انسان کی تخلیق کیسے ہوئی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حصہ اول
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں میں ارشاد فرمایا ہے
وَفِی اَنْفُسِکُم اَفَلَا تُبصِرُونَ
ترجمہ :اور تمہارے اپنے وجود میں بھی بہت ساری نشانیاں ہیں کیا پھر بھی تمھیں دکھائی نہیں دیتا؟
حضرت قتادہ ؒ اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں جو بھی اپنی پیدائش میں غوروفکر کرے گا وہ پہچان جائے گا کہ اس کو پیدا کیا گیا ہے اور اس کا جسم اللہ تعالی کی عبادت کیلئے نرم ہو جائے گا یعنی اس کے لئے عبادت کرنا بالکل آسان ہو جائے گا۔
تو آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ انسان کن کن مراحل سے گزر کر وجود میں آتا ہے؟
انسان کی تخلیق کیسے ہوئ؟اور کتنی مشکل ہے؟
اس سے پہلے یہ بات سمجھ لیجئے کی انسان کی پیدائش کے مختلف مراحل کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے اور سائنسی علوم میں بھی ہے البتہ دونوں کے مقصد میں بڑا فرق ہے اس فرق کو سمجھنے کیلئے ہم یوں مثال بیان کر سکتے ہیں کہ ایک قصاب بھی کسی جانور مثلا بیل کو سر سے پیر تک غور سے دیکھتا ہے اور ڈاکٹر بھی غور سے دیکھتا ہے لیکن مقصد الگ الگ ہے قصاب کا مقصد گوشت کا جائزہ لینا ہے لہذا وہ گوشت کا اندازہ لگائے گا اور ڈاکٹر کا مقصد اس بیمار جانور کی بیماری کیلئے کوئی مناسب دوا تجویز کرنا ہے لہذا ڈاکٹر یہ دیکھے گا کہ اس بیماری میں کون سی دوا مفید ہے ؟؟جس سے اس کو اس تکلیف سے چھٹکارہ مل جائے ،اسی طرح قرآن پاک جب انسان اور کائنات کا ذکر کرتا ہے تومقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان ان چیزوں میں غور کر کے اپنا مقصد حیات پہچانے اور اپنے خالق ومالک کو پہچان کر اس کے بتلائے ہوئے روشن اصولوں پر چلتے ہوئے اس کی اطاعت اوراس کی مخلوق کی بھلائی اور خدمت میں مشغول ہو کر ہمیشہ کا سکون اور راحت حاصل کرے،جبکہ سائنس ان تخلیقی مراحل کا ذکر تو کرسکتی ہے اور کرتی بھی ہے لیکن جب یہ پوچھا جائے کہ وہ کون سی طاقت ہے جو ان تمام مراحل سے گزار کر ایک جیتا جاگتا انسان بنا دیتی ہےاور دنیا میں لے آتی ہے اور کس مقصد کیلئے لایا جاتا ہے ؟
تو آپ حیران ہوں گے کہ سائنس کی تمام لیبارٹیاں چھان ماریں یا موٹی موٹی بھاری بھرکم کتابوں پر مشتمل بڑی بڑی لائبریریاں پڑھ ڈالیں آپ کو اس سوال کا جواب نہیں ملے گا بلکہ ایک طویل سناٹا نظر آئے گا ۔۔۔۔
انسان کی تخلیق کیسے ہوئی؟ آئیں دیکھتے ہیں قرآن کی روشنی میں
تخلیق کی ابتداء
مٹی میں جب پانی کی نمی شامل ہوتی ہے اور مٹی نم ہو جائے تو بیج ترقی کرتے ہوئے درختوں اور پودوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور زمین میں موجود بے شمار عناصر یعنی کاربن،لوہا،آکسیجن،کیلشیم وغیرہ میٹھی ترش سبزیوں اورپھلوں کا روپ دھار لیتے ہیں پھر یہی عناصر غذا کی شکل میں منہ کے راستہ سے ہو کر بذریعہ معدہ انسان کے خون اور گوشت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں پھر انہی غذاؤں کا جوہر نکل کر باپ کے جسم میں منی کے قطرے کی شکل میں تیار ہو جاتا ہے اور اسی سے اک نئے انسان کے دنیا میں آنے کا سامان ہوجاتا ہے ،اسی طرف اشارہ ہے اس آیت میں
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الِانْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِنْ طِینٍ
ترجمہ: اور ہم نے انسان کومٹی کے جوہر سے پیدا کیا ہے
سب سے پہلے انسان(آدم) کا مٹی سے بننا تو واضح ہے باقی انسان بھی اس مادے سے پیدا ہوتے ہیں جوزمین سے اگنے والی غذاؤں سے ہی بنتا ہے اور اپنا وقت مقرر پورا کرکے واپس اسی مٹی ہی میں شامل ہوجاتا ہے ،جدید سائنسی علوم کے مطابق انسان کے جسم اور مٹی کے اجزائےترکیبی میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے اسی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے
