سبق آموز باتیں قصے

زندگی کی حقیقت اشعار کے آئینےمیں

زندگی کی حقیقت

کے بارے میں کچھ اشعار اور ان کی تشریح

بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان چندا شعار سے اتنا کچھ سمجھ جاتا ہے کہ نثر میں اس کو سمجھنے کیلئے لمبے چوڑے مضامین کی ضرورت ہو تی ہے  اور ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ بعض اشعار سیدھے جا کے دل پر اثر انداز ہوتے ہیں  اور دل ان سے اتنا اثر قبول کر لیتا ہے کہ بندے کا کام بن جاتا ہے  آئیے آج کی اس پوسٹ میں زندگی کی حقیقت کے متعلق چند اشعار کا ذکر کرکے ان کی تشریح کرتے ہیں شاید کسی دل پر چوٹ لگ جائے اور  وہ اپنا مقصد حیات سمجھ جائے

کَم بِنَاءً بَنَینَا نَحنُ اَھْلُ مَنازِلٍ

اَبَدًا غُرَابُ البَینِ فِیھا یَنْعَقُ

تشریح:کتنے ہی گھر ہیں بلڈنگیں اور کو ٹھیاں بنگلے ہیں ؟جن کو ہم نے یا ہمارے بڑوں نے بڑے شوق سے بنایا تھا کہ ہم اس میں رہیں گے اور مزے کریں گے  لیکن آج  ان کا یہ  حال ہے کہ ان میں جدائی کے کوے کائیں کائیں کرتے پھر رہے ہیں یعنی آج ان بنگلوں میں کوئی رہنے والا نہیں ہے وہ ویران پڑے ہیں اور مختلف پرندے اور خاص کر کوے ان میں  رہتے ہیں

نَبْکِی عَلٰی الدُّنیَا وَمَا مِن مَعشَرٍ

جَمَعَتْھُمُ الدُّنْیا فَلَم یَتفَرَّقُوا

تشریح:ہمارا یہ حال ہے کہ ہم دنیوی   مال و اسباب کو نہ پاکر روتے رہتے ہیں  کبھی اس چیز کا غم تو کبھی اس چیز کا غم  اور یہ کبھی نہ سوچا کہ دنیا کی زندگی کا تو مزاج ہی یہ ہے کہ یہ جس چیز کو بھی جمع کرتی ہے  وہ فنا ہو جاتی ہے اگر اس بات کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا ہو تو ان لوگوں کو دیکھ لیجئے جو ایک زمانہ میں جمع تھے  لیکن آج وہ الگ الگ ہو گئے یا تو خود سے یا پھر موت نے ان کو علیحدہ کر دیا

اَینَ الجَبَابِرَۃُ الاَکَاسِرَۃُ الاُلٰی

کَنَزُوا الکُنُوزَ فَلَا بَقِینَ وَلَا بَقُوا

تشریح:چنانچہ غور کریں کہ کہاں ہیں وہ ظالم اور جابر  بادشاہ  ؟جن کا بڑا دبدبہ اور رعب تھا  اور اپنے زمانے کے بڑے حملہ آور تھے اور بڑے بڑے خزانوں کے مالک تھے  اور اپنے خزانوں کی حفاظت کیلئے ان کو زمین میں گاڑ کر رکھتے تھے یا بڑے بڑے تہ  خانوں میں چھپا کر رکھتے تھے وہ آج کہاں ہیں ؟

آج حال یہ ہے کہ نہ  وہ خود رہے اور نہ ہی ان کے خزانے رہے بلکہ سب کے سب فنا کے گھاٹ اتر گئے

جب وہ نہیں رہے تو سوچ تو کیسے رہے گا؟

اور تیرے پاس کون سی ایسی خصوصیت ہے کہ جوانجام ان کا ہوا ہے وہ تیرا نہیں ہو گا؟

مِن کُلِّ مَن ضَاقَ الفَضَاءُ بِعَیشِہِ

حَتّٰی ثَوٰی فَحْوَاہُ لَحَدٌّ ضَیِّقٌ

تشریح:اس جہان میں ہر ایک کی حد مقرر ہے جن کے منصوبے کامیاب ہوجائیں انکی بھی اور جن کے منصوبے ناکامی سے دو چار ہو جائیں ان کی بھی 

چنانچہ جب وقت مقرر مکمل ہو جائے اور طے شدہ حد ختم ہو جائے تو کسی بھی قسم کی مہلت کے بغیر اس کو یہاں سے جانا پڑتا ہے

