سنت معروفہ
اللہ تعالی کی ایک سنت معروفہ کا بیان
اللہ تعالی کی سنت ہے کہ اگر وہ کوئی چیز یا نعمت سے انسان کو محروم کرتا ہے یا دینے کے بعد واپس لے لیتا ہے تو اس کا بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے ۔
آپ نے زندگی میں کئی بار اور کئی لوگوں میں یہ بات دیکھی ہوگی کہ وہ اگر ایک نعمت یا صلاحیت سے محروم ہیں تو قدرت اس کے بدلے میں اس کو ضرور کوئی ایسی متبادل صلاحیت یا خوبی عطا کرتی ہے جو اس نعمت کی سے محرومی کا ازالہ کر دیتی ہے
بس ایک شرط کے ساتھ اور وہ ہے صبر و استقامت سے اس کو برداشت کرنا اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھنا مثلا اگر کسی کی آنکھیں نہ ہوں اور وہ اس پہ صابر رہے شاکی نہ بنے تو حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالی اس کو اس کے بدلے میں جنت عطا فرمائے گا
اور اگر کسی کی کوئی پسندیدہ چیز ضائع ہو جائے تو اللہ تعالی اس کو جنت میں سے بدلہ عطا فرمائیں گے
یہی سنت معروفہ ہے
اور اگر کسی کا نابالغ بیٹا خدانخواستہ فوت ہو جائے اور وہ اس مصیبت پر صابر رہے اور جزع فزع شکوہ شکایت نہ کرے تو اللہ تعالی اس کو بدلے میں جنت میں ایک گھر دیں گے جس کا نام بیت الحمد (یعنی تعریف و توصیف کا گھر )ہو گا
اس پہ آپ اگر چاہیں تو مزید چیزوں کو قیاس کر لیں کہ جو بھی چھوٹا یا بڑا نقصان اس جہان میں ہوتا ہے وہ اللہ تعالی کے ہاں سے بڑھ چڑھ کے بدلہ ملنے کا ذریعہ بنتا ہے
لہذا جب کبھ کوئی مصیبت پہنچے تو اس پہ ضرورت سے زیادہ افسوس نہ کر کیونکہ اس کا بدلہ بھی اس ذات کے پاس موجود ہے جس نے یہ مصیبت تیرے اوپر بھیجی ہے پس وہ بدلے میں جنت عطا کرے گا اور اجرعظیم بھی عطا کرے گا
کیونکہ سنت معروفہ یہی ہے
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ایک آیت میں اس مضمون کی طرف اشارہ دیا ہے
چنانچہ ارشاد باری کو غور سے سنیں اور پڑھیں اور سمجھیں
قولہ تعالی۔ سَلٰمٌ عَلَیکُم بِمَا صَبَرْتُم فَنِعمَ عُقْبَی الدَّارِ
ترجمہ کہ تم نے (دنیا میں )جو صبر سے کام لیا تھا ،ااس کی وجہ سے اب تم پر سلامتی ہی سلامتی نازل ہوگی اور (تمھارے )اس اصلی وطن میں یہ تمھارا بہترین انجام ہے
یعنی آج تم پر ایسی سلامتی اور رحمت نازل ہو گی جس کے تمھیں کوئی تکلیف اور مصیبت نقصان نہیں پہنچائے گی اور تمھیں اس مبارک مقام اور درجہ میں تمھارے صبر نے پہنچایا ہے
پس معلوم ہوا کہ جو کوئی بھی جنت میں اعلی اور ارفع مقام پانا چاہتا ہے لیکن اعمال میں خود کو کمزور پاتا ہے تو وہ بھی اگر مصیبت پر صبر اختیار کرے تو اس مقام پہ پہنچ سکتا ہے
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے وہ نیک بندے جو دنیا کی زندگی میں مصائب اور حالات کا شکار رہے ان کو آخرت میں بآوازبلند پکارا جائے گااور کہا جائے گا کہ جو مصائب تم نے جھیلے ہیں آج ان کے بدلے کا وقت ہے اور بدلہ بھی ایسا کہ جس کی مثال نہ مل سکے یعنی جنت میں اعلی درجات
اس لئے کہ اللہ تعالی کی سنت معروفہ کا تقاضا ہے
اور سورۃ بقرۃ میں مصیبت زدہ لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے
قولہ تعالی
اُولٰئِکَ عَلَیھِم صَلٰوٰاتٌ مِن رَبِّھِم وَرَحْمَۃٌ واُولٰئِکَ ھُمُ الْمُھتَدُون
ترجمہ یہ(جن کو خوف ،بھوک ،مال جان کی کمی میں مبتلا کیا گیا)وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں اوررحمت ہے اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں
یعنی یہی لوگ ہیں جو اس اعزز کے مستحق ہیں کہ ان کا تذکرہ ملأ اعلی یعنی فرشتوں کی جماعت میں ہو اور یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں برملا کہا جاسکتا ہے کہ یہ سیدھے راستے کی طرف راہ پانے والے ہیں
لہذا اس دنیا فانی میں مصائب کا شکار اک لحاظ سے بشارت کے مستحق ہیں کہ جو انعام ان کیلئے ہے وہ کسی اور کے نصیب میں نہیں ہوگا
اور کیوں بشارت نہ ہو ؟جبکہ دنیا کی عمر بہت چھوٹی ہے اس کے خزانے حقیر ہیں قلیل ہیں فانی ہیں اور آخرت اس سے کئی گنا بہتر اور باقی رہنے والا جہان ہے
لہذا جس کو یہاں تکلیف پہنچی اس کو وہاں بدلہ ملے گا اور جو یہاں تھکا وہ وہاں راحت پائے گا
کیونکہ سنت معروفہ ضرور پوری ہو کر رہے گی
باقی جن کے دلوں میں یہ دنیا گھر کر گئی ہے اور وہ اسی کے عشق میں مبتلا ہیں ان کے دلوں پر دنیا میں حصے کا کم ملنا بہت گراں گزرتا ہے اور دنیاوی راحت میں اگر کمی آ جائے تو ناقابل برداشت ہو جاتی ہے کیونکہ وہ دنیا ہی کے طالب ہیں اسی کے نفع نقصان کو سب کچھ سمجھتے ہیں چنانچہ اگر کوئی مصیبت نازل ہو جائے تو ان پر شاق گزرتی ہے کیونکہ اس طرح کے لوگ صرف اپنے پاؤں کے نیچے ہی دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں وہ کبھی بھی نظر اٹھا کر سامنے نہیں دیکھتے اگر سامنے یعنی آخرت کے جہان کو ذہن میں رکھیں تو کبھی بھی مایوسی نہ ہو
لہذا اے مصیبت میں متلا لوگو دنیا میں تم سے جو راحت بھی چھوٹے گی وہ آخرت میں تمھارے لئے نفع مند ہو گی کیونکہ جس ذات نے تمھیں مصیبت میں مبتلا کیا ہے وہ عاجز نہیں کمزور نہیں اور بے بس نہیں
لیکن اس کی حکمتوں کو وہی جانتا ہے اور کوئی اس کی حکمتوں تک نہیں پہنچ سکتا تو جو پردے میں ہے اسے کیسے دیکھے گا ؟
Leave a Comment