقت تک جلد انتہائی پتلی ہوتی ہے جس میں سے رگیں صاف نظر آتی ہیں ،اب جسم پر گوشت چڑھنے کا مرحلہ آتا ہے اور بدن پر گوشت چڑھنے لگتا ہے اور جسامت بڑھتی جاتی ہے ہی مضمون اس آیت میں بیان ہوا ہے
فَکَسَونَا العِظَامَ لَحْمًا
ترجمہ :پھر ہم نے ھڈیوں کو گوشت سے ڈھانپ دیا
بچے کیلئے خوراک کا بندوبست شروع سے ہی کر دیا جاتا ہے اس نازک موقع پر جس طرح کی نرم ونازک غذا کی بچے کو ضرورت ہوتی ہے اور ذرا سی غلطی سے بچے کی جان بھی جا سکتی ہے اس طرح کی غذا تیار کرنا کسی کے بس کی بات نہیں اس لئے رب ذوالجلال نے خوراک کا بندوبست اپنے پاس رکھا ہے اور ایسا انتظام کیا ہے کہ غذا لینے کیلئے نہ بچے کو منہ ہلانے کی ضرورت ہے اور نہ ماں کو کچھ کرنے کی ضرورت ہے ،ماں اپنی خوراک اپنے منہ میں ڈالتی ہے اب اس میں سے ماں کی غذا علیحدہ تیار کرنا اور بچے کیلئے علیحدہ مناسب غذا تیار کرنا یہ قدرت کا کام ہے وہی اس کو انجام دیتی ہے،اور تیار کرنے کے بعد بچے کو پہنچا دی جاتی ہے ،چونکہ منہ ابھی اس قابل نہیں ہوتا کہ غذا کو چبا سکے اور نہ ہی غذا اس قابل ہوتی ہے کہ اس کو منہ کے راستہ سے لیا جائے اس لئے بذریعہ ناف غذا کے پہنچانے کا بندوبست کیا جاتا ہے
واللہُ خَیرُ الرَّازِقِینَ
ترجمہ ؛ اور اللہ تعالی ہی بہترین رزق دینے والا ہے
اور وہی اپنی تمام مخلوق کی ضرورت کے مطابق روزی پہنچاتا ہے اور مناسب غذا کے ساتھ ساتھ بقدر ضرورت آکسیجن بھی ماں کے خون میں شامل ہوتی ہےاوریہ خون ناف کے ذریعہ داخل ہو کر اندھیرے کے باسی اس ننھے خدائی مہمان کو روزی پہنچاتا ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ بچے کی روزانہ کی ضروریات اور جسامت کے مطابق اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور بچے کے جسم کے فضلات بھی براستہ ناف ماں کے جسم میں چلے جاتے ہیں پھر وہاں سے خارج ہو جاتے ہیں دیکھئے پیدا ہونے کے بعد بھی بسا اوقات ماں بچے کو دودھ پلانے میں جھنجھلا جاتی ہے اگر پیٹ کے اندر غذا کی ذمہ داری ماں پر ہوتی تو نہ جانے کتنے معصوم کم ےا زیادہ غذا کے نتیجہ میں برباد ہو جاتے تو پڑھئے پھر
وَمَا مِن دَابَّۃٍ فِی الاَرضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزقُھَا
تخلیق انسان ایک بہت مشکل عمل ہے
Leave a Comment