سچ کی طاقت اور گمراہی سے بچنے کی ہمت
ایک انتہائی مزیدار اور عبرت انگیز قصہ
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا
اِنَّ الصِّدقَ یُنْجِی وَالکِذْبَ َیُھلِکُ
ترجمہ :بے شک سچ نجات دیتا ہے اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔
یعنی بظاہر بھلے ایسا لگے کہ سچ نے ڈبو دیا ہے یا نقصان کر دیا ہے لیکن انجام کے اعتبار سے بالآخر سچ ہی نجات کا سبب بنتا ہے اس سے آپ سچ کی طاقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور بھلے وقتی طور پہ ایسا لگے کہ جھوٹ نے بچا لیا ہے لیکن آخر کار انجام کو دیکھتے ہوئے یہ بات لازم ہے کہ جھوٹ تباہی کا ذریعہ بنتا ہے اور جو قوم یا فرد جھوٹ کا عادی ہوتا ہے وہ دنیا میں ترقی نہیں کر سکتا۔
آج اگر آپ کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہیں کہ جھوٹ کیسے برباد کرتا ہے تو اک نظر مسلمانوں کی زبوں حالی پر ڈال لیں ۔
مسلمانوں پر؟ جی ہاں آپ نے صحیح سمجھا ہے اگر آپ سچے دل سے مخلص ہو کر مسلم معاشرے کی تباہی و بربادی کے اسباب پر غور کریں گے تو آپ برملا تسلیم کریں گے کہ مسلمانوں کی تباہی کی داستان میں ایک بہت بڑی داستان ہے مسلمانوں کا سچ کو چھوڑ دینا یعنی مجموعی طور پر ایک معاشرے کے طور پہ ہم سچ نہیں بولتے بلکہ جھوٹ کا غلبہ ہے۔
الا ماشاءاللہ
یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں کا اجتماعی اعتبار ختم ہو چکا ہے جس کا ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے ہم نے اور غضب اس وقت ہو گیا جب اہل باطل کا پروپیگنڈہ بھی ساتھ شامل ہو گیا اور یوں مسلمان ناقابل اعتبار ہوتا گیا۔
خیر تمہیدی بات لمبی ہو گئی۔ اب سچ کی طاقت پر ایک اہم قصہ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
:سچ کی طاقت ایک قصہ
جو کہ یوں ہے ایک مسلم نوجواں ایک بین الاقوامی کمپنی جو کہ لوگوں کو گارڈ مہیا کرتی تھی اس میں ملازمت کرنے کی خاطر انٹرویو دینے گیا ۔وہاں کئی اور امیدوار بھی آئے ہوئے تھے جن میں مسلم و غیر مسلم دونوں شامل تھے۔چنانچہ باری باری وہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوتےاور جب بھی کوئی اندر سے باہر آتا تو باہر والے اس سے پوچھتے تھے کہ کیا کیا سوالات ہو رہے ہیں؟ وہ بتاتے تھے کہ یہ یہ سوال پوچھے جارہے ہیں۔
باہر والوں نے نوٹ کیا کہ جو بھی آ کر بتاتا ہے وہ یہ ضرور بتاتا ہے کہ کمپنی والے ذاتی زندگی کے بارے جب پوچھتے ہیں تو بالخصوص شراب نوشی کے بارے میں بہت تاکید سے پو چھتے ہیں اور ان کے انداز سے ایسا لگتا ہے کہ ان کو وہ امیدوار چاہئے جو ہلکی پھلکی شراب نوشی کرتا ہو۔
جب امیدواروں کو یہ اندازہ ہوا تو جو بھی اندر جاتا وہ شراب نوشی کا اقرار کر لیتا اس لالچ میں کہ شاید اسے یہ ملازمت مل جائے۔جب اس نوجون کی باری آئی تو دیگر سوالوں کے بعد انہوں نے پو چھا کہ آپ دن میں کتنے گلاس شراب پیتے ہیں ؟
پہلے تو اسے یہ خیال آیا کہ کہہ دوں تھوڑی بہت پیتا ہوں تاکہ ملازمت مل جائے اور یہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ میں ایک متشدد مسلمان ہوں لیکن پھر اسے خیال آیا کہ نہیں میں نے سچ بولنا چاہے ملازمت ملے یا نہ ملے چنانچہ اس نے سچ کہ دیا کہ میں شراب نہیں پیتا ہوں۔
اس پرکمپنی والوں نے پوچھا کیوں نہیں پیتے؟ آپ بیمار ہیں ؟ اس نے کہا نہیں بیمار نہیں ہوں لیکن میں مسلمان ہوں اور مسلمان پر شراب حرام ہوتی ہے۔
انہوں نے پھر پوچھا کہ آپ ہفتہ میں ایک دفعہ بھی نہیں پیتے؟ اس نے جی بالکل نہیں پیتا ۔
وہ بڑے حیران ہوئے کہ کیسا نوجوان ہے ؟
جب انٹرویو کا رزلٹ آیا تو اس نوجوان کا نام ملازمت ملنے والوں میں سب سے ٹاپ پر تھا۔
وہ بہت حیران ہوا خیر ملازمت شروع ہو گئی اور کئی ماہ گزر گئے۔ایک دن انٹرویو لینے والوں میں سے ایک سے اس کا سامنا ہو گیا تو اس نے اس پوچھا کہ آپ لوگ شراب نوشی کے بارے بار بار سوال کیوں کر رہے تھے؟
