بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
اونٹ کی فضیلت
اللہ تعالی نے قرآن میں ارشاد فرمایا ۔
اَفَلَایَنظُرُونَ اِلَی الاِبِلِ کَیفَ خُلِقَتْ
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالی نے ترغیب دی ہےکہ اونٹ کی تخلیق میں غوروفکر کرویہ بڑے عجیب انداز میں بنایا گیا ہےاور اس کا ڈھانچہ منفرد ہےکیونکہ یہ قوی اور طاقت ور ہونے کے باوجود بوجھ اٹھانے کیلئےنرم مزاج ہے اور کمزور سے کمزور مالک کا بھی فرمانبردار ہےاس کا گوشت کھایا جاتا ہے اور کھال بال سے نفع اٹھایا جاتا ہےدودھ پیا جاتا ہے۔
اسکے علاوہ بھی متعدد مقامات پر قرآن پاک میں مختلف انداز سے اونٹ کا ذکر آیا ہے جس سےاسکی اہمیت وفضیلت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
اور حدیث پاک میں بھی اونٹ کا ذکر کثرت سے ملتا ہے چنانچہ ابن ماجہ کی ایک روایت میں آتا ہے کہ ( اَلِابِلُ عِزٌّلِاَھلِھَا)
یعنی اونٹ اپنے مالکوں کیلئے عزت اور شرف کا ذریعہ ہے کیونکہ انسان کی(خصوصاعرب) کی عزت وقدر لوگوں میں مال کے ذریعہ سے ہوتی ہے اور عرب کے ہاں اونٹ بہترین اموال میں شمار ہوتا ہےاور جس کے پاس اونٹ ہوتے ہیں وہ لوگوں کا محتاج نہیں رہتا بلکہ اونٹ ان کو غربت وتنگ دستی سے نکال دیتے ہیں کیونکہ اونٹوں پر تجارت ہوتی ہےسامان ایک جگہ سے دوسری جگہ آتا جاتا رہتا ہےجس کے نتیجے میں اونٹ والے ہمیشہ عزت وشرافت کی زندگی گزارتے ہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے
کہ اونٹوں کو برا بھلا نہ کہا کرو کیونکہ یہ خون ریزی روکنے والے ہیں ،یا قوموں کے درمیان صلح کرانے والےہیں اور شریف یعنی عزت دار آدمی کا مہر ہیں
مطلب یہ ہے کہ قتل وغیرہ کی صورت میں اونٹوں کو دیت یعنی خون بہا میں دیا جاتا ہےجس سے خون ریزی بند ہو جاتی ہےاور قاتل بھی اونٹوں کے ذریعہ اپنی جان بچا سکتا ہے
یا اگر قوموں میں لڑائی وغیرہ ہو جاتی ہے تو جنگ بندی کے تاوان میں بھی اونٹ دیے جاتے ہیں (البتہ بعض حضرات نے اس کے حدیث ہونے کا انکار کیا ہے)اور صحیحین یعنی مسلم اور بخاری شریف کی روایت ہے(حضرت ابو موسی اشعری ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا قرآن پاک کی خبرگیری کرتے رہو یعنی اسکی تلاوت کرتے رہوقسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمدﷺکی جان ہے قرآن سینوں سے اس طرح جلدی نکل جاتا ہے جس طرح ا ونٹ اپنی رسی سے نکل جاتا ہے اگر وہ کھل جائے تو)
اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن پڑھنے والے کی مثال بندھے ہوئے اونٹ کی طرح ہےاگر تو مالک اچھی طرح خیال کرے گا تو وہ بندھا رہے گا اور اگر وہ خبرگیری میں کمی کرے گا تو اونٹ بھاگ جائےگااسی طرح اگر حافظ قرآن تلاوت کرتا رہتا ہے تو قرآن یاد رہتا ہے اور اگر تلاوت چھوڑ دے گا تو قرآن بھول جائےگااور سینے سے نکل جائے گا۔
اونٹ کو عربی میں ابل ،جمل،بعیرکہتے ہیں
بعض عرب اونٹ کو نبات اللیل (رات کے وقت کام آنے والا) بھی کہتے ہیں۔
اونٹنی جب بوڑھی ہو جائے تو اسے (شارف) کہتے ہیں
دو کوہان والے اونٹ کو (عوامل )بھی کہتے ہیں
غرضیکہ اونٹ ایک عجیب وغریب جانور ہے مگر چونکہ یہ عام ہے تقریبا ہر جگہ پایا جاتا ہے اس لئے ہمیں یہ عجیب نہیں لگتاکیونکہ انسان کی عادت ہے جو چیز سامنے ہو موجود ہو دستیاب ہو اس کی یہ پرواہ نہیں کرتا اور غوروفکر کی بجائے عام سی چیز سمجھ کر نظرانداز کر دیتا ہے۔
اونٹ کی معلومات: اونٹ کی خصوصیات