خُرْسٌ اِذَا نُودُوا کَأَن لَّم یَعلَمُوا

اِنَّ الکلَامَ لَھُم حَلَالٌ مُطلَقٌ

تشریح:اور آج وہ اس قدر گونگے ہو چکے ہیں کہ جب ان کو پکارا جائے تو بالکل بھی جواب نہیں ملتا ایسا لگتا ہے ان کو اس بات کا پتہ ہی نہیں ہے کہ کبھی ان کیلئے بولنا بھی حلال تھا

حالانکہ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے ان پر کہ اگر وہ بولنا شروع کردیتے تو کسی کو ان کے سامنے بولنے یا بات کرنے کی ہمت نہ ہو تی

 اس مضمون کے چند اور اشعار جو زندگی کی حقیقت کو بیان کرنے میں بالکل اسی طرح ہیں 

حُکمُ المَنیَّۃِ فِی البَرِیَّۃِ جَارٍی

مَاھٰذِہِ الدُّنیَا بدَارِقَرَارٍ

تشریح۔۔اس  دنیا میں بسنے والی تمام کی تمام مخلوق پہ موت کا فیصلہ ہو چکا ہے جس سے کسی ایک فرد اور ذی روح چیز کو کسی بھی قسم کا کوئی بھی استثناء نہیں ملے گا   بلکہ یہ اٹل فیصلہ ہے

اور اس دنیا میں رہنے والی مخلوق تو درکنار اس دنیا ہی کو بقا نہیں ہے تو اس میں بسنے والے کو بقا کیسے نصیب ہو سکتی ہے  اور کوئی سمجھتا ہے کہ اس نے باقی رہنا ہے تو یہ مجنونانہ خیال کے سوا کچھ نہیں

بَینَما تَرٰی الاِنسانَ فِیھَا مُخبِرًا

اَلْفَیتَہُ خَبَرًا مِنَ الاَخبَارِ

تشریح : کبھی کبھی ایسا عجیب اتفاق بھی ہوتا ہے کہ جو زمانے بھر کی خبریں اور حالات لو گوں تک پہنچاتا ہے وہ خود ایک دن خبر بن جاتا ہے  اور خبر بھی نارمل سی بس ایک عام سی خبر

نہ کوئی بھونچال آتا ہے اور نہ ہی کوئی ارتعاش پیدا ہوتا ہے  اور نہ اگلے دن کسی کو معلوم ہوتا ہے کہ کل گزشتہ کیا خبر تھی؟

 اور کس کے بارے میں تھی ؟

اور وہ کون تھا؟

جبکہ زندگی اور اقتدار کے دنوں میں ایسا لگ رہا ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ زمانے کی سانسیں چل رہی ہیں

کیا ہی خوبصورت اور عبرت ناک طریقہ سے زندگی کی حقیقت سمجھائی ہے کیا اس کے بعد بھی کوئی کسر باقی رہ گئی؟

طُبعَتْ علٰی کَدَرٍ واَنت تُریدُھَا

صَفوًا مِنَ الاَقذَارِ وَالاَکدَارِ

تشریح:یہ  دنیا اپنی طبیعت میں میلی کچیلی اور مکدر مزاج کی ہے نا خالص ہے اور تم چاہتے ہو کہ تمھیں یہ میل کچیل اور گندگی سے صاف ستھری ملے

تو آپ خود سوچیں کہ جو چیز اپنی پیدائش سے ہی نا خالص اور دھوکے پر مشتمل ہو وہ تمھارے حق میں کیسے صاف ہو سکتی ہے؟اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ اس کی گندگی سے بچ جائیگا  تو وہ اپنے آپ کو فریب دیتا ہے اور بس

ومُکلِّفُ الاَیَّامِ ضِدَّ طبَاعِھَا

مُتَطَلِّبٌ فِی المَاءِ جَذوَۃَ نَارٍ

تشریح:اور جو کوئی بھی دنوں  سےیعنی دنیا سے اس کے مزاج کے خلاف  فائدہ حا صل کرنے کی امید رکھتا ہے  اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کی پیدائشی فطرت کے برعکس اس سے مستفید ہو سکتا ہے  وہ ایسے ہی بیوقوف اور احمق سمجھا جائیگا جیسا کہ وہ بیوقوف اور احمق ہو تا ہے جو پانی کی تہ میں آگ کی چنگاری کو ڈھونڈھنا چاہے  

