پڑوسی کے حقوق
حصہ دوم اور آخری
الخامس: حضرت امام احمدؒ کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت ابوالعالیہؒ نے بتایا کہ انصار سے ایک آدمی نے کہا
خَرَجْتُ مَعَ اَھْلِی اُرِیدُ النَّبِیَّﷺ فَاِذَا بَہِ قَائِمٌ وَرَجُلٌ مَعَہُ مُقبِلٌ عَلَیہِ فَظَنَنتُ اَنَّ لَھُمَا حَاجَۃٍ قَالَ الاَنْصَارِیُّ لَقَد قَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ حَتّٰی جَعَلتُ اَرْثِی لِرَسُولِ اللہِﷺ مِنْ طُولِ القِیَامِ فَلَمَّا اِنْصَرَفَ قُلتُ یَا رَسُولَ اللہِ لَقَد قَامَ بِکَ ھٰذَا الرَّجُلُ حَتّٰی جَعَلْتُ اَرْثِی لَکَ مِنْ طُولِ الْقِیَامِ قَالَ وَلَقَد رَأَیتَہُ؟ قَلتُ نَعَمْ قَالَ أَتَدْرِی مَنْ ھُوَ؟ قُلتُ لَا قَالَ ذَاکَ جِبرَئِیلُ مَا زَالَ یُوصِینِی بِالْجَارِ حَتّٰی ظَنَنتُ اَنَّہُ سَیُوَرِّثُہُ ثُمَّ قَالَ اَمَا اِنَّکَ لَو سَلَّمتَ عَلَیہٖ لَرَدَّ عَلَیکَ الْسَّلَامَ
ترجمہ: ایک انصاری صحابیؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے اہل وعیال کوساتھ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا میری جو رسول اکرمﷺ پر پڑی تو آنحضرتﷺ کے ساتھ ایک آدمی کھڑا تھا جو آنحضرتﷺکی طرف پوری طرح متوجہ تھا۔ میں نے سمجھا کہ شاید کوئی کام ہوگا دونون کا اس لیے کھڑے ہیں۔ وہ انصاری صحابی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اتنی لمبی دیر اس کے ساتھ کھڑے ہرہے کہ مجھے ترس آنے لگا آپ ﷺ پر کہ آپ کو اتنا کھڑا ہونا پڑ رہا ہے کاش آپ اتی زیادہ دیر کھڑے نہ ہوتے۔ پھر جب وہ آدمی پلٹ گیا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ آدمی آپ کے ساتھ اتنی دیر کھڑا ہوا تھا کہ مجھے رحم آنے لگا آپ پر کہ آپ کو کتنی مشکل پیش آئی ہوگی؟ اس پر آنحضرتﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے اس آدمی کو دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں دیکھا ہے پھر آپ نے پوچھا جانتے ہو وہ کون تھا؟ میں نے کہا نہیں تو آپﷺ نے فرمایا وہ جبرئیل تھا جو مجھے پڑوسی کے حقوق بارے اتنی تاکید کر رہا تھا کہ مجھے لگا شاید پڑوسی کے وارث بننے کا حکم آ جائے گا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا او فلانے اگر تو اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جبرئیل کو سلام کرتا تو وہ تجھے تیرے سلام کا جواب دیتے۔
فائدہ: دیکھیں رحمت کائناتﷺ اتنی اتنی دیر کھڑے رہتے کہ دیکھنے والے کو ترس آ جاتا تھا لیکن حقوق کی اہمیت کی خاطر آنحضرتﷺ یہ مثال بھی قائم کر گئے اور اپنی امت کو یہ سبق دے گئے کہ حقوق میں خاص طور پر پڑوسی کی حقوق میں کوئی کوتاہی نہ کی جائے اس کے برعکس آج کی دنیا میں حقوق کے چمپئن عوام کو یا دوسروں کو کہتے ہیں حقوق کی پاسداری کا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ خود کوئی مثال قائم کرنے سے عاجز نظرآتے ہیں۔
پڑوسی کے حقوق
السادس: حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے
عَنْ جَابِرِ بنِ عَبْدِاللہؓ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْعَوَالِی وَرَسُولُ اللہِﷺ وَجِبرَئِیلُ عَلَیہِ السَّلَامُ یُصَلِّیَانِ حَیثُ یُصَلّٰی عَلَی الْجَنَائِزِ فَلَمَّا اِنْصَرَفَ قَالَ الرَّجُلُ یَا رَسُولَ اللہِ مَن ھٰذَا الرَّجُلُ الَّذِی رَأَیتُ یُصَلِّی مَعَکَ ؟ قَالَﷺ وَقَد رَأَیتَہُ؟ قَالَ نَعَم قَالَ لَقَد رَأَیتَ خَیرًا کَثِیرًا ھٰذَا جِبرَئِیلُ مَا زَالَ یُوصِینِی بِالْجَارِ حَتّٰی رَأَیتُ اَنَّہُ سَیُوَرِّثُہُ
ترجمہ : حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی عوالی (مدینہ منورہ کے آس پاس کے گاؤں دیہاتوں کو عوالی کہتے ہیں) سے مدینہ آیا اس وقت رسول اللہﷺ اور جبرئیل امین مدینہ کی جنازہ گاہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ جب جبرئیل علیہ السلام واپس پلٹ گئے تو اس آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ وہ کون تھا جسے میں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے؟ رسول اللہﷺ نے اس آدمی سے پوچھا اچھا تو واقعی تونے اس کو دیکھ لیا ہے؟ اس نے کہا جی ہاں دیکھ لیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا تونے بہت بڑی خیر کو دیکھ لیا ہے، یہ جبرئیل تھے جو مجھے پڑوسی کے حق کی تلقین اس زور دار انداز میں کر رہے تھے کہ مجھے لگا کہ ہو سکتا ہے پڑوسی کو پڑوسی کا وارث بنا دیا جائے۔
