کریلے کا شربت
کیا آپ کو معلوم ہے کہ کریلے اور لیموں سے بھی میٹھا اور لذیز شربت تیار ہو سکتا ہے؟؟
کبھی آپ نے سنا ہو کہ لیموں کے رس سے یا کسی اور کڑوی و نمکین چیز سےمیٹھا اور شیریں شربت تیار ہو سکتا ہے
آپ کا کیا خیال ہے؟ ہو سکتا ہے؟ جی ،،تو کیسے؟
ٹھرئیے صبر کریں بتاتے ہیں آپ کو
تو بات یہ ہے کہ یہ ایک تشبیہ و تمثیل ہے ناموافق حالات کو محنت اور تدبیر و ثابت قدمی کے ساتھ موافقت میں تبدیل کرنےاور ناکامی والے حالات سے کامیابیوں کے راستے نکالنے کی ۔
تو یہ ایسا ہو گیا کہ گویا ترش اور کھٹی چیز کو اتنا کارآمد بنایا کہ وہ شیریں اور مزے کی چیز میں تبدیل ہو گئی ۔
اس طرح تیار ہو سکتا ہے کریلے کا شربت
اور عقلمند و سمجھ دار آدمی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ خسارے اور نقصان کو فائدے میں تبدیل کر لیتا ہے اور جاہل و بزدل اپنی بیوقوفی اور موٹے دماغ کی وجہ سے ایک مصیبت کو دو مصیبتوں میں تبدیل کر لیتا ہے یا چھوٹی مصیبت کو بڑی میں تبدیل کر بیٹھتا ہے کیونکہ بیوقوف و جاہل کے سامنے جب کوئی پریشانی آ جائے تو وہ سوچ بچار کر کے راستہ نکالنے کی بجائے غصہ اور چڑچڑے پن کا شکار ہو کر حل کرنے کی کوشش کرتا ہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک مصیبت کئی مصیبتوں میں اور چھوٹی مصیبت بڑی مصیبت میں تبدیل ہو جاتی ہے
آئیے آپ کو چند مثالیں نمونے کے طور پہ پیش کریں جس سے آپ کو بات سمجھنا بالکل آسان ہو جائے گا ۔
مثال نمبر اول ۔
اور نمونہ سید الانبیاء والمرسلین ﷺ کی کی مبارک زندگی سے سمجھتے ہیں تاکہ پتہ چلے کیسے مشکل معاملات سے آسانیاں یا فوائد نکالے جا سکتے ہیں ۔
مثلا آپ سب جانتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو اپنے آبائی شہر مکۃ المکرمۃ سے جلا وطن کیا گیا یہ ایک بہت بڑا صدمہ ہوتا ہے اپنے آبائی شہر اور گھر بار سے الگ ہونا
جن کو کبھی زندگی میں یہ دکھ سہنا پڑے وہ جانتے ہیں کہ یہ کتنا بڑا دکھ اور صدمہ ہو تا ہے
چنانچہ آنحضرت ﷺ نے مکۃ المکرمۃ سے اپنی بے دخلی کو روگ جاں میں تبدیل نہیں کیا بلکہ مدینۃ المنورۃ میں قیام فرما کر ایسی محنت فرمائی کہ چند سالوں میں ایک ایسی ریاست اسلامی کی بنیاد رکھ دی جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے
نہ صرف مثال نہیں دی جاسکی بلکہ آج تک اس جیسی انسان دوست ریاست کوئی اور قوم کھڑی نہ کر سکی
چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ کریلے کا شربت کیسے تیار ہو تا ہے
مثال نمبر دوئم ۔
حضرت امام احمد بن حنبل ؒ (امام بغداد )کو اپنے موقف کے صحیح ہونے اور اس سے رجوع نہ کرنے کی پاداش میں جیل میں ڈالا گیا انہوں نے جیل کو اپنی کمزوری نہیں بنایا بلکہ جیل میں بھی ایسی ثابت قدمی اختیار فرمائی کہ امام السنۃ کا لقب لیکر جیل سے باہر تشریف لائے ۔
