لوگوں کے مختلف مزاج
حصہ چہارم
جی ہاں ہر انسان کی ایک چابی ہوتی ہے جس سے اس کے دل کا تالا کھلتا ہےاگر تو چاہتا ہے کہ کہ لوگ تجھ سے پیار کریں محبت کریں تو تو ان کے دل کی چابی تلاش کر جب تو چابی تلاش کر لے گا تو تو اصل بن جائیگا ورنہ اوروں کا محتاج اور ماتحت بن کر رہے گا اور یہ بات تو عام مشاہدہ کی ہے کہ لوگ آپس میں باتیں کرتے ہیں کہ فلاں منیجر کی چابی فلاں ملازم کےپاس ہے اور فلاں کی فلاں چابی ہے لہذا اگر تمھیں اس فلانے سے کام ہے تو اس کی چابی یعنی قریبی ملازم کو اعتماد میں لواگر وہ اعتماد میں آ گیا تو آپ کا کام ہو جائیگا۔
اب آپ غور کریں کہ آپ ہی وہ چابی کیوں نہیں بن جاتے تاکہ آپ براہ راست اپنا کام کروا لیں اور کسی کے دست نگر نہ بنیں
لوگوں کے مختلف مزاج کو آپ براہ راست کیوں نہیں سمجھنے کی کوشش کرتے؟
جی ہاں اپنے میں کوئی انفرادی اور ممتاز سی خوبی پیدا کریں تاکہ آپ اپنے والدین اور بیوی اور اولاد کی چابی بن کر ان کے دل کا تالا کھول سکیں مثلا اپنے منیجر مدیر یا پرنسپل کی چابی کام میں محنت سے لگنا ہے جب آپ محنت سے کام میں لگیں گے تو وہ آپ کے ایسے مشورے بھی قبول کرے گا جو وہ کسی اور سے قبول نہیں کرتا بلکہ اگر کوئی دوسرا وہ رائے یا مشورہ دے گا تو وہ اس کو مسترد کر دیں گے کیونکہ ہر ایک کے نصیحت یا مشورے کو قبول کرنے کی صلاحیت الگ الگ ہو تی ہے اسی بات کی طرف راہنمائی ملتی ہے سیرت کی کتابوں میں جب رسول اکرم ﷺ کی سیرت دیکھی جاتی ہے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ رسول اکرم ﷺ ہر آدمی کو اسی انداز میں نصیحت یا تبلیغ فرماتے تھے جو اس کیلئے مفید ثابت ہو سکتا تھا
لوگوں کے مختلف مزاج کی عکاسی کرتا ہوا ایک مختصر واقعہ
آیئے ذرا ایک واقعہ پر نظر ڈالیں
رسول اکرم ﷺ ایک دفعہ اپنی مجلس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان تشریف فرما تھے کہ اتنے میں ایک دیہاتی مسجد میں داخل ہوا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا اور مجلس میں بیٹھنے کی بجائے مسجد کے ایک کونے میں گیا اور ازار بند کھولنے کی کوشش کرنے لگا سب کو تعجب ہوا کہ یہ صاحب کیا کرنے جا رہے؟
اچانک اس نے ازار بند کھولا اور پورے اطمئنان کے ساتھ سامنے پیشاب کرنے بیٹھ گیاصحابہ کرامؓ کو بہت تعجب ہوا اور شور بلند ہوا کہ مسجد میں پیشاب؟ مسجد میں پیشاب؟ اس کو روکنے کیلئے لپکے لیکن رسول اکرم ﷺ صحابہ کرام کو روکنے لگے اورصحابہ کرام ؓ کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے لگے اور یہ فرمانے لگے کہ اس کا پیشاب نہ روکو اس کا پیشاب نہ روکو اور جلدی نہ کرو اس کو پیشاب کرنے دو اوہ وہ اجنبی ان ساری باتوں سے بے خبر اطمئنان کے ساتھ پیشاب کرنے میں مشغول ہے اور آنحضرتﷺ یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ مسجد اور پیشاب؟ساتھ ہی ساتھ اپنے اصحاب کو بھی روک رہے ہیں۔ آہ نبی کریم ﷺ کتنے حلیم اور صابر تھے؟