فائدہ:اگرچہ یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے ایک تو اس سے مزید تائید ہو جاتی ہے مضمون کی اور دوسرا حقوق کی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے کہ بار بار مختلف انداز سے اللہ کے رسولﷺ نے پڑوسی کے حقوق کو بیان فرمایا ہے اور تیسرا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک اور اچھے انسانوں کو دیکھنا باعث سعادت ہے کیونکہ جبرئیل جو اس وقت انسانی شکل میں تھے کے دیکھنے کو رسول اللہﷺ نے خیر کثیر کا سبب بتلایا ہے۔
یہ ہیں اسلام میں پڑوسی کے حقوق
السابع: حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی ایک اور روایت ہے
عَنْ جِابِرِ بنِ عَبدِاللہ ؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ اَلْجِیرَانُ ثَلَاثَۃٌ جَارٌ لَہُ حقٌّ وَاحِدٌ وَھُوَاَدْنَی َالْجِیرَانِ حَقًّا وَجَارٌ لَہُ حَقَّانِ وَجَارٌ لَہُ ثَلَاثَۃُ حُقُوقٍ وَھُوَ اَفْضلُ الْجِیرَانِ حَقًّا فَاَمَّا الْجَارُ الَّذِی لَہُ حَقٌّ وَاحِدٌ فَجَارٌ مُشْرِکٌ لَا رَحْمَ لَہُ لَہُ حَقُّ الْجِوَارِ وَاَمَّا الْجَارُ الَّذِی لَہُ حَقَّانِ فَجَارٌ مُسلِمٌ لَہُ حَقُّ الْاِسْلَامِ وَحَقُّ الْجِوَارِ وَاَمَّا الَّذِی لَہُ ثَلَاثَۃُ حُقُوقٍ فَجَارٌ مُسلِمٌ ذُورَحْمٍ لَہُ حَقُّ الْجِوَارِ وَحَقُّ الْاِسْلَامِ وَحَقُّ الرَّحْمِ
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ پڑوسی تین اقسام پر ہیں پہلا جس کا صرف ایک حق ہے یہ پڑوسیوں میں سے کمتر حقوق والا ہے۔ دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں اور تیسرا وہ پڑوسی ہے جس کے تین حقوق ہیں اور یہ پڑوسیوں میں سب سے مضبوط حق والا پڑوسی ہے۔ اچھا تو ایک حق والا پڑوسی وہ ہے جو مشرک ہو یعنی غیر مسلم ہو اور رشتہ داری بھی نہ ہو اور دو حقوق والا وہ پڑوسی ہے جو مسلمان ہے اس کے دو حق ہیں ایک حق اسلام اور ایک حق جوار اور تین حقوق والا وہ پڑوسی ہے جو مسلمان ہے اور رشتہ دار بھی ہے اس کے تین حق ہیں ایک اسلام کا حق دوسرا پڑوس کا حق اور تیسرا رشتہ داری کا حق۔
فائدہ: اس حدیث میں پڑوس کی مکمل تفصیل بیان کی گئی ہے اور تاکہ حقوق کی ادائیگی میں دقت پیش نہ آئے اور بلا تکلف جس کا جو حق بنتا ہے وہ ادا کرنے کے قابل ہو جاتا انسان ورنہ اگر حقوق کی حد بندی بندہ خود کرے تو یقینا کم یا زیادہ کر بیٹھے گا۔
الثامن: اماں عائشہ ؓ سے روایت ہے
عَنْ عَائِشَۃَؓ اَنَّھَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللہِﷺ فَقَالَتْ اِنَّ لِی جَارَینِ فَاِلٰی اَیِّھِمَا اُھْدِی؟ قَالَﷺ اِلٰی اَقْرَبِھِمَا مِنْکِ بَابًا
ترجمہ: اماں عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرتﷺ سے پوچھا کہ میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے کس کو ہدیہ بھیجوں؟ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا جس کا دروازہ تیرے زیادہ قریب ہے اس کو۔
فائدہ: حضرت عائشہ ؓ کے پوچھنے کا مقصد یہ تھا اگر دو میں سے ایک کو دینا چاہوں تو کس کو دوں؟ پہل کس سے کروں؟ کس پڑوسی کا حق زیادہ اور کس کا کم ہے؟ کیونکہ اگر دونوں کو دینے کا ارادہ ہو تو پھر پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
التاسع: حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے
عَنْ عُقْبَۃَ بنِ عَامِرٍ قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ اِنَّ اَوَّلَ خَصْمَینِ یَومَ الْقِیٰمَۃِ جَارَانِ
ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے جن دو جھگڑا کرنے والوں کا فیصلہ ہوگا وہ دو پڑوسی ہوں گے۔
فائدہ: دو فریق جو آپس میں جھگڑا کر کے اللہ تعالی کے پاس جائیں گے ظاہر ہے ان میں قیامت کے پورے عدل وانصاف سے فیصلہ ہوگا لیکن سب سے پہلے جن سے آغاز ہوگا وہ دو پڑوسی ہوں گے۔
واللہ اعلم
Leave a Comment