قلب مستقیم کیا ہے اور اس کی علامات کیا ہیں؟
حصہ دوم
جیسا کہ آپ سب حضرات جانتے ہیں کہ انسان کے جسم میں جو ماسٹر پیس ہے وہ ہے اس کا دل باقی سارا جسم دل کے تابع ہے جیسا دل ویسا عمل دل اچھا (قلب مستقیم) اور سیدھی راہ پر ہے تو عمل بھی وہ سرزد ہو گا جو پسندیدہ ہو اور اگر دل کی دنیا خراب ہے اجڑی ہوئی ہے ویران ہے تو لا کھ زور لگا لیں کبھی اچھے اور پسندیدہ عمل کا صدور اس سے نہیں ہو گا ۔
قلب مستقیم کے آباد ہونے کی نشانیاں
دل کی دنیا کے آباد ہونے کی دو علامتیں بتائی جاتی ہیں ایک ہے اللہ تعالی محبت کا تمام محبتوں پہ غالب آنا اور دوسری چیز ہے اللہ تعالی کے احکامات کی ایسی تعظیم کرنا جو اس کا حق ہے کیوں کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ حکم کی تعظیم حاکم کی تعظیم کے بغیر نہیں آسکتی اور جس قدر حاکم کی تعظیم گہری ہو گی اسی قدر حکم کی تعظیم بھی گہری ہو گی اسی لئےاللہ تعالی نے بھی اپنے حکم کی تعظیم کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد باری ہے
مَالَکُم لَا تَرجُونَ لِلہِ وَقَارًا
ترجمہ:تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی عظمت سے نہیں ڈرتے؟
اس کی تفسیر میں علماء نے لکھا ہے کہ تم اللہ تعالی کی عظمت سے کیوں نہیں ڈرتے ہو ؟مطلب کہ اگرڈرتے ہو تو پھر اس احکامات کی پابندی کیوں نہیں کرتے ؟
کیا ہی خوب کہا کسی اللہ والے نے کہ امر اور نہی کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں نہ تو خشک اور ڈھیلا ڈھالا سارویہ ہو اور نہ ہی غلو سے بھرا ہو ا ہواور نہ ہی کوئی ایسی وجہ گھڑی جائے جس سے اس کی تعمیل داری میں ہلکا پن پیدا اور لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ اس پہ عمل کرنا ضروری نہیں ہے ۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی تعظیم کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کے حکم اور نہی کی تعظیم کی جائے اور مؤمن تو اس کو اس بات سے بھی پہچان لیتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنا پیغام پہنچانےکیلئے رسولوں کا انتخاب فرمایا ہے اور خاص طور پہ اس امت کیلئے تو حضور اکرم ﷺ کا انتخاب کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اوامر اور نواہی کس قدر عظیم ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان اوامر اور نواہی کی تعظیم کی جائے اور ان پر عمل کیا جائے کیونکہ بھیجنے والا اورلانے والا عظیم ہے تو جو چیز لائے ہیں وہ بھی عظیم ہے اور جو عظیم ہو اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس عمل وعظمت کی بنیاد پہ ہی انسان اور مؤمن کے درجات کی بلندی کا فیصلہ ہوتا ہے جس قدر عمل و عظمت زیادہ ہوگی اتنا ہی درجہ اور مرتبہ بلند ہو گا اسی قدر ابرار اور صالحین میں شمار ہوگا اور اتنا ہی نفاق سے دور سمجھا جائے گا کیو نکہ انسان کبھی کبھی نیک عمل کرتا ہے تاکہ لوگوں کی نظر میں باوقار اور باعزت بنے اور لوگ اس کو مقام اور مرتبہ دیں اور اسی طرح کبھی گناہ سے بچتا ہے تاکہ لوگوں کے ہاں بزرگ سمجھا جائے اور لوگوں کی نظر میں بامرتبہ رہے اور گرے نہیں اور دنیا داری میں کوئی نقصان نہ ہو جائے اس بنیاد پہ نیک کام کرنا یا گناہوں سے بچنا یہ دلیل نہیں بن سکتا کہ اس کے نزدیک اللہ تعالی کے اوامر اور نواہی کی تعظیم ہے اور نہ اس طرح کے عمل کے بعد مقام ولایت نصیب ہوتا ہے بلکہ یہ الٹا عنداللہ گرنے کا سبب بن جاتا ہے ۔
اوامر اور نواہی کی تعظیم ہونے کی کیا نشانی ہے؟
اب رہ گئی یہ بات کہ اللہ تعالی کے احکامات کی تعظیم دل میں ہے یا نہیں ؟اس کی کیا دلیل ہے کہ ہے ؟
کیونکہ اپنے منہ سے تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ میرے دل میں احکامات کی تعظیم نہیں ہے ۔
تو ٹھہریئے آئیں آپ کو بتاتے ہیں جس سے ہر انسان خود بھی اندازہ لگا سکتا ہے اور دوسرا بھی دیکھ کر سمجھ سکتا ہے ۔
تو جو بھی احکامات کو ان کے طے شدہ وقت کے مطابق اور آداب کے مطابق یعنی فرائض واجبات اورسنن کی رعایت رکھتے ہوئے کامل طریقے سے پوری کوشش صرف کرکے ادا کرتا ہے اور وقت مقررہ شروع ہو جانے بعد ادا کرنے میں جلدی کرتا ہے اور خدانخواستہ اگر کوئی حکم چھوٹ جائے یا کمی رہ جائے تو اس پہ افسوس کرتا ہے مثلا جماعت کی نماز رہ جانے پہ افسوس کرتا ہے کہ مجھ سے ستائیس گنا ثواب چھوٹ گیا ہے کاش میں جماعت کے ساتھ پڑھ لیتا اور اتنا زیادہ اجر حاصل کر لیتا جیسا کہ مثلا ایک تاجر ہے جونفع کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے اور مختلف شہروں میں جا کر مال خریدتا ہے تاکہ مجھے اچھا نفع ملے اور اپنے ہی شہر میں کسی سودے میں ستائیس گنا نفع مل رہا ہو اور وہ کسی وجہ سے وہ سودا نہ خرید سکے تو افسوس کرتا ہے کہ گھر بیٹھے بٹھائے اتنا زیادہ نفع مل رہا تھا لیکن میں اپنی غفلت کی وجہ سے نہ لے سکا اور تجارت کے نفع کا تو کیا کہنا یہ تو پھر بھی قلیل ہے عارضی ہے لیکن عبادات کا نفع تو دائمی ہونے کے ساتھ ساتھ ہزار ہا ہزار گنا زیادہ بھی ہوتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
قلب مستقیم کے بارے میں باقی بات اگلی پوسٹ میں ہو گی۔
انشااللہ
جاری ہے
Leave a Comment