یہ منظر جاری رہا حتی کہ وہ دیہاتی آرام سے اپنی حاجت سے فارغ ہوا اور ازار بند باندھ لیا تو رسول اللہ ﷺ اس کو نرمی کے ساتھ اپنے پاس بلایا وہ چلتا ہوا آیا اور آنحضرتﷺ کے سامنے کھڑا ہو گیا آنحضرتﷺ نے پوری نرمی اور شفقت کے ساتھ فرمایا کہ یہ مساجد اس طرح کے کاموں کیلئے نہیں ہیں یہ تو صرف نماز اور عبادت کیلئے ہیں بس یہ مختصر سی نصیحت کی اور بات ختم ۔وہ دیہاتی بھی اچھی طرح سے بات سمجھ گیا اور واپس چلا گیا۔ پھر جب نماز کا وقت ہوا تو وہ دیہاتی آیا اور نماز میں شریک ہو گیا۔ آنحضرتﷺ نے نماز شروع کی قرأت کی رکوع کیا اور رکوع کے بعد
ُسَمِعَ اللہُ لِمَن حَمِدہ
کہا
توسب نے کہا
رَبَّنَا وَ لَکَ الْحَمُدُ
لیکن اس دیہاتی نے بات کو بڑھا کر
رَبَّنَا وَ لَکَ الْحَمُدُ اَلّٰلھُمَّ ارْحَمْنِی وَ مُحَمَّدًا وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا اَحَدًا
کہا
ترجمہ: اے اللہ تیرے لئے ہیں تعریفیں اور اے اللہ مجھ پر اور محمدﷺ پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کر۔
یہ بات نبی اکرمﷺ نے سن لی اور نماز ختم ہونے کے بعد پوچھا کہ یہ جملہ کس نے کہالوگوں نے اشارہ کیا کہ اس نے آنحضرتﷺ نے اس کو پاس بلایا تو وہ وہی دیہاتی تھا اور وہ آنحضرتﷺ کی محبت میں اتنا گم ہو چکا تھا کہ اس نے یہ دعا مانگی۔اس پر آنحضرتﷺ نے اس سے کہا کہ تونے اللہ کی وسیع رحمت کو تنگ کر دیا کیونکہ اللہ تعالی کی رحمت تو سب کیلئے کافی ہوتی ہے تو آپ اس کو کیوں تنگ کر رہے ہو؟ کیوں یہ کہ رہے ہو کہ صرف ہم دونوں پر ہی اللہ تعالی کی رحمت ہو؟
دیکھئے رسول اللہﷺ نے کیسے اس دیہاتی کا دل جیتا؟ اور کیسے پھر دل جیت کر اس کو بات سمجھائی؟ کیونکہ وہ دیہات سے آنے والا ایک دیہاتی رہن سہن کا عادی اور علم آگاہی سے بیگانہ اور علمی معلومات میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور دیگر جلیل القدر اصحاب کے برابر نہیں ہو سکتا تھا تو اس کا مؤاخذہ اور تنبیہ بھی ان حضرات کی طرح نہیں ہو سکتی تھی اس لئے رسول اللہﷺ نے اس کو ہلکے انداز میں نرمی کے ساتھ تنبیہ کی۔
اگر غور کیا جائے تو یہ ایک بہت بڑی نکتے کی چیز ہے کہ تنبیہ کا ہر طریقہ یا انداز ہر ایک کیلئے مفید نہیں ہوتا بلکہ کچھ کیلئے یہ مفید ہو گا جن کی علمی سطح یا عقل کا معیار ایک خاص سطح پر ہو اور کچھ کیلئے مفید نہیں ہو گا جن کی علمی سطح یا عقل کا معیار پہلے والوں کے مقابلے بالفرض کم ہو ان کو کسی اور انداز سے تنبیہ کی جانی چاہیئے حتی کہ اگر جرم یا غلطی ایک جیسی بھی ہو تو بھی سب کو تنبیہ کا ایک ہی انداز یا طریقہ کار گر نہیں ہوتا لہذا ہر بندے کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے شفقت بھرے انداز میں اگر تنبیہ کی جائے اور اس میں تحقیر و تنقیص نہ ہو طعنہ زنی نہ ہو تو قوی امید ہے کہ فائدہ ہو گا۔
Leave a Comment