گیارہ عورتوں کا قصہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث ام زرع
بخاری شریف میں ایک حدیث ہے جو ام زرع کے نام سے مشہور ہے چنانچہ اماں عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ گیارہ خواتین ایک ساتھ بیٹھیں کہ آج ھم سب اپنے اپنے خاوندوں کے بارے میں گفتگو کریں گی اورآپس میں پختہ عہد کیا کہ کوئی بھی کوئی بات نہیں چھپائے گی
سب سے پہلی عورت نے کہا میرا خاوند ایک لاغر اور کمزور اونٹ کا گوشت ہے وہ بھی ایسا گوشت جو پہاڑ کے اوپر رکھا ہوا ہو نہ راستہ آسان ہے کہ آسانی سے اوپر چڑھا جا سکے اور نہ ہی گوشت اتنا عمدہ اور مزیدار ہے کی اس کیلئے اتنی مشقت برداشت کی جائے اور اس کو اوپر سےلایا جائے
دوسری نے کہا کہ میں اپنے خاوند کی باتیں نہیں پھیلاؤں گی اور بیان نہیں کروں گی مجھے ڈر ہے کہ میں اس کو چھوڑ نہ بیٹھوں ،ہاں اگر تذکرہ کروں گی تو پھر اس کے چھپے ہوئے عیوب بھی کھول کر بیان کروں گی اور بتاؤں گی
تیسری نے کہا کہ میرا شوہر لمبا قد رکھتا ہے اگر میں کوئی بات کروں تو طلاق مل جائے گی اور اگر خاموش رہوں گی تو بیچ میں اٹکی رہوں گی نہ ادھر کی نہ اُدھر کی۔
چوتھی نے کہا میرا خاوند تہامہ [ عرب کی سرزمین دو حصوں میں تقسیم ہے ایک کو اونچا حصہ اور دوسرا نیچا حصہ اونچے حصے کو نجد اور نیچے والے حصے کو تہامہ کہتے ہیں] کی رات کی طرح معتدل اور نرم ہے نہ زیادہ گرم ہے نہ بہت ٹھنڈا ہے نہ اس سے خوف آتا ہے اور نہ اس کے پاس بیٹھنے سے اکتاہٹ ہوتی ہے
پانچویں نے کہا میرا خاوند ایسا ہے کہ جب گھر میں آئے تو چیتا لگتا ہے جب باہر نکلے تو شیر کی طرح محسوس ہوتا ہے اور جو کچھ گھر میں سامان ہوتا ہے اس کی کوئی پروا نہیں کرتا نہ ہی زیادہ پوچھ گچھ کرتا ہے
چھٹی نے کہا کہ میرا خاوند جب کھانے پر آتا ہے تو سب کچھ چٹ کر جاتا اور برتن صاف کر دیتا ہے اور جب پینے پرآتا ہے تو سب کچھ پی جاتا ہے اور برتن میں ایک بوند بھی نہیں چھوڑتا اور جب سونے کیلئے لیٹتا ہے تو اکیلا ہی کپڑا تان کر سو جاتا ہے ہماری طرف ہاتھ بھی نہیں بڑھاتا کہ معلوم ہی کر لے کیا دکھ درد یا تکلیف ہے؟
ساتویں نے کہا میرا شوہرگمراہ ہے یا عاجزسینے کا مضبوط ہے تمام دنیا کی عیوب اس میں موجود ہیں اور ایسا بے قابو کہ سر پھوڑ دے یا زخمی کر دے دونوں ہی ممکن ہیں اس سے
گیارہ عورتوں کا قصہ بہت مزیدار ہے
آٹھویں نے کہا میرا خاوند ایسا ہے کہ چھونے میں ایسا نرم ہے جیسے خرگوش اور اس کی خوشبو ایسی ہے جیسی زرنب کی ہوتی ہے (زرنب اک خوشبودار بوٹی اور گھاس کو کہتے ہیں)
نویں نے کہا میرا خاوند اونچے اونچے ستونوں والا لمبی نیام والا اور بہت زیادہ دینے والا ہے یعنی سخی ہے اس کا گھر دار المشورہ کے قریب ہے (دارالمشورہ یعنی مشورہ کرنے کی جگہ)
