دلچسپ واقعات و حکایات

(تابط شرا (حصہ دوم

تابط شرا (حصہ دوم) چنانچہ تابط شرا گیا اور پاس پہنچ کر دیکھا کہ اس آگ کے پاس عرب کے دومشہور ڈاکو بیٹھے ہیں

تابط شرا

حصہ دوم

اللہ تعالی کی ذات و بابرکات نے اپنی اشرف المخلوقات حضرت انسان میں عجیب و غریب کمالات اور خوبیاں رکھی ہیں جبکہ ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ انسان میں کچھ عیوب بھی ہیں نہ تو کوئی انسان محض خوبیوں کا مجموعہ ہے اور نہ کوئی صرف خطاؤں سے لبریز ہےبلکہ دونوں قسم کی صفات موجود ہیں ہاں البتہ بعض میں کوئی چیز غالب ہے اور بعض میں کوئی اور چیزبعض بہادری میں میں بے مثل ہیں تو بعض بزدلی میں ضرب المثل ہیں۔

بعض اعلی درجہ کی ذہانت پہ فائز ہیں تو بعض دوسرے بلادت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے  بعض لوگ اعلی درجے کے چلاک ہوشیار اور باتدبیر ہوتے ہیں اور ان کے مقابلے میں دیگر بعض بالکل ہی سادہ ہو تے ہیں۔

ایسے ہی ایک عرب تاریخ کے چالاک آدمی کے سفر کا حال اس پوسٹ میں بیان کرتے ہیں جس کا پہلا حصہ پوسٹ نمبر ۴۹ میں بیان ہو چکا ہے یہ اس کا دوسرا حصہ ہے۔

:چنانچہ بلا تاخیر شروع کرتے ہیں

ابو کبیرہذلی ایک عرب شاعر ہے اور اس کا اصل نام عامر بن حلیس ہے یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے تابط شرا یعنی ثابت بن جابر بن سفیان کی والدہ سے شادی کر لی جبکہ یہ موصوف ابھی بچپنے میں تھے۔

جب تابط شرا نے دیکھا کہ میرا اس کی والدہ کے پاس آنا جانا ہے کثرت سے تو اس کو بہت ناگوار گزراابو کبیر کہتے ہیں کہ میں نے بھانپ لیا کہ اس بچے کو میرا یہاں آنا گراں گزرتا ہےیہ سلسلہ چلتا رہا حتی کہ وہ لڑکا یعنی تابط شرا جوان ہو گیا ۔

ابو کبیر کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے اس کی والدہ سے کہا یہ لڑکا میرے دل میں کھٹکتا ہے اور میں اس کی طرف سے خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہوں لہذا آئندہ میں تیرے پاس نہیں آؤں گا۔

اس کی والدہ نے کہا کہ اگر کوئی بندوبست کر سکتے ہو تو کر لو اور اس سے پیچھا چھڑا لو۔

ابوکبیر نے ایک دن اس سے کہا اے جوان تمھیں جہاد یا غزوہ میں کوئی دل چسپی نہیں ؟اس نے جواب دیا کیوں نہیں بالکل ہے۔تب میں نے اس سے کہا چل پھر چلتے ہیں۔

چنانچہ ہم نکلے اور ہمارے پاس کوئی زاد راہ نہیں تھا یعنی کوئی کھانے پینے کی چیز ہمارے ساتھ نہیں تھی اور ہم مسلسل دو دن اور دو راتیں چلتے رہے۔

جب ابو کبیر کو احساس ہوا کہ نوجوان کو بہت زیادہ بھوک لگ گئی ہو گی تو اسی شام دشمن قوم کے قریب پڑاؤ ڈالا اورجب دور سے ان لوگوں کی آگ کو جلتا ہوا دیکھا تو اس نوجوان سےکہا ک ہمیں خوب بھوک لگی ہوئی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ تم  ان لوگوں کے پاس  جاؤ اور ان سے کچھ کھانے کیلئے لے آؤ۔

