صبر برداشت بہادری
دنیا میں بے مثال اور منفرد لوگ ہمیشہ صبر کو اختیار کر کے اپنے کردار کو مزین کرتے ہیں اور زندگی میں آنے والے حالات اور مصائب کا وسعت صدر سے اور مضبوط قوت ارادی سے سامنا کرتے ہیں اور یوں ہر مشکل سے نکل جاتے ہیں
آپ سوچئے کہ اگر میں اور آپ ایسے وقت میں صبر نہ کریں تو کیا کر سکتے ہیں؟اور کیا کوئی اور راستہ ہے جو اپنایا جائے ؟
کیا صبر کے علاوہ کوئی اور حل ہے؟
اور کیا کوئی اور سرمایا ہے جو ایسے وقت میں کام آئے؟
دنیا میں کئی بڑے بڑے لوگ ایسے دیکھے گئے ہیں کہ ایسا لگتا تھا کہ مصیبتوں نے ان کے آنگن کو اکھاڑا بنا لیا ہے اور آزمائشوں نے ان کو تختہ مشق بنا لیا ہے کہ جب بھی ایک مصیبت اور پریشانی سے نکلتے دوسری ان کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے
لہذا کام کی چیز صرف صبر برداشت بہادری ہے
لیکن ان کا بس ایک ہی کام ہوتا ہے اور وہ صبر کا دامن تھام کے رکھنا اور اللہ تعالی کی ذات پہ مکمل بھرسہ رکھنا بلکہ میں اگر کہوں کہ تما م عالی نسب اور معززین کا طریقہ یہی ہوتا ہے تو غلط نہ ہو گا
حضرت ابوبکرصدیقؓ کا واقعہ
چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایک دفعہ بیمار ہوئے لوگ آپ کی عیادت کیلئے آئے اور کہا اگر اجازت ہو تو ہم کسی ڈاکٹر یا طبیب کو بلا لائیں تاکہ وہ آپ کا معائنہ کرکے کوئی دوا تجویز کر دے
آپ ؓ نے فرمایا کہ میرا طبیب مجھے دیکھ چکا ہے
لوگوں نے تجسس بھرے انداز میں پوچھا کہ پھر اس نے کیاکہا؟
آپ نے جواب دیا کہ میرے طبیب نے مجھے کہا ہے کہ میں
اِنِّی فَعَّالٌ لِّمَااُرِیدُ ہوں
یعنی میں جو چاہوں کر گزرتا ہوں مجھے نہ کسی سے مشورہ کی ضرورت ہے نہ میں کوئی کام کرنے سے عاجز ہوں لہذا جب میرا حکم ہو گا بیماری دور ہو جائے گی
یہ جملہ دراصل قرآن پاک کی ایک آیت سے مستعار ہے جو سورۃ بروج میں یوں ہے
فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیدُ
ترجمہ
اللہ تبارک وتعالی کی ذات جو چاہے کر گزرتی ہے
ایسا نہیں ہے جناب حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے علاج کا انکار کیا ہے بلکہ نقطہ یہ سمجھایا ہے کہ ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالی کا حکم ہو جتنا چاہو علاج کروا لو بالآخر شفا اسی وقت ملے گی جب اللہ تعالی کی مرضی ہو گی
لہذا صبر سے کام لینا ہے اور صبر کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا ہے معلوم ہوا کہ کامیابی صرف صبر برداشت بہادری میں ہے
اور ایسا صبر کرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کی ذات پہ مکمل بھروسہ رکھنے والے کا صبر ہو تا ہے جو سمجھتا ہے کہ کشادگی ضرور آئے گی اگرچہ دیر سے آئے
اور ایسا صبر کرنا ہے جیسا کہ اس انسان کا ہوتا ہے جس کو پورا یقین ہے کہ ایک دن اللہ تعالی کے حضور پیش ہونا ہے اور ہر چیز کا حساب دینا ہے
اور ایسا صبر کرنا ہے جیسا کہ اس بندے کا صبر ہے جس کو مکمل یقین ہے کہ ہر مصیبت کا اجر اللہ تعالی کی طرف سے ملنا ہے
