خوشی ایک بڑی نعمت
کیا آپ جانتے ہیں کہ خوشی حاصل کرنا ایک فن ہے اور یہ فن آپ بھی سیکھ سکتے ہیں ؟
نہیں جانتے؟ تو آئیے میرے ساتھ اس پوسٹ میں
اس میں ہم اس فن کے بارے بات کرنے والے ہیں
کہا جاتا ہے کہ انسان کیلئے سب سے بڑی نعمت دل کا سرور اور خوشی ہے اور دل کا اس خوشی پہ جمنا اور قبول کرنا ہے کیونکہ دل کے سرور اور خوشی میں ذہن کی پختگی اور نفس کی رونق ہے
اور عقلمند لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ خوشی اور سرور محنت کر کے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ سیکھا بھی جا سکتا ہے کہ ایک استاد خوش رہنے کے طریقے پڑھائے اور لوگ طالب علم بن کر ان کو سیکھیں اور حاصل کریں
پس جس نے بھی خوش رہنے کا فن سیکھ لیا اور یہ جان لیا کہ کیسے خوش رہا جا سکتا ہے ؟
اور کیسے اس کو حاصل کیا جاسکتا ہے؟
درحقیقت اس نے زندگی جینے کا مزہ پالیا اور خوشیوں کے راز جان لئے اور زندگی میں آگے پیچھے آنے والی نعمتوں سے واقف ہو گیا
چنانچہ اس میں جو سب سے
بڑا ضابطہ اور قانون ہے
وہ ہے قوت برداشت کا حاصل ہونا لہذا اگر کچھ مصائب پیش آ جائیں تو اپنے عزم میں لچک پیدا نہ ہو نے دے اور ذرا سے حوادث کے سامنے سرنڈر نہ کرے اور مسائل اور حالات کی وجہ سے دل برداشتہ نہ ہو گھبرائے نہیں بے چین نہ ہو بلکہ جتنی زیادہ دل میں قوت اور پاکیزگی ہوگی اتنی ہی زیادہ بصیرت کا نور دل میں پیدا ہو گا
کیونکہ ایسے موقع پہ اگر طبیعت کمزور ہو اور مزاحمت سست پڑ جائے اور نفس جزع فزع اور ہائے وائے کرنے لگ جائے تو پھر مصیبتوں اور پریشانیوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں اور انسان ان کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے اس کے برعکس جو انسان اپنے آپ پہ قابو رکھتا ہے اور اپنے نفس کو صبر کا عادی بناتا ہے اوراستقامت کی طرف کھینچ کر لاتا ہے اس پر یہ حالات اور پریشانیاں زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکتیں
جیسا کہ کسی شاعر نے کہا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
جب کسی نوجوان بہادر کو موت کی سختیوں میں گھسنا آ جائے
تو پھر وہ زندگی میں آنے والی چھوٹی موٹی پریشانیوں کو بڑی آسانی سے جھیل جایا کرتا ہے
اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خوشی اور سرور کا دشمن ہے معلومات کا یا سیاحت کا کم ہونا اور قوت استدلال کا کمزور ہونا اور اپنے ہی نفس کی چاہتوں کو پورا کرنے میں لگا رہنا اور دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اس سے دور رہنا بلکہ بھول جانا اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص دنیا کو اپنے اندر ہی دیکھتا ہے بس اور اپنے سے باہر جھانکتا تک نہیں اور نہ ہی اپنے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچتا ہے اور نہ اپنی زندگی میں کسی اور کا کوئی حصہ تسلیم کرتا ہے
ہم سب پہ لازم ہے کہ کبھی کبھار اپنے آپ سے باہر نکلیں اور اپنی ذات سے دور ہٹ کر سوچیں اور غور وفکر کریں اور ماضی کے زخموں اور غموں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اس سے ہمیں دو فائدے ہو سکتے ہیں
ایک اپنے آپ کو فائدہ پہنچانا
اور دوسرا اوروں کو فائدہ پہنچانا
اور خوشیاں حاصل کرنے کا
دوسرا اصول