دسویں نے کہا کہ میرے خاوند کا نام مالک ہے اور تمھیں پتہ بھی مالک کون ہے وہ ہر تعریف سے بالا تر ہے جو تعریف کسی کے ذہن میں آ سکے وہ اس سے بلند ہے اس کے اونٹ اپنے تھان یعنی باڑے میں تو بہت ہوتے ہیں لیکن صبح چراگاہ میں جانے والے کم ہوتے ہیں اور جب وہ اونٹ ڈھول باجے کی آواز سن لیتے ہیں تو ان کو اپنی ذبح ہو نے کا یقین ہو جاتا ہے(باجے کی آواز سے قافلے کا آنا مراد ہے جب قافلہ کسی بستی کے قریب اترتا ہے تو بستی والے ان کا اکرام کرتے ہیں اوراونٹ ذبح کر کے ان کو کھلاتے ہیں)
گیارہویں نے کہا میرے خاوند کا نام ابوزرع ہے اس نے میرے کانوں کو زیور پہنا پہنا کر بوجھل کر دیا ہے میرے بازوؤں کو چربی سے بھر دیا ہےاور میرے ساتھ اتنا لاڈ پیار کیا ہے کہ مجھے خوش کر دیا ہے چنانچہ میں خوش ہی خوش ہوں۔ اور مجھے اس نے ایسے گھر کے کونے میں پڑا ہوا پایا تھا جس میں صرف چند بکریاں تھیں پھر وہ مجھے ایسے گھر میں لے آیا جس میں گھوڑوں اور کجاوؤں کی آوازیں آتی ہیں اور وہاں کٹی ہوئی کھتی کو گاہنے والے بھی موجود تھےاور اناج کو صاف کرنے والے بھی موجود تھے۔ اس گھر میں جب بولتی ہوں تو کوئی میری بات کو ٹالنے والا نہیں اور جب میں سوتی ہوں تو صبح کر دیتی ہوں کوئی جگانے والا نہیں اور پانی پینے لگوں تو خوب اطمینان کے ساتھ پیتی ہوں۔
رہی بات ابوزرع کی ماں کی تو میں اس کی کیا خوبیاں بیان کروں ؟
اس کا توشہ دان ہروقت بھرا رہتا ہے اور اس کا گھر خوب کھلا تھا
گیارہ عورتوں کا قصہ بہت دلچسپ ہے
ابو زرع کا بیٹا؟تو میں اس کے اوصاف کیا بیان کروں؟ اس کے سونے کی جگہ ہری بھری کھجور کی شاخ سے دو شاخیں نکلنے جیسی تھی یعنی اس کا جسم چست اور چھریرا تھا اور وہ دودھ اتنا سا پیتا تھا جتنا بکری کا چار ماہ کا بچہ پیتا ہے یعنی اس کی خوراک بہت کم تھی۔
اور ابو زرع کی بیٹی؟ تو میں اس بیٹی کی کیا کیا خوبیاں بیان کروں؟کیسے گنواؤں؟
اپنے والد کی انتہائی فرماںبرداراور اتنی موٹی کہ چادر اس کے جسم سے بھر جاتی اپنی سوکن کیلئے حسد و غصہ کا سبب تھی۔
اور ابوزرع کی کنیزتو وہ بھی خوبیوں سے بھری ہوئی تھی ہماری آپس کی باتوں کو ادھر ادھر نہیں پھیلاتی تھی گھر میں رکھی ہوئی چیزوں میں سے کچھ بھی تو نہیں اٹھاتی تھی اور نہ ہی ہمارا گھر گھاس پھونس سے بھرتی تھی یعنی صفائی کا خوب خیال رکھتی ہے۔
پھر ایک دن ایسا ہوا کہ ابوزرع گھر سے ایسے وقت نکلا جب دودھ کو بلویا جا رہا تھا باہر اس نے ایک عورت کو دیکھا جس کے دو بچے تھے اور وہ اس کی کوکھ کے نیچے دو اناروں سےکھیل رہے تھے اس کے بعد اس نے مجھے طلاق دے دی اور اس عورت کے ساتھ نکاح کر لیا ۔میں نے اس کے بعد ایک شریف و بہادر آدمی سے نکا ح کیا جو تیز گھوڑوں پر سوار ہوتا تھا اور اپنے ہاتھ میں نیزہ رکھتا تھا وہ میرے لئے بہت سے چوپائے جانور لایا اورہر ایک میں سے ایک ایک جوڑا لیا اور کہا ام زرع خود بھی اس میں سے کھاؤ اور اپنے رشتہ داروں عزیزواقارب کو بھی دو۔
پھر ام زرع نے کہا کہ جو کچھ اس نے مجھے دیا اگر میں وہ سب کچھ جمع کروں تو بھی ابو زرع کے سب سے چھوٹے برتن کے برابر نہیں ہو سکتا ۔حضرت اماں عائشہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا میں تمھارے لئے ایسا ہوں جیسا ام زرع کیلئے ابوزرع تھا۔
Leave a Comment