سعادت اور خوش بختی کیا ہے؟ کس طرح حاصل کیا جائے؟
جیسا کہ پہلے گزر جانے والی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ سعادت اور خوش بختی تین چیزوں کے حاصل ہونے کا نام ہے اول اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ نعمتوں کی وجہ سے اس کا شکریہ ادا کرنے کی عادت کا پختہ ہونا اور دوسری بات ہے اللہ تعالی کی طرف سے آنے والے حالات اور مشکلات پر صبر کرنا اور تیسری بات ہے اگر خدانخواستہ گناہ صادر ہو جائے تو اس پہ توبہ کرنے میں دیر نہ لگانا ۔
اسی نکتے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہوں کہ جس بندے پر اللہ تعالی اپنی مہربانی کرنا چاہے اور اس کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرنے کا ارادہ فرمائے تو اللہ تعالی اس کیلئے عاجزی اور انکساری کا دروازہ کھول دیتے ہیں اور اپنے نفس کی شرارتیں اور دشمنی کو بھانپنے کی تو فیق عطا کر دیتے ہیں اور اپنے رب کے فضل و انعامات اور احسانات کے سامنے سرنگوں ہونے کی ہمت عطا فرما دیتے ہیں ۔
پس اللہ تعالی کو پہچاننے والے عارفین ہمیشہ انہی دو چیزوں کے درمیان چلتے رہتے ہیں کہ ایک طرف تو وہ اپنا محاسبہ کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ اپنےکو اللہ تعالی کے انعامات کے بوجھ تلے دبا ہوا محسوس کرتے ہیں اور جو عارف ہوتا ہے وہ ان دو کے بغیر چل نہیں سکتا اگر ان میں سے ایک چیز بھی وہ مس کرے گا تو اس پرندے کی طرح ہو گا جس کا ایک پر نہ ہو ۔
ایک اور عارف کا کہنا ہے کہ کوئی بھی عارف اللہ تعالی کی طرف معرفت کی منازل طے نہیں کر سکتا جب تک وہ احسانات کے مشاہدہ اور اپنے نفس کی کمیوں اور عیبوں کا مطالعہ نہ کرے ۔
اور اللہ کی شان کہ اس مضمون کی ایک حدیث صحیح سے تائید بھی ہوتی ہے جس کےراوی حضرت بریدہ ؓ ہیں اس حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے ۔
سَیِّدُ الاِستِغْفَارِ اَن یَّقُولَ العَبدُ اَلّٰلھُمَّ اَنتَ رَبِّی لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنتَ خَلَقْتَنِی وَاَنَا عَبْدِکَ وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا استَطَعْتُ اَعُوذُبِکَ مِن شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوءُلَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوءُ بِذَنْبِی فَاغْفِرْلِی اِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ اِلَّااَنْتَ ۔
ترجمہ: اے اللہ تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تونے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے دئیے ہوئے عہد اور وعدےپر قائم ہوں اپنی ہمت اور وسعت کے مطابق اور میں اپنے نفس کے کیئے ہوئے گناہوں کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور تیری ان نعمتوں کا جو میرے اوپر ہیں اقرار کرتا ہوں اور میں اپنے گناہوں کا معترف ہوں پس تو مجھے معاف فرما کیونکہ تیرے علاوہ کوئی بھی معاف کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔
اس حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے اَبُوءُلَکَ بِنِعمَتِکَ عَلَیَّ والے جملے میں احسانات باری تعالی کے استحضار کا ذکر کیا ہے اور اَبُوءُبِذِنبِی میں نفس کی شرارتوں اور کارستانیوں کا ذکر فرمایا ہے ۔
کیونکہ نعمت کا احساس نعمت کرنے والے کی محبت اور حمد و شکر کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور اپنے نفس کے عیوب کا مطالعہ انسان میں عاجزی و انکساری کو پیدا کرتا ہے جس سے توبہ کی توفیق ملتی ہے اور انسان ہر وقت اپنے آپ کونیکی کے معاملے میں ہمیشہ مفلس سمجھتا ہے اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کا یہی قریب ترین دروازہ ہے کہ انسان خود کو ہمیشہ مفلس سمجھے اور خود کیلئے کسی مقام اور مرتبے کو طے نہ کرےکہ اللہ تعالی کے ہاںمیرا یہ مرتبہ ہے بلکہ افلاس اور افتقار کے دروازے سے ہی اللہ کے حضور پیش ہو اور کسی بھی عمل کو اس قابل نہ سمجھے کہ یہ اللہ تعالی کے حضور قابل بھروسہ وسیلہ ہے بلکہ اس طرح پیش ہو جیسے وہ فقیر پیش ہوتا ہے جس کی کمر فقر اور مسکنت نے توڑ کے رکھ دی ہو یہاں تک اس کی تکلیف دل کے اندر تک پہنچ گئی ہو اور یہ ایسی کیفیت پیدا کرے کہ گویا میرے وجود کاایک ایک ذرہ فقیر ہے بلکہ فقر کی انتہا کو پہنچا ہوا ہے اور مجھے اپنے رب کی اتنی شدید ضرورت ہے کہ اگر ایک لمحہ بھی اس سے غافل ہوا تو ہلاک ہو جاؤں گا اور اتنا نقصان ہوگا کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اس کی تلافی نہیں کر پائے گا ۔
بس خلاصہ یہ نکلا کہ اللہ تعالی کا قرب پانے کیلئے دو ہی راستے ہیں نمبر ایک کامل محبت اور نمبر دوکامل ذلت۔
واللہ اعلم
امید ہے کہ قارئین کو یہ ادنی سی کوشش پسند آئیگی اور فائدہ ہوگا
Leave a Comment