یہ ہے کہ اپنے حالات و خیالات غموں پریشانیوں کو لگام ڈال کے رکھنا کہ کہیں وہ آپ سے چھوٹ کر دور نہ چلی جائیں کیونکہ اگر یونہی وہ آپ سے دور ہوتی رہیں تو جمع ہوتی رہیں گی یوں سمجھیں کہ ایک پیالے میں بھر کر چھلک جائیں گی اور پھر کئی گنا زیادہ ہو کر واپس آپ کی طرف آئیں گی اور آپ کو یوم پیدائش کے زمانے سے لیکر آج تک کے سارے دکھ یاد کرائیں گی کیونکہ غم جب آوارہ اور بے قابو ہو جائیں تو ماضی اور مستقبل قریب کے سارے احوال خیالات کی صورت میں آپ پر مسلط ہو جائیں گے اس سے آپ کا وجود ان کی تپش سے جل سا جائیگا
لہذا بہتر یہی ہے کہ اپنی سوچ اور فکر کو کسی اچھی اور گہری چیز میں لگائے رکھیں اور نتیجہ خیز معاملے میں مصروف رکھیں
تیسرا اصول
یہ ہے کہ زندگی کو اس کی قیمت ادا کریں اور زندگی کو اس مرتبہ میں رکھیں جو اس کا بنتا ہے پس یہ سمجھ لیں کہ زندگی ایک کھیل ےتماشہ ہے اس لحاظ سے اسے نظر انداز کرنا بہتر ہے زیادہ سیریس نہ لیں کیونکہ زندگی کا اصل سبق جدائی ہے بلکہ یوں سمجھ لیں کہ یہ جدائی کی ماں ہے اور حوادث کو دودھ پلا کر بڑا کرتی ہے اور مصائب کو کھینچ کر لاتی ہے
جس زندگی کا یہ حال ہو اس کو کیسے اتنی اہمیت دے دی جائے ؟
اور اگر کوئی ٹارگٹ حاصل نہ ہو تو کیوں اس کا اتنا غم لیا جائے؟
جبکہ اس دنیا کا صاف ستھرا مال بھی میلا ہوتا ہے
اور اور خوب گرجنے والا بادل بھی برستا نہیں
اور اس کے وعدے صرف سراب ثابت ہوں
اور جو اس میں پیدا ہوا ہے اس کا مر جانا طے ہو
سرداری مل جائے تو حاسد پیدا ہو جاتے ہیں
نعمتیں مل جائیں تو ڈرانے دھمکانے والے آ جاتے ہیں
اور جو اس سے عشق کرے اس کو دھوکہ دے کر مار ڈالتی ہے
خوشی ایک بڑی نعمت
خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ کسی کے بس میں یہ بات نہیں ہے کو وہ اپنی زندگی کو تما م غموں سے آزاد کر لے کیونکہ زندگی نام ہی غموں کا ہے غم پریشانی اس کی بنیاد میں ہے جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا فرمان ہے
لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِی کَبَدٍ
ترجمہ
انسان کو مشقتوں میں جکڑ کر پیدا کیا گیا ہے
اور دوسری جگہ ارشاد ہے
لِیَبْلُوَکُم اَیُّکُم اَحْسَنُ عَمَلاً
ترجمہ
زندگی دینے کا مقصد ہی یہ ہے کہ تمھیں آزمایا جائے کہ کون اپنے وعدے پہ پورا اترتا ہے؟
لہذا یہ ممکن نہیں کہ غم ختم ہو جائیں
ہاں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ غم ہلکے ہو جائیں اور کوشش کرکے ہلکا کر لینا چاہیے اسی کوشش میں لگے رہیں حتی کہ زندگی کا خاتمہ ہو جائے
پھر اگر اعمال اچھے ہوئے تو ایسا گھر یعنی جنت ملے گی جس میں کسی قسم کا کوئی غم نہیں ہو گا جیسا کہ ارشاد باری ہے
اَلحَمْدُ لِلہِ الَّذِی اَذْھَبَ عَنَّا الحَزْنَ
ترجمہ
تعریفوں کے لائق صرف وہی ذات ہے جس نے ہمارے سارے غم دور کر دیئے
اس سے معلوم ہوا کہ اس سے پہلے غم ختم ہونا ممکن نہیں جیسا کہ حسد بغض کینہ کا اس سے پہلے ختم ہو جانا ممکن نہیں
چنانچہ اس آیت میں غور کریں
وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِھِم مِن غِلٍ
ترجمہ
اور ہم نے ان اہل جنت کے دلوں سے ہر قسم کا کینہ اور بغض نکال دیا ہے
اور جنت اگلے جہان میں ہے یہ وہیں ہو گا
اس جہان میں اسی طرح گزارہ کرنا ہو گا
واللہ اعلم
خوشی ایک بڑی نعمت
Leave a Comment