Islam

آنحضرت ﷺ کی تواضع کا انداز

آنحضرت ﷺ کی تواضع کا انداز

آنحضرت ﷺ کی تواضع کا انداز

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں آنحضرتﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا          

 لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔

کہ تمہارے لئے حضرت محمد ﷺ کی زندگی میں اور رہن سہن میں ایک بہترین نمونہ ہے۔

  یعنی آنحضرت ﷺ کی زندگی کے ہر گوشہ میں تمھاری زندگی کے ہر گو شہ اور پہلو کیلئے راہنمائی موجود ہے  اگر ہم یہ راہنمائی حاصل کرنا چاہیں تو؟اور یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ جو اس راہنمائی کو لے کر اپنی زندگی کے خدوخال طے کرے   گا         یقینا وہ ایک نمایاں کردار کا حامل شخص ہوگا کیونکہ جو  نمونہ زندگی اس نے چنا ہے اس کی جھلک               اس کے علاوہ کسی اور میں نظر نہیں آئے گی  ۔

:آنحضرت ﷺ کی تواضع

اللہ تعالی نے آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا         

وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ  لِمَنِ اتَّبِعَکَ مِنَ المُؤمِنِینَ۔

کہ آپ ﷺ اپنے ماننے والوں کیلئے اپنا پہلو نرم رکھیئے۔

یعنی کہ آپ ﷺ کو حکم ہے کہ اپنا پہلو نرم رکھیئے اور نرمی و شفقت کے ساتھ پیش آئیں مؤمنین کے ساتھ بالفاظ دیگر آنحضرت ﷺ کو یہ حکم  دیا گیا ہے کہ تواضع اور نرمی  اور شفقت اختیار کریں مؤمنین کے ساتھ اور خاص کر فقراء مؤمنین کے ساتھ تو زیادہ  نرم رویہ رکھیں  ۔

آنحضرت ﷺ نے اس پہ یوں عمل کیا کہ اگر بچوں کے پاس سے گزر ہوتا تو آپ ﷺ سلام میں پہل کرتے اور ہمارا حال تو یہ  ہے کہ سرے سے سلام ہی یاد نہیں رہتا پہل کرنا تو دور کی بات ہے  بلکہ بچوں کو سلام کرنے کا رواج ہی نہیں ہے یعنی اگر سلام  کرنا یاد بھی ہو تو ہم بچوں کو سلام کرنا  ضروری نہیں سمجھتے حالانکہ بچوں کو بھی سلام کرنا چاہئے کیونکہ بچے ہی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں  جیسا سلوک ان کے ساتھ ان کے بچپن کے دنوں میں ہو گا ویسا ہی بڑے ہو کر دوسروں کے ساتھ کریں گے  اور اچھے انسان بنیں گے  ۔اسی  طرح                                                   اگر کوئی بچی    آنحضرت  ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیتی تو آپ ﷺ اس کے ساتھ چلتے جہاں بھی وہ لے جاتی                                               آج  ہمارا حال یہ ہے کہ اپنی سگی اولاد کے ساتھ چلنا بھی مشکل ہو جاتا ہے  اور ہمارے پاس ٹائم نہیں ہوتا تو کل کو جب یہی اولاد بڑی ہو جاتی ہے تو پھر ان کے پاس  اپنے بزرگ والدین کے ساتھ بیٹھنے کا ٹائم نہیں ہوتا  کیونکہ وقت بہر حال بدلتا ہے  آج آپ کا ہے تو کل کسی اور کا ہوگا اگر آپ اپنے وقت میں اچھا کریں گے تو آپ کے ساتھ بھی اچھا ہوگا  ورنہ ادلے کا بدلہ یاد رکھنا چاہئے  ۔

اسی طرح ضرورت پڑنے پہ آنحضرت ﷺ اپنے جوتے خود گانٹھ لیا کرتے تھے   اور اپنے کپڑے بھی خود سی لیا کرتے تھے مطلب کہ پھٹنے کی صورت میں پیوند لگا لیا کرتے تھے  یہ نہیں کہ خود تو مخدوم بن کے بیٹھے رہے اور خدمت کا سارا بوجھ دوسروں پہ ڈال دیا حالانکہ آنحضرت ﷺ کو ہر قسم کی خدمت کیلئے خدمت گار مہیا تھے  اور بے لوث خدمت کیا کرتے تھے   مگر آنحضرت ﷺ نے لوگوں کیلئے نمونہ اور مثال سیٹ کر دی اپنی بہت ساری خدمات کو خود اپنے ہاتھ سے انجام دے کر ۔