(مقصد یہ تھا کہ یہ نوجوان ہے جب ان کے پاس جائے گا تو زندہ واپس نہیں آئیگا)

جواب میں مجھے اس نوجوان نے غصہ سے دیکھا اور کہا تیرا ناس ہو یہ کون سا ٹائم ہے بھوک لگنے کا؟ مطلب یہ کہ تمھیں اتنی جلدی بھوک لگ گئی ؟

میں نے کہا بچے مجھے تو بھوک لگی ہے لہذا تم جاؤ اور کھانا لاؤ ۔

چنانچہ تابط شرا گیا اور پاس پہنچ کر دیکھا کہ اس آگ کے پاس عرب کے دومشہور ڈاکو بیٹھے ہیں  تو وہ سمجھ گیا  کہ  ابو کبیر نے        مجھے کیوں بھیجا ہے یعنی وہ چاہتا کہ میں مارا جاؤں ۔پھر وہ مزید آگے گیا  تو ان ڈاکوؤں نے دیکھ لیا اور دیکھتے ہی اس پر حملہ کر دیا۔

تابط شرا بجلی کی سی تیزی سے واپس پلٹا اور دوڑا وہ دونوں بھی اس کے پیچھے پیچھے دوڑے جب اس نے محسوس کیا کہ ان میں سے ایک میرے بالکل قریب پہنچ گیا ہے تو فورا  سےپہلے  پلٹ کر اس پہ حملہ کیا اور اس کو قتل کردیا۔

پہلے کوقتل کرتے ہی دوسرے کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے پہلے وہ کچھ سمجھے وار کر کے اس کو بھی قتل کر دیا۔

دونوں کے قتل سے فارغ ہو کر ان کی آگ کے پاس آیا وہاں روٹی وغیرہ جو موجود تھا اٹھایا اور جا کر ابو کبیر کو دے دیا کہ یہ لو کھاؤ  تیرا تو پیٹ ہی نہیں بھرتا  اور حیرت کی بات یہ ہے کہ خود اس نےکچھ بھی نہیں کھایا۔

ابو کبیر کہتے ہیں کہ میں نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ تم نے یہ کیسے کیا ؟اس نے جواب دیا کھانے سے کام رکھو اور سوال وغیرہ نہ پو چھو  یہ کہتے ہیں کہ میں تو اس سے ڈر گیا میرے دل میں خوف پیدا ہو گیا اور اس کی ہیبت چھا گئی۔

رات گزرنے کے بعد اگلی صبح میں نے پھر پوچھا بتاؤ تو یہ کیسے ہوا؟ اس نے مجھے بتایا تو میں اور زیادہ ڈر گیا۔

اس کے بعد ہم غزوہ میں شامل ہوئے اور مال غنیمت میں اونٹ حاصل کئے اور تین دن قیام کیا اور ہر رات اس سے کہتا کہ پہرے کیلئے تم پسند کرو۔

رات کا پہلا حصہ کروگے یا دوسرا حصہ ؟جو حصہ تم کرو گے میں سو جاؤں گا اور جو میں کروں گا اس میں تم سو جانا۔

اس نے پہلا حصہ اختیار کیا  اور وہ پہرا دیتا جبکہ میں سو جاتا اور آخری پہر میں میں پہرا دیتا وہ سو جاتا  ۔

طے تو یہی کیا تھا لیکن ابو کبیر ساری رات سوتے رہتے پہلی آدھی رات کو اپنی باری کی وجہ سے اور آخری رات کو جب تابط شرا سو جاتا تو یہ بھی سو جاتے۔تین دن ایسے ہی گزر گئے ۔جب چوتھی رات آئی تو  وہ نوجوان اپنی باری آنے پہ سو گیا۔

