پڑوسی کے حقوق
حصہ اول
قولہ تعالی
وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِالْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ
ترجمہ: اور اچھا سلوک کرو قریب والے پڑوسیوں اور دور والے پڑوسیوں کے ساتھ اور ساتھ بیٹھےیا کھڑے ہوئے شخص کے ساتھ۔
اللہ تعالی نے قرآن میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ میں پڑوسیوں کے حقوق کو خوب اجاگر کیا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید فرمائی ہے اور پڑوسیوں کے درجات بیان کرکے ان کی درجہ بندی بھی کردی ہے تاکہ حقوق کی ادائیگی میں کوئی مسئلہ پیش نہ آئے۔
پہلے درجے کے پڑوسی کو جارذی القربی کہا گیا ہے یعنی قریب کا پڑوسی۔
اور دوسرے کو جارالجنب کہا گیا ہے یعنی دور والا پڑوسی۔
قریب والے پڑوسی کی تعین میں کئی اقوال بیان کئے گئے ہیں مثلاً قریب والا پڑوسی وہ ہے جس کا گھر آپ کے گھر کے ساتھ ملا ہوا ہو اور دور والا وہ ہے جس کا گھر دور ہو۔
پڑوسی کے حقوق
جبکہ حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ قریب والا پڑوسی وہ ہے جو آپ کا رشتہ دار بھی ہو اور دور والا وہ ہے جس سے قرابت کا تعلق نہ ہو
اور نوف البکالیؒ کہتے ہیں قریب والا وہ ہے جو مسلمان ہو اور جو مسلمان نہ ہو یہودی ہے یا عیسائی ہے وہ دور والا ہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں قریب والا پڑوسی سے مراد عورت یعنی آپ کے پڑوس میں اگر عورت رہتی ہے تو کمزور ہونے کی وجہ سے قریب کا پڑوسی ہے اور مرد قوی ہونے کی وجہ دور کا پڑوسی ، یعنی عورت کے حقوق زیادہ ہیں اور مرد کے کم ہیں اس معاملے میں۔
امام مجاہدؒ کہتے ہیں دور والا پڑوسی سفر کا پڑوسی ہے ،اس میں وہ بھی شامل ہے جو تھوڑی دیر کیلئے ساتھ ہو جیسے لائن میں لگے ہوں تو ساتھ والا یا کسی مجلس میں بیٹھے ہوں تو ساتھ بیٹھنے والا وغیرہ ۔
غرض یہ ہے کہ ان سب کے ساتھ اچھے برتاؤ کی تاکید کی گئی ہے۔
غور فرمائیں دنیا کے کسی مذہب یا تنظیم کے پاس انسانی حقوق کا خاص کر پڑوسی کے حقوق کا ایسا جامع چارٹر نہیں ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے ۔
اب یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پڑوسی کے حقوق کے متعلق کے جو احادیث آئی ہیں ان میں سے کچھ کا تذکرہ کریں تاکہ یہ بحث مکمل ہو سکے۔
الاول: صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے
عن عبداللہ بن عمر ؓ اَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَا زَالَ جِبرِئِیلُ یُوصِینِی بِالْجَارِ حَتَّٰی ظَنَنْتُ اَنَّہُ سَیُوَرِّثُہُ
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جبرئیل علیہ السلام مسلسل لگاتار مجھے پڑوسی کے حقوق کی تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں پڑوسی کو پڑوسی کا وارث بنا دیا جائے گا۔
فائدہ: بظاہر یہ تاکید آنحضرتﷺ کو کی گئی ہے لیکن اصل میں امت کو دنیا والوں کو پڑوسی کے حقوق سے آگاہ کرنا اور اہمیت بتانا مقصود تھا۔
پڑوسی کے حقوق
الثانی :حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن العاص کی روایت ہے
عَنْ عَبدِاللہِ بنِ عَمرِوبنِ العَاصِ عَنِ النَّبِیِّﷺ اَنَّہُ قَالَ خَیرُ الْاَصْحَابِ عِندَاللہِ خَیرُہُمْ لِصَاحِبِہِ وَخَیرُ الْجِیرَانِ عِندَاللہِ خَیرُہُمْ لِجَارِہِ
ترجمہ: ساتھیوں میں بہترین ساتھی اللہ تعالی کے ہاں ہے وہ جو اپنے ساتھی کیلئے بہترین ہے اور پڑوسیوں میں بہترین پڑوسی اللہ تعالی کے حضور وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔
فائدہ: اللہ تعالی نے بندے کو اپنا مقام و مرتبہ معلوم کرنے کی کسوٹی ہی یہ دی ہے کہ آپ اپنے پڑوسی کے ساتھ جیسے رہتے ہیں ویسا ہی درجہ اللہ تعالی کے ہاں ملے گا ۔
الثالث: امام احمدؒ کے بقول حضرت عمرؓ سے روایت ہے
عن عُمَرَؓ قَالَ رَسُولِ اللہِ ﷺ لَا یَشبَعُ الرَّجُلُ دُونَ جَارِہِ
ترجمہ: کسی آدمی یا انسان کو زیب نہیں دیتا کہ اپنا پیٹ بھر لے اور پڑوسی کی خبر نہ لے۔
فائدہ: کتنی تاکید ہے اس حدیث میں کہ اپنے مال سے اپنا پیٹ بھرنے سے روکا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس کچھ عالمی حقوق کی دعوے دار تنظیمیں انسانیت کی مدد کیلئے بھوکا رہنا تو دور کی بات ہے اپنی بالکل غیر ضروری سی حاجتیں بھی نہیں چھوڑ سکتے۔
الرابع :امام احمدؒ کہتے ہیں کہ حضرت مقداد بن الاسودؓ کی راویت ہے
عن المقداد بن الاسودؓ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِاَصْحَابِہِ مَا تَقُولُونَ عَنِ الزِّنَا ؟ قَالُوا حَرَامٌ حَرَّمَہُ اللہُ وَرَسُولُہُ فَھُوَ حَرَامٌ اِلٰی یَومَ القِیٰمَۃِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَاَنْ یَّزْنِیَ الرَّجُلُ بِعَشرَۃِ نِسوَۃٍ اَیسَرُ عَلَیہِ مِنْ اَنْ یَّزْنِیَ بِأِمْرَأۃِ جَارِہِ قَالَ مَا تَقُولُونَ فِی السَّرقَۃِ؟ قَالُوا حَرَّمَہُ اللہُ وَرَسُولہُ فَھُوَ حَرَامٌ قَالَ لَاَنْ یَّسْرِقَ الرَّجُلُ مِنْ عَشرَۃِ اَبْیَاتٍ أَیسَرُ عَلَیہِ مِنْ اَنْ یَّسْرِقَ مِنْ جَارِہِ۔ وفِی رِوَایَۃٍ اُخْرٰی عَنِ ابنِ مسعُودٍؓ قُلتُ یَا رَسُولَ اللہِﷺ اَیُّ الذَّنْبِ اَعْظَمُ؟ قَالَ اَنْ تَجْعَلَ لِلہِ نَدًّا وَھُوَخَلَقَکَ قُلتُ ثُمَّ اَیٌّ؟ قَالَ اَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشیَۃَ اَنْ یَّطْعَمَ مَعَکَ قُلتُ ثُمَّ اَیٌّ؟ قَالَ اَنْ تُزَانِیَ حَلِیلَۃَ جَارِکَ
ترجمہ: حضرت مقدادبن اسودؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ تم زنا کو کیا سمجھتے ہو؟ انہوں نے جوب میں کہا حرام ہے اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے لہذا قیامت تک حرام رہے گا۔ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی دس عورتوں سے زنا کر کے اتنا گناہ گار نہیں ہوتا جتنا پڑوسی کی بیوی سے زنا کر کے گناہ گار ہوتا ہے ۔پھر آپﷺ نے پوچھا تم چوری کے بارے میں کیا کہتے ہو؟صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے پس وہ حرام ہے ۔تو آپﷺ نے فرمایا کہ دس گھروں میں چوری کرکے انسان جتنا مجرم بنتا ہے اس سے زیادہ مجرم صرف پڑوسی کے گھر سے چوری کر کے بن جاتا ہے ۔
اس کی تائید ہوتی ہے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی اس حدیث سے جو صحیحین میں ہے کہ میں نے ایک دفعہ رسول اللہﷺ سے پوچھا کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرانا جبکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔
میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا اپنے بچے کو اس ڈر سے قتل کرنا کہ کہیں اس کو کھلانا نہ پڑ جائے ۔
میں نے عرض کیا اس کے بعد ؟ توآپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا یہ تیسرا بڑا گناہ ہے۔
فائدہ : اندازہ لگائیں کہ اسلام حقوق کی رکھوالی کس طرح کرتا ہے؟ کسی بھی سوسائٹی کے پاس پڑوسی کے حق کا یہ پہلو نہیں ملتا ۔
جاری ہے
Leave a Comment