اور ایسا صبر کرنا ہے جیسا کہ اس آدمی کا صبر ہوتا ہے جس کو یقین ہے کہ مصیبتیں گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں لہذا برداشت کرنا بہتر ہے
اور صبر کر! خاص کر اس وقت جب حالات و مصائب پے درپے آ وارد ہوں اور خلاصی کے سارے راستے گھپ اندھیروں میں گم ہو جائیں کیونکہ اس وقت کا صبر ہی مدد و نصرت کے اترنے کا ذریعہ ہوتا ہے اور تنگی کے بعد آسانی کا قانون حرکت میں آتا ہے کیونکہ صبر برداشت بہادری ہی کامیابی ہے
بڑے لوگوں کی سیرت اور حالات زندگی پڑھیں تو انسان کی عقل گم ہو جاتی ہے ان کے صبراور قوت برداشت کو دیکھ کر
اور وہ صبر کا ایسا پہاڑ بن جاتے تھے اور حق پہ ایسے ڈتے رہتے تھے کہ مصائب اور آزمائشوں کو ا پنے اوپر ایسے بنا لیتے تھے جیسے کہ ٹھنڈا پانی ان پہ انڈیلا جا رہا ہو اور وہ لذت محسوس کر رہے ہوں
اور یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے کیونکہ یقینا آزمائش کا وقت بہت تھوڑا ہے زیادہ سے زیادہ اس دنیا کی زندگی میں ہی رہے گا اور عنقریب خوشیوں کی صبح طلوع ہو گی اور راحتوں کی ہلکی دھوپ ان کے چہروں پہ پڑے گی اور فتح کے شادیانے بجیں گے اور نصرت کا زمانہ آئے گا اور اس کا حق دار وہی ہوگا جس نے مردانہ وار مصائب کا سامنا کیا بلکہ چیلنج کرکے مقابلہ کیا
زمین کو اپنے سر پہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں
یہ جملہ عجیب لگتا ہے نا؟آئیے اس کو سمجھتے ہیں
دنیا رنگ برنگی ہے اسی طرح لوگ بھی رنگ برنگے مزاج کے مالک ہیں
چنانچہ کچھ لوگ ایسے حساس یا وہمی مزاج کے ہوتے ہیں کہ دنیا کے ہر مسئلے کی ٹینشن وہ اپنے اوپر سوار کر لیتے ہیں نتیجتا انکے دماغ میں ہر وقت کوئی نہ کوئی عالمی جنگ لگی ہوتی ہے حالانکہ بظاہر وہ بستر پہ لیٹے ہوتے ہیں ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اس مسئلہ سے پھر بھی وہ اپنے اوپر اس کا بو جھ لاد لیتے ہیں
اور پھر کیا ہوتا ہے؟ایسے لوگوں کو اس طرح کی سوچ کے بدلے میں کیا ملتا ہے؟
معدے کی بیماریاں
بلڈ پریشر ہائی ہو گیا کبھی لو ہو گیا
شوگر کی بیماری
ایسے لوگ دنیا میں پیش آنے والے ہرواقعہ پہ جلتے ہیں
کسی چیز کا ریٹ بڑھ جائے تو ان کا غصہ کنٹرول سے باہر ہو جاتا ہے
بارشیں وقت پہ نہ ہوں تو یہ مشتعل ہو جاتے ہیں
مزدوری کم ہو جائے تو چیخ وپکار کرتے ہیں
بلکہ ایسے لوگ ہمیشہ تکلیف اور دائمی افسوس میں رہتے ہیں لہذا صبر برداشت بہادری سے کا م لیں
یہاں قرآن پاک کی ایک آیت بڑی فٹ آتی ہے اگرچہ اصل میں وہ منافقین کا حال بیان کرتی ہے لیکن ایسے لوگوں کی ترجمانی بھی ہو جاتی ہے
یَحسَبُونَ کُلَّ صَیحَۃٍ عَلَیھِم
ترجمہ! کہ یہ منافق لوگ ہر چیخ و پکار کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں
مطلب یہ کہ ہر آہٹ پہ چوکنا ہو جاتے ہیں کہیں ہمارا راز تو نہیں کھل گیا
اسی طرح حساس لوگ بھی زمانے بھر کی مصیبت ٹینشن کو اپنی ٹینشن بنا لیتے ہیں اور کڑھتے رہتے ہیں اور اپنا نقصان کر لیتے ہیں
میں آپ کو نصیحت اور گزارش کروں گا کہ تم زمین وآسمان کو اپنے سر پہ نہ اٹھاؤ جیسے اس کا نظام چل رہا ہے چلنے دو اور زمانہ کے حوادثات کو زمین پر ہی رہنے دو اپنے سر پہ سوار نہ کرو