اس نے جواب دیا کہ ہمیں ضرورت تھی گارڈ کی اور جب بھی ہم کسی نوجوان کو کہیں گارڈ کی نو کری کیلئے بھیجتے ہیں تو ہمیں اس کی ڈیوٹی میں سستی کرنے کی شکایت آتی جب تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلتا وہ شراب نوشی کرتا ہے۔ اگرچہ کبھی کبھی کرتا ہے لیکن اس کے اثرات اس پہ ہوتے ہیں اس لئے وہ صحیح طرح سے ڈیوٹی ادا نہیں کر پاتا اس طرح ایک تو اس کی ملازمت چلی جاتی اور دوسرا ہماری کمپنی سے اعتماد اٹھتا تھا۔ اس لئے جب ہم نے آپ کو دیکھا کہ شراب نوشی بالکل نہیں کرتے ہو تو آپ کو اس ملازمت کیلئے منتخب کیا گیا۔
:سبق
اس واقعہ سے سبق یہ ملا کہ ہر حال میں اپنی بنیادوں پہ قائم رہنا چاہئے بے شک معاشرہ اور ما حول ان بنیادوں سے ہٹانے کی کوشش کرے۔
جب تم اپنی بنیادی تربیت پرچلو گے تو تمھیں دوسری جانب سے ایسے لوگ ضرور مل جائیں گے جو آپ کی طرح بنیادی تربیت پہ یقین رکھتے ہوں گے۔
ہاں البتہ جو لوگ ان باتوں سے ناواقف یا نابلد یا بے عمل ہوں گے وہ ضرور آپ کی مخالفت کریں گے جیسا کہ ہو سکتا ہے آپ کا رشوت نہ لینا آپ کے رشوت خور ساتھیوں کو اچھا نہ لگے اسی طرح آپ کا زنا سے اپنے کو محفوظ رکھنا زنا میں مبتلا لو گوں کو اچھا نہ لگے بلکہ ہو سکتا آپ کی پاک دامنی ان کو غصہ میں مبتلا کردے لیکن ان باتوں کی پروا کئے بغیر حق کا راستہ اختیار کرنا ہے۔
:ایک اورقصہ
حضرت عمرؓ ایک بار رات کو پہرے کا گشت کر رہے تھے کہ انہوں نے ایک گھر سے شور شرابہ کی آواز سنی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شراب وغیرہ پی جا رہی ہے حضرت عمرؓ کو دیوار پھلانگ کر اندر جانا اچھا نہ لگا تو انہوں نے ایک کوئلہ لے کر اس گھر کے دروازے پر نشان لگا دیا تاکہ اس کی پہچان رہے۔
لیکن گھر کے مالک کو اس بات کا پتہ چل گیا کہ یہ معاملہ ہو گیا ہے چنانچہ اس نے ایک کوئلہ لیا اور آس پاس کے کئی دروازوں پہ وہی نشان بنا دیا جو حضرت عمرؓ نے اس کے دروازے پہ بنایا تھا تاکہ سارے گھر ایک جیسے لگیں اور اس کا گھر پہچانا نہ جائے۔
اب یہ اس کی اپنی سوچ تھی کہ اس نے باقی گھروں کو بھی نشان لگا کر اپنے جیسا ثابت کرنے کی کوشش کی حالانکہ اگر وہ صرف اپنے گھر کا نشان مٹا دیتا تو بھی کافی تھا لیکن اس نے ان جیسا بننے کی بجائے ان کو اپنے جیسا بنانے کی کوشش کی یعنی بجائے اس کے اپنا مرتبہ بلند کرتا اور دوسروں جیسا دکھتا اسے یہ زیادہ مناسب لگا کہ دوسروں کواپنے جیسا بنا ڈالے۔
اسی طرح جو عورت زنا میں مبتلا ہوتی ہے اس کی کوشش ہوتی ہے دوسری بھی اس جیسی ہو جائیں حالانکہ اصل یہ ہے کہ خود کو اوروں جیسی پاک دامن بنائے لیکن اس کو اس کی جگہ یہ اچھا لگتا ہے کہ دوسری بھی اس جیسی بن جائیں۔
اسی طرح اگر کوئی جھوٹ بولنے کا عادی ہے اور لوگ اس کو سمجھائیں کہ جھوٹ نہ بولا کر تو وہ جھوٹ چھوڑنے کی بجائے یہ زیادہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس جیسے جھوٹ بولنے والے بن جائیں۔
بلکہ یہ سلسلہ قدیم سے چلا آ رہا ہے حتی کہ کفار ومشرکین آنحضرت ﷺ کی بات ماننے کی بجائے یہ کوشش کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ ان کی بعض باتیں مان لیں ۔
یعنی خود تو کسی بنیاد پر نہیں تھے اور بتوں کی عبادت بغیر کسی معتبر دلیل کے کرتے تھے اور اب توحید جس کے درجنوں بنیادی اور ٹھوس دلائل ہیں ان کو تسلیم کرکے اللہ تعالی کی عبادت میں لگنے کی بجائے کہتے تھے کہ آپ ہمارے ساتھ معاہدہ کر لیں کہ آپ ہمارے معبودوں کو برا بھلا نہ کہیں اور ہم آپ کے معبود کو برا بھلا نہیں کہیں گے۔
خلاصہ یہ نکلا کہ پہلے مضبوط بنیادیں تلاش کریں اور پھر اس پر جم جائیں آگے اللہ مالک ہے وہ کرم کرے گا۔
واللہ اعلم
Leave a Comment