دیکھئیے اگر اما م احمد بن حنبل ؒ مناسب حکمت عملی اختیار نہ فرماتے اور بے تکی مزاحمت کرتے تو امت مسلمۃ کا اتنا نقصان ہو جاتا کہ اس کی تلافی نہ ہو سکتی ۔
نوٹ۔
امام احمد بن حنبل ؒ کی پیدائش بغدا شہر میں سن ۱۶۴ ہجری میں ہوئی اور بغداد ہی میں ۲۴۱ ہجری میں وفات پائی ۔
یو ںامام احمد بن حنبلؒ نے خود کو پیش کئے گئے کریلے کا شربت تیار کر لیا
مثال نمبر سوئم۔
حضرت شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کو بھی حق گوئی کی پاداش میں جیل جانا پڑا تو جب وہ جیل سے باہر تشریف لائے تو علمی کتب کا ایک ذخیرہ تھا جو انہوں نے جیل میں بیٹھ کر لکھا تھا جو امت کے کام آیا اور آج تک کام آ رہا ہے
اگر جیل میں بے تکان کا احتجاجی رویہ اختیار فرماتے تو ایک گراں قدر علمی ذخیرہ امت کے ہاتھ نہ لگتا ۔
اور نہ کریلے کا شربت تیار ہوتا
نوٹ ۔
امام ابن تیمیہ کا اصل نام ہے ابو العباس احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام النمیری الحرانی اور آپ کی ولادت ۶۲۱ ہجری بمطابق ۲۲ جنوری ۱۲۶۳ عیسوی میں ہوئی اور وفات ۲۰ ذوالقعدہ ۷۲۸ ہجری بمطابق ۲۶ستمبر ۱۳۲۸ عیسوی میں ہوئی ہے
مثال نمبر چہارم ۔
شمس العلماء و شمس الائمۃ رضی الدین حضرت امام سرخسی ؒکو بھی وقت کے حکمرانوں نے ایک ویران و بیابان کنویں میں قید کر دیا اور جرم کیا تھا؟ اس بارے میں دو باتیں منقول ہیں ۔
اول :آپ نے عدت میں نکاح کرنے کے خلاف فتوی دیا تھا ۔
دوم :اس وقت کے حکمرانوں نے ناجائز ٹیکس لگانے شروع کر دئیے تو آپ نے اس ظالمانہ ٹیکس کے خلاف فتوی جاری کردیا جس کے نتیجے میں کنویں نما گڑھے میں قید ہونا پڑا۔
آپ خود ہی دیکھ لیں یہ کتنی سخت قید ہے کہ کنواں وہ بھی ویران کس قدر خوفناک منظر ہوتا ہوگا اور ضرویات زندگی کنویں میں پورا کرنا کس قدر مشکل ہے ؟ مگر آفرین ہے اس اللہ کے نیک بندے پر کہ انہوں نے اس سخت حال کو بھی رکاوٹ نہیں بننے دیا اور واویلہ مچانے کی بجائے علمی مشغلہ جاری رکھا اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ بند نہیں ہونے دیا اور علم فقہ میں فقہ حنفی کی ایک مستند کتاب جو ماخذ حنفیت کا درجہ رکھتی ہے جس کا نام المبسوط ہے جس کی بیس جلدیں ہیں لکھوا ڈالیں اور بقول بعض تیس جلدیں ہیں ۔
یوں جوانمردی سے کریلے کا شربت تیار کیا
اور بھی کچھ کتابیں ہیں جو کنویں سے لکھوائی ہیں لیکن وہ مکمل بعد میں ہوئی ہیں
ہائیں؟ کنویں میں کتابیں ؟کیسے لکھیں؟
تو بتاتے ہیں کہ کیسے لکھیں
وہ اپنے شاگردوں کو ایک وقت مقررہ پہ کنویں کے پاس بلواتے وہ کاغذ و قلم لے کر بیٹھ جاتے اور حضرت کنویں کے اندر سے بلندآواز سے بول بول کر لکھواتے ۔اور یوں بیس جلدیں تیار ہو گئیں
ہے نہ حیرت انگیز ؟
