قلب مستقیم کیا ہے اور اس کی کیا نشانیاں ہیں؟
حصہ سوم
معزز قارئین بات چل رہی تھی کہ دل کے صراط مستقیم(قلب مستقیم) پہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟اور اس کی علامات کیا ہیں؟ویسے تو دل کے معاملات سے واقف ہونا بظاہر مشکل ہے کیونکہ دلوں کے راز کو تو صرف اللہ تعالی ہی جانتے ہیں البتہ کچھ علامات ہیں جن کے ذریعے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دل کی دنیا کس حال میں ہے۔
قلب مستقیم میں تعظیم ہونے کی نشانی
تو آئیے بات شروع کرتے ہیں کہ جب نماز باجماعت چھوٹ جانے پہ انسان افسوس کا اظہار کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے دل میں تعظیم ہے اوراگر نماز باجماعت کو چھوڑ کر بھی یہ ٹھنڈے مزاج کے ساتھ ہے اور کوئی سرگرمی نہیں دکھاتا تو اس کا مطلب ہے کہ دل میں تعظیم و عظمت نہیں ہے اسی طرح جب اول وقت فوت ہو جائے جو کہ اللہ تعالی کی رضا جوئی کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور صف اول فوت ہو جائے جو کہ فرشتوں کے رحمت ودعا کا سبب ہے خاص طور پہ دائیں طرف والے کہ اگر اس کو معلوم ہو جائے کہ صف اول کا اجر کیا ہے تو حاصل کرنے کیلئے اگر لڑنا بھی پڑے یا اگر قرعہ اندازی کر کے حاصل کرنا پڑے تو یہ حاصل کر کے رہےگا اور اسی طرح جماعت کے افراد کے زیادہ یا کم ہونے کے نتیجہ میں جو اجرو ثواب پر فرق پڑتا ہے یہ اس کے بارے میں بھی فکر مند ہوگا کہ اگر زیادہ افراد پہ مشتمل جماعت چھوٹ جاتی ہے تو اس کو زیادہ رنج اور افسوس ہوگا کیونکہ جماعت میں جتنے زیادہ افراد ہو ں گے اس جماعت میں شامل ہونے والاا سی قدر اللہ تعالی کے قریب ہوگا اورمسجد کے دور ہونے کی وجہ سے جس قدر قدم زیادہ لگیں گے اور مشقت زیادہ ہوگی اسی قدر گناہ کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا سبب ہوگا تو اس کو یہ قدم اٹھانے میں بالکل بھی دقت اور پریشانی نہیں ہوگی کیونکہ نظر مقصود پر ہے اور وہ بڑاعظیم ہے اسی طرح نماز میں اگر خشوع حاصل ہے تو یہ خوش ہوگا اور اگر خشوع کم ہے تو یہ پریشان ہوگا کیونکہ خشوع کے کم ہونے کی وجہ سے بھی عبادت کے اجر و ثواب میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور یہی حال نماز میں اللہ تعالی کے حضور دل کا حاضر اور متوجہ ہونا ہے جتنا حضور قلب میں کمی واقع ہو گی اتنا ہی یہ فکر مند ہوگا کیونکہ خشوع اور خضوع کا درجہ نماز میں روح کی طرح ہے اور خشوع وخضوع کے بغیر نماز ایسے ہوتی جیسے کوئی جسم بغیر روح کے ہوتا ہے جس طرح یہ جسم بے کار ہے اپنے لئےکسی نفع کا بندوبست نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی نقصان سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے تو کیا بندہ یہ گوارا کر لے گا کہ اللہ تعالی کے حضور ایسا تحفہ پیش کرے جس میں جان ہی نہیں صرف ڈھانچہ ہے اگر مثال کے طور پہ کوئی جانور ہدیہ میں دینا ہو تو کم ازکم وہ زندہ تو ہو اگر روح کے بغیر صرف جسم یا ڈھانچہ پیش کیا جائے تو یقینا یہ بے ادبی ہو گی اسی طرح خشوع و خضوع کے بغیر نماز بھی شاید بے ادبی بن جائےکیا کوئی انسان دنیا کے کسی عہدے دار کو ایسا ہدیہ یا تحفہ دینے کی جرأت کرسکتا ہے؟ اور اگر کر لے تو کیا حشر ہو گا اس کا؟لیکن ٹھہرئیے اور اللہ تعالی کا کرم دیکھئیے کہ اس قدر خراب عبادت کے بعد بھی وہ اصل فرض قبول فرما لیتا ہے چنانچہ اس سے یہ نماز نہ پڑھنے کا سوال نہیں ہوگا بلکہ ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنے کا سوال ہوگا وہ بھی اگر ہوا تو۔ ورنہ معافی کا امکان بھی موجود ہے اور اس کی وجہ بظاہر یہ ہے کہ آخرت کے حق میں اجروثواب کا ذریعہ اندر کا اخلاص ہے اور خشوع ہے اسی لیئے تو ایک حدیث کا مفہوم ہے جو مسند امام احمد میں ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا
اِنَّ الْعَبدَ لَیُصَلِّی الصَّلٰوۃَ وَمَا کُتِبَ لَہُ اِلَّانِصْفُھَا اِلَّا ثُلُثُھَا اِلَّارُبْعُھَا اِلَّاخُمْسُھَا حَتّٰی بَلَغَ عُشْرَھَا
ترجمہ: کہ بندہ نماز پڑھ کے فارغ ہوتا ہے تو اس کو نماز کا آدھا ثواب ملتا ہے بعض کو ایک تہائی ملتا ہے بعض کو ایک چوتھائی اور بعض کو پانچواں حصہ ملتا ہے حتی کہ بعض کو مکمل ثواب میں سے صرف دسواں حصہ ملتا ہے اور ثواب میں یہ کمی بیشی نماز میں خشوع اور خضوع کی کمی بیشی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اور یہ بات بھی ذہن میں ہونی چاہئے کہ یہ ثواب کی کمی بیشی صرف نماز کی حد تک نہیں ہے بلکہ یہ فارمولا ہر نیکی میں لا گو ہوتا ہے پس نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالی کے ہاں کسی عمل کے اجر وثواب بڑھنے کی وجہ دل کا اخلاص ہوتا ہے جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی زیادہ اجر ملے گا اور جتنا کم ہوگا اتنا ہی اجر بھی کم ملے گا اور اسی فارمولے کے تحت یہ عمل گناہوں کا کفارہ بھی بنتا ہے کہ جتنا اخلاص اور محبت سے بھرپور ہوگا اتنا کفارہ بھی مضبوط ہوگا اور جتنا اخلاص کم ہوگا اتنا ہی کفارہ بھی کمزور اور کم ہوگا ۔
واللہ اعلم بالصواب
قلب مستقیم کے بارے میں باقی بات اگلی پوسٹ ہو گی
جاری ہے
Leave a Comment