ادھر ابو کبیر نے یہ سمجھا کہ بچے پر نیند کا غلبہ ہو گیا ہے کیونکہ نصف اول میں اس نے پہرہ دیا ہے اب نصف ثانی ہے تو یقینا نیند میں مغلوب ہو گا  لہذا اب میرے پاس موقع ہے کہ میں اس کا کام تمام کردوں۔

لیکن چیک کرنے کیلئے ابو کبیر نے ایک چھوٹی سی کنکری اٹھائی اوراس پر پھینکی جیسے کنکری اس کو لگی وہ یکدم اٹھ کے  سیدھا بیٹھ گیا  اور پوچھا یہ آواز کس چیز کی ہے ؟

میں نے کہا پتہ نہیں ایسے لگتا ہے جیسے اونٹوں کے پیچھے سے آئی ہے وہ اٹھا اور ادھر ادھر چکر لگایا  گشت کیا لیکن کچھ بھی نظر نہ آیا تو واپس آ کر سو گیا۔

پھر جب مجھے لگا کہ گہری نیند میں چلا گیا ہے تو میں نے پہلے سے چھوٹی کنکری اٹھا کر اس کی طرف پھینکی   وہ کنکری کے گرنے کی آواز سے اسی طرح اٹھ کے سیدھا بیٹھ گیا جیسا کہ پہلی دفعہ بیٹھا تھا اور پوچھا کہ یہ آواز کی کیسی تھی؟ میں نے کہا شاید اونٹوں کے پچھلی طرف سے  کوئی آواز آئی  ہو گی۔

وہ پھر اٹھا گشت کیا ادھر ادھر چکر لگایا جب کچھ بھی نظر نہ آیا تو کر سو گیا۔

جب مجھے پھر سے خیال آیا کہ اب تو پکا سو گیا ہوگا اور نیند کا غلبہ بھی یقینی ہے کیونکہ تقریبا ساری رات گزر گئی پر وہ سویا نہیں تھا لہذا اب کی بار مجھے یقین تھا کہ نیند غالب آگئی ہو گی۔

تو میں نے پہلی دونوں بار سے بھی چھوٹی کنکری اٹھائی اور اس کی طرف پھینکی میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ وہ ایسے ہی اٹھ کھڑا ہوا جیسے پہلی دو بار میں ہوا تھا۔

اور اٹھتے ہی پوچھا کہ یہ آواز کہاں سے آئی ہے؟ میں نے کہا مجھے نہیں پتہ میں نے بھی آپ کی طرح سنی ہے بس ہو سکتا ہے کسی اونٹ نے کوئی حرکت کی ہو جس سے یہ آواز پیدا ہو گئی ہو۔

وہ اٹھا اور دائیں بائیں چکر لگا کر پھر سو گیا۔

مجھے نہ جانے کیا سوجھی کہ میں چوتھی بار سب سے چھوٹی کنکری اٹھائی اور اس کی طرف پھینک دی وہ ایسے ہی  کود کر اٹھا جیسے پہلےکود کر اٹھتا تھا اور ادھر ادھر کا چکر لگا کر واپس آیا اور کہا او فلانے مجھے آپ سے کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا ہے اللہ کی قسم اگر اب یہ آواز آئی تو میں تیرا سر قلم کر دوں گا۔

ابو کبیر کہتے ہیں میں نے خدا خدا کر کے وہ رات ساری جاگ کر گزاری مجھے یہ ڈر تھا کہ خدانخواستہ کہیں سے کوئی آواز پیدا ہو گئی تو میری خیر نہیں۔

جب صبح  ہوئی تو واپسی کا سفر شروع ہوا اور گھر پہنچ کر میں نے اس کی والدہ سے کہا میں آئندہ کبھی بھی تیرے قریب نہیں آؤں گا ۔

اس طرح اس عجیب و غریب قصے کا اختتام ہوا۔

امید ہے کہ آپ کو یہ پسند آئیگا اور آپ کی معلومات میں اضافہ ہوگا۔

واللہ اعلم

Leave a Comment