مِنْھَا خَلَقْنٰکُم وَفِیھَا نُعیِدُکُم وَمِنْھَا نُخْرِجُکُم تَارَۃً اُخْرٰی
ترجمہ: اور اسی زمین سے ہم نے تمھیں پیدا کیا تھا اسی میں ہم تمھیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے ایک مرتبہ پھر تمھیں نکال لائیں گے
اور مٹی چونکہ پانی کے بغیر پیداوار نہیں دے سکتی ااسی لئے انسان کے جسم میں بھی اچھا خاصا پانی ہوتا ہے یہی مضمون بتا رہی ہے یہ آیت
فَلْیَنْظُرِ الِانْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِن مَّاءٍ دَافِقٍ
ترجمہ: انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اسےکس چیز سےپیدا کیا گیا؟ اسے ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے
آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ایک صحت مند انسان کے جسم سے صرف ایک بار خارج ہونے والی منی کے قطرات میں چار سے پانچ کروڑ ذرات ہوتےہیں جو اولاد کا ذریعہ بن سکتے ہیں لیکن اللہ تعالی کی قدرت دیکھیئے کہ کہ ان میں سے صرف ایک ذرہ انڈے میں داخل ہو کر انسان بنتا ہے اور باقی کے سارے ذرات تحلیل ہو جاتے ہیں یہ مضمون اس آیت سے آشکارہ ہوتا ہے یوں ہوتی ہے انسان کی تخلیق
ثُمَّ جَعَلْنٰہُ فِی قَرَارٍمَکِینٍ
ترجمہ :پھر اسےایک بوند یعنی نطفہ کی شکل میں ایک محفوظ مقام (یعنی رحم مادر) میں جگہ دی
اس کے بعد یہ مخلوط مادہ ماں کے رحم میں چمٹ سا جاتا ہے کچھ ہی دنوں میں یہ گاڑھا سا مادہ بن جاتا ہے اسی کو علقہ کہتے ہیں جس کا ذکر اس آیت میں ہے
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً
ترجمہ:پھر ہم نے نطفہ کو جمے ہوئے خون کی شکل دی
پھر یہ نطفہ بڑھتے بڑھتے ایک بوٹی کی سی شکل اختیار کر لیتا ہے اس آیت میں غور کریں
فَخَلَقْنَا العَلَقَۃَ مُضْغَۃً
ترجمہ: پھر ہم اس جمے ہوئے خون کو ایک لوتھڑا بنا دیتے ہیں
پھر اس لوتھڑے کو ھڈی میں تبدیل کر دیتے ہیں پھر ھڈیوں پر گوشت چڑھا دیتے ہیں تم ۔اس کو یوں سمجھو جیسےایک ماہر مجسمہ سازپہلے پانی اور مٹی کا گارا تیار کرتا ہے پھر اس گارے سے مٹی کا گول مٹول گولا سا بناتا ہے پھر اس گولے کوبہت احتیاط سے آہستہ آہستہ ایک خوبصورت سی گڑیا وغیرہ میں تبدیل کر دیتا ہے اسی طرح خالق کائنات کے حکم سے یہ بوٹی آہستہ آہستہ یہ بوٹی خوبصورت انسانی پیکر کی شکل اختیار کر لیتی ہے
ھُوَالَّذِی یُصَوِّرُکُم فِی الاَرحَامِ کَیفَ یشَاءُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِیزُ الحَکِیم
ترجمہ: وہی ہے جومان کے پیٹ میں جس طرح چاہتا ہے تمھاری صورتیں بناتا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زبردست اقتدار کابھی مالک ہے اعلی درجے کی حکمت کا بھی
ان مشکل مراحل سے گزر کرانسان کی تخلیق ہوئی
آپ اپنی پیدائش میں اگر غور کریں کہ کس طرح ماں کے پیٹ میٹ میں پرورش پائی ہے اور کس طرح تیری شکل و صورت اربوں انسانوں سے بالکل الگ اور مختلف ہے کہ کبھی بھی دو انسان سوفیصد ایک جیسے نہیں ہوئے تو تجھے یہ تسلیم کرنے میں ذرہ بھی دیر نہ لگے کہ یہ سب کچھ خدائے وحدہ کی قدرت اوعر حکمت کے تحت ہو رہا ہے چنانچہ اس آیت میں یہ حقیقت بیان کرکے اللہ تعالی کے وجود اس کی وحدانیت اور حکمت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے اور ساتھ ساتھ نصاری کے اس عقیدے کی بھی تردید ہے کہ عیسٰی علیہ الصلاۃ والسلام اللہ کے بیٹے ہیں کیونکہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر انسان کی ہر طرح کی صورت گری اللہ تعالی ہی فرماتے ہیں خواہ اس کیلئے عام رائج طریقہ استعمال کیا جائے جیسا کہ ہر ایک کو باپ کے ذریعے سے پیدا کرنا ،یا معمول سے ہٹ کر کسی خاص طریقے سے بنائے جیسا کہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کو بغیر باپ کے محض اپنی قدرت سے پیدا کیا وہ کسی خاص اصول کا پابند نہیں ہے جو چاہے جیسے چاہے کر سکتا ہے
Leave a Comment