اونٹ ایک بڑے جسم والا جانور ہے اور بھاری بھرکم سامان اٹھا کر بلا تکلف کھڑا ہو جاتا ہے اور بیٹھ بھی جاتا ہےاور فرمانبردار اتنا کہ اگر چوہے جیسی چھوٹی سی چیز کو بھی لگام پکڑا دیں تو یہ نافرمانی نہیں کرتا بلکہ جہاںوہ لے جانا چاہے چلا جاتا ہے اور اسکی پشت اتنی وسیع و کشادہ ہوتی ہے کہ انسان اپنی کھانے پینے کی ضروری چیزیں و برتن حتی کہ گدا تکیہ کپڑے وغیرہ ساتھ رکھ کر بھی سفر کر سکتا ہے اور بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان اپنے گھر میں بیٹھا ہوا ہے غالبا اسی لئے تو اس کی پیدائش میں غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے۔
اونٹ کی معلومات: اونٹ کے نام
عربوں کے ہاں اونٹ چونکہ بہت اچھا مال سمجھا جاتا ہےاور اہل عرب کو خصوصی لگاؤ ہے اس لئے اونٹ میں پائی جانے والی مختلف صفات کےلحاظ سے خاص خاص نام ہیں مثلا
اَلعِیسُ۔ جو اونٹ سخت مزاج ہوتے ہیں یا شدت زیادہ پائی جائے ان کوکہتے ہیں
اَلشَّمْلَالُ۔ جو اونٹ ہلکا پھلکا جسم رکھتے ہوں ان کو کہتے ہیں
اَلیَعْمَلَۃُ۔ کام کرنے والے اونٹوں کو کہتے ہیں
اَلنَّاجِیَۃُ۔ جواونٹ تیز رفتار ہوں ان کو کہتے ہیں
اَلعَوجَاءُ۔ سخت اور چھریرے بدن والے اونٹوں کو کہتے ہیں
اَلشَّمَرْدَلَۃُ۔ لمبے بدن والے اونٹوں کو کہتے ہیں
اَلھِجَانُ۔ عمدہ اور اچھی قسم کے اونٹوں کو کہتے ہیں
اَلکَوْمَاءُ۔ بڑی بڑی کوہان والی اونٹنیوں کو کہتے ہیں۔
اَلحَرفُ۔ دبلی پتلی اور سخت جسم والی اونٹنی کو کہتے ہیں
اَلقَودَاءُ۔ لمبی گردن والی اونٹنی کو کہتے ہیں
اَلشَّملِیلُ۔ تیز رفتار اونٹنی کوکہتے ہیں
لمبی گردن کا راز
گردن کا لمبا ہونا ہی تو کمال ہے یہی تو اس کو دوسروں سے نمایاں کرتی ہےاسی کی وجہ سے بوجھ اٹھانا اور اٹھا کر کھڑا ہو جاناممکن ہوتا ہےاور اس جسامت کے ساتھ بنانے میں قدرت کا ارادہ ہی یہ نظر آتا ہےکہ یہ خشکی کی کشتی بن سکے کیونکہ یہ خشکی میں ایسے چلتا ہے جیسے پانی میں کشتی چلتی ہے اسی طرف اشارہ ملتا ہے قرآن پاک کی اس آیت میں
وَعَلَیھاوَعَلٰی الفُلکِ تُحمَلُونَ
اور تم ان پر(یعنی اونٹوں پر)بھی اور کشتیوں پربھی لدے لدے پھرتے ہو۔
مشہور ومعروف شخصیت قاضی شریح ؒ سے سفر میں مشہور تابعی سعید بن مسیبؒ نےپوچھا کہاں کا ارادہ ہے کہاں جا رہے ؟
انہوں نے جواب دیا میں کوفہ شہر کے ایک دیہات میں جا رہا ہوں تاکہ وہاں اونٹوں میں غورو فکر کر سکوں کہ اللہ تعالی نے کیسی عجیب مخلوق بنائی ہے
اونٹ کی معلومات: اونٹ کاغصہ
اونٹ کا غصہ اور کینہ مشہور ہےچناچہ جب یہ غصہ ہوتا ہے تو اس وقت یہ کسی کی پروا نہیں کرتا انتہائی بد اخلاق ہو جاتا ہے منہ سے جھاگ نکالتا ہے بلبلانا شروع کردیتا ہے چارہ کم کھاتا ہے بعض ماہرین کہتے ہیں کہ غصہ میں اونٹ اپنے پیٹ سے ایک سرخ رنگ کی کھال نکالتا ہے اور اس مین پھونک مار کر پھلاتا رہتا ہے جس سے مزید خوفناک لگتا ہےاسی پس منظر میں حضرت علیؓ نے فرمایا جو خطیب بتکلف خطابت دکھاتا ہے وہ شیطان کی جھاگ کی طرح ہے حضرت علیؓ نے غضبناک اونٹ کی جھاگ سے تشبیہ دی ہے ایسے خطیب کو۔
اونٹ کی معلومات: اونٹ کی عادات
اونٹ پورے سال میں صرف ایک بار جفتی کرتا ہےیعنی ایک دفعہ اونٹنی کوحاملہ کرتا ہے لیکن اس کی جفتی دیر پا ہوتی ہے اور بار بار انزال ہوتا ہےاسلئے جفتی سے فراغت کے بعد کچھ سست اور کمزور سا ہوجاتا ہے
اونٹنی تین سال میں میں حاملہ ہونے کے قابل ہو جاتی ہے
ماہرین کے مطابق اونٹ غصیلہ اور کینہ پرور ہونے حملہ آوری کی صلاحیت کے باوجود انتہائی صبرو تحمل کا مالک ہوتا ہے
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اونٹ اپنی ماں پر جفتی کیلئے نہیں چڑھتا اور اگر کوئی دھوکہ دہی سے ایسا کرے تو یہ اس سے بدلہ لیتا ہے
اونٹ میں پِتَّہ نہیں ہوتا شاید اسی وجہ سے اس میں صبروتحمل اور برداشت کی بے پنا ہ قوت ہوتی ہے
اونٹ کانٹے دار جھاڑیوں کو بڑے مزے سے کھاتا ہے اور ہضم بھی کرتا ہے جس میں اس کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی کیونکہ اس کی انتڑیاں انتہائی مضبوط ہوتی ہیں۔
Leave a Comment