کیونکہ بعض لوگوں کے پاس فوم جیسا چوسنے والا دل ہوتا ہے اور وہ دنیا میں پیش آنے والی ہر افواہ کو اپنے اندر چوس کر جذب کر لیتے ہیں اور پھر اس پہ تلملاتے رہتے ہیں اور گھبراتے رہتے ہیں اور سیخ پا ہوتے رہتے ہیں اور یقین مانیں ایسا دل رکھنے والا لکھ لے کہ ایک وقت آئے گا اور یہ ان دکھوں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے گا اور اپنی ہستی کو فنا کر لے گا
جبکہ مضبوط بنیادوں والے لوگ ایسے واقعات سے عبرت اور نصیحت پکڑتے ہیں جس سے ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے
اس کے برعکس جو لوگ پست ہمت ہوتے ہیں وہ ایسے زلزلوں اور مصائب سے مزید پریشان ہو جاتے ہیں اور ان کا خوف مزید بڑھ جاتا ہے
حالانکہ مصائب اور حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے بہادر دل زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے پس جو آگے بڑھ کر ان کا سامنا کرتا ہے اس کا سینہ وسیع ہو جاتا ہے دل مضبوط ہو جاتا ہے یقین اور پختہ ہو جاتا ہے اعصاب ٹھنڈے رہتے ہیں
اور جو بزدل اور کمزور دل ہوتا ہے وہ اپنے نفس کو دن میں کئی مرتبہ توقعات امیدوں افواہوں اور خوابوں کی چھری سے ذبح کرتا ہے
لہذا اگر تم ایک صحت مند زندگی چاہتے ہو تو اس طرح کے حالات کا جوانمردی سے سامنا کرو جیسا کہ ارشاد باری تعالی میں اس کی طرف راہنمائی موجود ہے
َفَاصبِر اِنَّ وَعَدَا للہِ حَقٌّ وَلَا یَستَخِفَّنَّکَ الَّذِینَ لَا یُوقِنُون
ترجمہ ۔لہذا اے پیغمبر تم صبر سے کام لو یقین جانو اللہ تعالی کا وعدہ سچا ہے اور ایسا ہر گز نہ ہونا چاہئے کہ جو لوگ یقین نہیں کرتے ان کی وجہ سے تم ڈھیلے پڑ جاؤ
تشریح ۔مطلب یہ ہے آپ دعوت حق کا کام کرتے رہیں اور اگر لوگوں کی طرف سے بے رخی ہو تو نا امید نہ ہوں اور دعوت کاکام نہ چھوڑیں اور یہ یقین رکھیں کہ صبر کرنے والے کی مدد اللہ تعالی ضرور کرتے ہیں اور جن کا ایمان کمزور ہے اور یقین ضعیف ہے اور صبر کا مادہ کم ہے ان کو دیکھ کرآپ ہر گز ڈھیلے نہ ہوں بلکہ اپنا کام جاری رکھیں
دوسری آیت
َوَاصبِرْ وَمَا صَبرُکَ اِلَّا بِاللہِ وَلَا تَحزَنْ عَلَیھِم وَلَاتَکُ فِی ضَیقٍ مِّمَّا یَمکُرُون
ترجمہ ۔اے پیغمبر تم صبر سے کام لو اور تمھارا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے اور ان (کافروں ) پہ صدمہ نہ کرو اور جو مکاریاں یہ لوگ کر رہے ہیں ان کی وجہ سے تنگ دل نہ ہو
تشریح ۔ اللہ کے رسول ﷺ کو دعوت خلق میں پیش آنے والی تکالیف پہ صبر کا حکم ہے کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالی کی مدد کا نزول ہوگا
اور اگر دعوت کے نتیجے میں ان کے طرف سے کوئی دل چسپی نظر نہ آئے تو غمگین نہ ہوں کیونکہ غم کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہے
اور ان کی چالوں اور مکاریوں سے دل گرفتہ نہ ہوں کیونکہ ان کی چالبازیاں اور مکاریاں انہیں کے اوپر پلٹ دی جائیں گی اور ان کا نقصان خود انکو اٹھانا پڑے گا
واللہ اعلم بالصواب
Leave a Comment