:آنحضرت ﷺ کی تواضع

اسی طرح آنحضرت ﷺ اپنی بکری کا دودھ بھی بوقت ضرورت خود نکال لیا کرتے تھے               ذرا سو چیں اگر ہم میں سے کسی کو کوئی عہدہ          یا منصب مل جائے اور خادمین بھی مہیا ہو جائیں تو کیا ہم اس طرح کے چھوٹے کام خود کر یں گے ؟یا کرتے ہیں ؟یا کرنے کا کبھی خیال بھی آیا ہے؟

اور آنحضرت ﷺ مساکین و غرباء کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رکھتے تھے   آج اگر ہم میں سے کسی کے پاس  تھوڑی بہت دولت آ جائے تو ہم اپنے قریبی رشتہ داروں سے دوری بنا لیتے ہیں عام فقراء تو دور کی بات ہے  ۔

اور آنحضرت ﷺ کی یہ خوبی بھی قابل داد ہے  کہ آپ ﷺ بیوہ اور لا وارث خواتین اور یتیم بچوں کی ضروریات کیلئے ان کے ساتھ چلے جایا کرتے تھے اور ان کی ضرورت کو پورا کیا کرتے تھے   جبکہ آج ہمارا حال یہ ہے کہ اگر اپنا مفاد ہو تو غریب کی مدد کیلئے ہل جل کر لیتے ہیں وگرنہ نہیں اور یہ کتنا افسوس ناک رویہ ہے ؟

اور آنحضرت ﷺ ہر کسی کی دعوت کو قبول فرما لیا کرتے تھے اگرچہ وہ کسی ہلکی سی چیز کی دعوت دے اور میزبان سے ہر گز یہ تقاضا نہیں  کیا کرتے تھے کہ فلاں چیز بنائیں یا پکائیں تو میں آؤں گا                                                        بدقسمتی سے آج ہمارا یہ رویہ بن چکا ہے کہ اگر کہیں سے دعوت آئے تو داعی سے زیادہ دعوت کے کھانے پہ نظر ہو تی ہے کہ کیا پکایا گیا ہے؟ یہی وجہ ہے  کہ دعوت جو کہ محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے  وہ  ہمارے اندر نفرت پیدا کر رہا ہے   یا کم از کم محبت تو پیدا نہیں ہو رہی   اگر یہ عمل سیرۃ کی روشنی میں ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ نتیجہ نہ دے جو اس کو دینا چاہئے ۔

اورآنحضرت ﷺ بیمار کی بیمار پرسی کیا کرتے تھے اور بیمار پرسی میں یہ تک نہیں دیکھا کرتے تھے کہ یہ مسلمان ہے مشرک ہے یا یہودی  بلکہ بلا تفریق ہر کسی کی بیمارپرسی کر لیا کرتے تھے ۔

:آنحضرت ﷺ کی تواضع

اور آنحضرت ﷺجنازوں میں شرکت کیا کرتے تھے   اور درازگوش (گدھا) کی سواری بھی کر لیا کرتے تھے اور غلام نوکر خادم کی دعوت بھی قبول فرما               لیا کرتے تھے   ۔

نوٹ ۔ ان تمام باتوں سے یہ بات حتمی طور معلوم ہو گئی کہ بڑا آدمی اگر اپنے چھوٹے چھوٹے کام خود کر ے تو اس سے وہ چھوٹا نہیں ہو جاتا  اور نہ ہی اس کے مقام و مرتبے میں  کوئی کمی آتی ہے بلکہ اس کی عزت و بڑائی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے

غرضیکہ دنیا  میں اب تک تواضع                                        ا   ور عاجزی کی جتنی شکلیں پیش آچکی ہیں یا رہتی دنیا تک جتنی پیش آئیں گی ان سب کے نمونے آنحضرت ﷺ کی زندگی میں موجود ہوں گے بشرطیکہ کوئی صدق دل سے اپنانے کا ارادہ کر لے۔

  وما علینا الا البلاغ

Leave a Comment