بھلا اس کو کون عقلمند کہے گا؟

واِذَا رَجَوتَ المُستَحِیلَ فَاِنَّمَا

تَبْنِی الرَّجَاءَ عَلٰی شَفیرٍ ھَارٍ

تشریح :اور جب تم  ناممکن اور محال شئی کو حاصل کرنے کی امید رکھو گے تو تمھاری مثال اس آدمی کی سی ہو گی جو دریا کے کسی گرتے ہوئے کنارے پر اپنے مکان کی بنیاد رکھ دے 

حالانکہ مکان کی تعمیر کیلئے مناسب اور سخت جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے کیونکہ مکان کی تعمیر پر بہت سارے اخراجات آتے ہیں

اس کی بجائے جو دریائی کنارے پہ (جو کسی بھی وقت گرسکتا ہے ) اپنے مکان کی بنیاد رکھے گا وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی دولت کو نقصان پہنچائے گا

وَالعَیشُ نَومٌ وَالمَنِیَّۃُ یَقْظَۃٌ

وَالمَرْءُ بَینَھُمَا خَیالٌ سَارٍی

تشریح:زندگی اک نیند کی مانند ہے اور موت اس نیند سے بیداری کا نام ہے جیسا کہ  کسی اللہ والے کا کہنا ہے کہ سارے لوگ نشے میں ہیں اور یہ نشہ تب اترے گا جب موت کا بلاوہ آ جائے گا لیکن اس وقت کا بیدار ہونا کام نہیں آئے گا

زندگی اور موت کی اس کشمکش کے بیچ میں ایک آنے والے خیال کا نام بندہ ہے یعنی بندہ بس اس خیال کی طرح ہے جوان دونوں کے درمیانی وقفہ میں آتا ہے 

ظاہر ہے ایسے خیال کی عمر بہت کم ہوتی ہے  بس معلوم ہوا کہ یہ زندگی بہت مختصر ہے

فَاقْضُوا مَآرِبَکُم عُجَالًا اِنَّمَا

اَعمَارُکُم سَفَرٌ مِنَ الاَسْفَارِ

تشریح: پس تم جلدی جلدی اپنی حاجات اور ضروریات کو پورا کر لو کیونکہ یہ زندگی  سفروں کی مانند ایک سفر ہے

اور جیسے سفر میں مختلف منازل آتی ہیں سرائیں آتی ہیں جہاں مسافر ٹھہرتے ہیں اور اپنی ضروریات کو جلدی سے پورا کر کے آگے چل دیتے ہیں

یہی حال اس زندگی کا ہےاور یہی ہے اس زندگی کی حقیقت تو جلدی سے توشہ لے لیں کہیں زندگی کے اختتام کا نقارہ  نہ بج اٹھے

وتَرَکَّضُوا خَیلَ الشَّبَابِ وَبَادِرُوا

اَنْ تُسْتَرَدَّ فَاِنَّھُنَّ عَوَارٍ

تشریح: بس جوانی کے گھوڑے پر سوار ہو جائیں اور خوب دوڑائیں  کہیں ایسا نہ ہو عاریت پہ دیا مال واپس مانگ لیا جائے

مطلب کہ ایک تو جوانی کی عمر میں تیاری کرنی ہوتی ہے اگلے جہان کی کیو نکہ جوانی  میں ہمت اور طاقت اپنے عروج پہ ہوتی ہے 

اور دوسری بات یہ ہے کہ جوانی مستقل آپ کےپاس  نہیں رہنی بلکہ کچھ وقت کیلئے آپ کو عاریتا دی گئی ہے بس فائدہ اٹھا لیں ورنہ بہت جلد یہ واپس لے لی جائیگی  اور بڑھاپا چڑھ دوڑے گا اور اسوقت حسرت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئیگا 

لَیسَ الزَّمَانُ وَاِنْ حَرصْتَ مُسَالِمًا

طَبعُ الزَّمَانِ عَدَاوَۃُ الاَحْرَارِ

تشریح: زمانے  یعنی زندگی کی ہزار منتیں کرلیں  ترلے کرلیں پر اس سے تیری صلح نہیں ہو سکتی کیونکہ شریف طبع لوگوں سے دشمنی اس  کی سرشت میں ہے

مطلب کہ تم اس زندگی پہ جتنی مرضی محنت کر لو جتنا چاہے زور لگا لو لیکن یہ رک نہیں سکتی  اس نے جانا ہی جانا ہے  کیونکہ جو اس کو بچانے کے چکر میں ہوتا ہے اس سے قدرے جلدی کھسک جانا اس کی فطرت میں ہے

واللہ اعلم بالصواب

Leave a Comment