بس ،کرنے والے کر لیتے ہیں اور نہ کرنے والے بہانے بناتے رہتے ہیں
اور ہاں آپ بھی کرنے والے بنیں ،انشاءاللہ راستے کھلتے جائیں گے ۔
نوٹ۔
امام سرخسی ؒ کا پورا نام ہے
ابوبکر محمد بن سہل اور برہان الاسلام کا لقب بھی دیا گیا ہے خراسان کی ایک بستی سرخس میں سن، ۴۰۰ ہجری بمطابق ۱۰۰۹ یا ۱۰۱۰ عیسوی میں پیدائش ہوئی اور وفات ۴۸۳ ہجری بمطابق ۱۰۹۶ عیسوی میں ہوئی
مثال نمبر پنجم۔
ایک وقت آیا اور علامہ ابن اثیر ؒ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے انہوں نے اس حالت میں جامع الاصول فی حدیث الرسول اور النھایۃ فی غریب الحدیث والاثر نامی بڑی ضخیم کتابیں لکھ ڈالیں اور حدیث کی مفیدترین کتابیں بھی اسی دورانئیے میں لکھیں ۔
نوٹ ۔
علامہ ابن اثیر جزری کا اصل نام مجددالدین مبار ک بن محمد ہے اور کنیت ابو السعادات ہے اور آپ کی ولادت سن، ۵۴۴ ہجری میں جزیرہ ابن عمر نامی جگہ میں ہوئی اور وفات ۶۰۶ ہجری میں ۶۲ سال کی عمر میں ہوئی
تو پھر کیسا لگا کریلے کا شربت؟
مثال نمبر ششم ۔
علامہ ابن الجوزی ؒ کو مخالفت کی وجہ سے بغداد سےجلا وطن کر دیا گیا تو انہوں نے جلا وطنی کی حالت میں قرآت سبع پر ایک بہترین کتاب لکھ ڈالی ۔
نوٹ ۔
علامہ ابن الجوزی کا نام عبدالرحمن ہے اور لقب جمال الدین ہے اور کنیت ابو الفرج ہے اور ابن الجوزی کے نام سے مشہور ہیں ،آپ کی ولادت ۵۰۸ ہجری یا ۵۰۹ ہجری یا ۵۱۰ ہجری یا ۵۱۱ ہجری یا ۵۱۲ہجری بمطابق ۱۱۱۶ عیسوی میں بغداد شہر میں درب حبیب نامی جگہ پہ ہوئی اور وفات ۵۹۷ ہجری بمطابق ۱۲۰۰ یا ۱۲۰۱ عیسوی میں بغداد شہر میں ہوئی
مثال نمبر ہفتم ۔
مالک ابن الریب ایک بزرگ ہیں انہیں جب وہ بخار چڑھا جس میں ان کی وفات ہوئی تو انہوں نے اس مرض کی حالت میں اپنا مشہور ومعروف بہت بڑا قصیدہ جو عباسی حکومت کےکئی شعراء کے دیوانوں کے برابر تھا لکھا اور تصحیح کیلئے دو ماہرین کے پاس بھیجا ۔
ہوا نا پھر تیار کریلے کا شربت؟
نوٹ ۔
مالک ابن الریب کا پورا نام ابو عقبہ مالک بن الریب بن حوط بن قرط المازنی التمیمی ہے آ پ کی پیدائش ۱۷ ہجری بمطابق ۶۳۸ عیسوی میں بصرہ شہر کی بادیہ بنی تمیم نامی جگہ پر ہوئی اور وفات ۵۷ ہجری بمطابق ۶۷۷ عیسوی میں ہوئی
آپ مشہور و معروف شاعر ہیں اور بہترین شاہ سوار بھی ہیں
مثال نمبر ہشتم ۔
ابو ذؤیب ھذلی کے بیٹے وفات پا گئے تو اس پہ انہوں نے ایسا مرثیہ لکھا جس کے سامنے زمانہ گویا کہ گونگا ہو گیا اور لوگ اس کی وجہ سے ہکا بکا حواس باختہ اور مدہوش سے ہو گئے اور تاریخ نے اس کیلئے تالیاں بجائیں یعنی اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔
اور ابو ذؤیب ھذلی کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ آپ تابعی ہیں اور جس وقت آنحضرت ﷺ کی وفات ہو گئی اور تدفین کی تیاری ہو رہی تھی اس وقت مدینہ منورۃ میں پہنچے تھے
خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ جب تم پر مصیبت اچانک آ پڑے تو اس کے کسی مثبت پہلو کی طرف دیکھ اور یہ سمجھ کہ کسی بڑی آفت سے محفوظ ہو گیا ہوں اور یہ سوچ کہ اگر یہ مصیبت نہ آتی تو فلاں فائدہ جو مجھے حاصل ہوا ہے وہ حاصل نہ ہوتا اس طرح تم اس مصیبت کے سائیڈ ایفیکٹ سے بچ جاؤ گے ۔
اور جب تمھیں کوئی لیمون یا کریلےکے رس کا یا کسی اور کڑوی چیز کابھرا ہوا پیالہ پکڑائے تو تم اس میں ایک دو مٹھی چینی یا شہد شامل کر کے اس کو میٹھا بنالو ، مطلب کہ اس رس سے کوئی مفید چیز بنا لیں تاکہ وہ کام آسکے ۔
اور اگر کوئی تمھیں ازدھا پیش کرے ہدیہ میں تو تم اس کی قیمتی کھال اتار کر باقی کو چھوڑ دو ،مطلب یہ کہ جو تمھیں نقصان پہنچانا چاہے تم اپنی عقل کو کام میں لا کر اس نقصان سے بچ نکلو بلکہ اس سے فائدہ اٹھا کر دشمن کو حیرت میں ڈال دو ۔
حتی کہ اگر خدانخواستہ تمھیں بچھو کاٹ لے تو یہ سمجھو کہ اس کے کاٹنے سے خون میں جو( ایک پیلے رنگ کا پتلا سا مادہ ہوتا ہے جو خون کے گاڑھا ہونے کے وقت اس سے الگ ہو جاتا ہے ) وہ مزید مضبوط اور طاقتور ہو جاتا ہے اور خون میں ایسی حفاظتی چیزیں پیدا ہو جاتی ہیں کہ اس کے بعد سانپ کا زہر بھی اثر نہیں کرتا ۔
بس تم ایسا کرو کہ اپنے پتھر کی مانندسخت برتن میں ٹھنڈی ہوا کا ایسا جھونکا دو کہ ہمارے لئے اس میں سے پھول اور گلاب اور چنبیلی باہر آئے
اور ایسا کیوں ممکن نہیں جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے
وَعَسٰی اَن تَکرَھُوا شَیئًا فَھُو خَیرٌ لَّکُم
ترجمہ : ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اپنے لئے ناگوار سمجھ کر مسترد کردو حالانکہ اس چیز کے اختیار کر لینے میں تمھارہ اپنا ہی فائدہ ہو جو فی الحال تمھیں نظر نہیں آ رہا ۔
ایک واقعہ ہے کہ کسی زمانے میں دو بہترین شاعر اکٹھے گرفتار ہو گئے اور جیل میں ڈال دئیے گئے ان میں ایک تو نیک فال لینے کا عادی تھا اور دسرا بد گمانی اور بد فالی لینے کا عادی تھا چنانچہ ان دونوں نے جیل کی کھڑکی سے سر باہر نکالا اور جو نیک گمان اور نیک فالی کا عادی تھا اس نے سامنے ستاروں کو دیکھا اور ہنس دیا کہ شکر ہے سامنے ستارے نظر آرہے ہیں اور ہم باہر کے نظارے دیکھنے کے قابل ہو گئے ہیں جیل کے اندر سے جبکہ دوسرے نے ساتھ والے روڈ کی مٹی کو دیکھا اور رو پڑا کہ ہم اس مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں ۔
لہذا ہمیشہ مصیبت کی دوسری جانب دیکھنے کی عادت ڈالیں کیونکہ اس دنیا میں کوئی بھی شر محض شر نہیں ہوتا بلکہ اس میں خیر کے پہلو بھی ہوتے ہیں فتوحات چھپی ہوتی ہیں بس توجہ کی ضرورت ہے
اور یوں قربانیاں دینے سے تیار ہوا کرتا ہے کریلے کا شربت
Leave a Comment